نشانِِ منزل صدیق اکبرؓ

وہ ہستیاں جن کی زندگی منزل بنی اُن کے تذکرے ہم فراموش کیے بیٹھے ہیں


جن دنیاداروں کی زندگی صرف حصولِ زر کے لیے وقف رہی ان کے دن ہمیں خُوب یاد ہیں۔ فوٹو:فائل

اسلام وہ حقیقت ہے کہ منکر بھی جسے کلّی طور پر جھٹلا نہیں سکتا۔ اسلام چوں کہ دین فطرت ہے اور تمام فطری تقاضوں کو بہترین طریقے سے پورا فرماتا ہے اس لیے دنیاوی کام یابیوں کے پیچھے بھی تحقیق بہ آواز بلند یہ ثابت کرتی نظر آتی ہے کہ انسان اسلام کے وضع کردہ اصولوں کے بغیر دنیاوی ترقی کی منازل بھی طے نہیں کرسکتا۔

جب اس کے ظاہری پہلو سے بڑھ کر باطنی پہلو پر توجہ مبذول ہو تو سمجھ آتی ہے کہ یہ عظیم اور انمول مگر واحد ذریعہ ہے جو بشر کو بندہ بناتا ہے اور بندے کو تراش کر بندگی کی لذتوں سے آشنا کر دیتا ہے۔ بہ توفیق الٰہی یہ آشنائی گرہیں کھولتی جاتی ہے کہ خالق کون ہے؟ مخلوق کی کیا حیثیت ہے؟ کارگہۂ حیات کیا ہے اور امتحان کیا ہے؟ زندگی کیا ہے اور موت کیا ہے؟ مردود کون ہے اور مُقرب ہونا کیا ہے؟ فنا کی حدود کیا ہیں اور حیات ابدی کیا ہے؟

اﷲ پاک نے انبیا و رسل علیہم السلام کو مخلوق کی تربیت کا فریضہ سونپا اور ان عظیم ہستیوں میں محمد رسول اﷲ ﷺ کو ختم الرسل و امام الانبیائؑ مبعوث فرمایا۔ اگر کُل بشریت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ایک جماعت انبیاء و رسل علیہم السلام کی اور دوسری غیر انبیاء کی ہوگی۔ امت محمد رسول اﷲ ﷺ کو اﷲ کریم نے بے شمار عظمتوں میں سے ایک ایسی منفرد عظمت عطا فرمائی ہے کہ جس کا ذکر بھی کلام ذاتی میں فرمایا کہ کل بشریت میں دو ہستیاں ایسی ہیں جنہیں معیت ذاتی نصیب ہوئی۔

تما م انبیائؑ کو ہمیشہ معیت نصیب رہتی ہے لیکن وہ معیت صفاتی ہوتی ہے۔ اہل اﷲ کو جو معیت نصیب ہے وہ بندے کی صفات سے مشروط ہوتی ہے۔ انبیاء ؑ میں نبی اکرم ﷺ اور غیر انبیاء میں حضرت ابُوبکر صدیقؓ وہ ہستیاں ہیں جن کی ذات ہائے مقدسہ کو اﷲ کریم کی ذاتی معیت نصیب ہے۔ فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَاَ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب وقت ہجرت نبی اکرم ﷺ حضرت ابُوبکر صدیقؓ کے کندھوں پہ سوار تھے تو عالم خلق کو حضور ﷺ سے تعلق حضرت صدیق اکبرؓ کے وجود مبارک سے نصیب تھا۔ عشق نبویﷺ کی بات ہو یا اطاعت رسول ﷺ کی، بندگی کی عظمتیں ہوں یا نبی ﷺ کی تربیت کا عملی نمونہ اگر نشانِ منزل کے طور پر چناؤ کرنا ہو تو سر فہرست نام مبارک آئے گا حضرت ابُوبکر صدیقؓ۔

حضرت ابُوبکر صدیقؓ کی پیدائش عثمان بن ابی قحافہ کے گھر مکۃ المکرمہ میں ہوئی۔ آپؓ کی والدہ ماجدہ کا نام ام الخیر سلمیٰ اور قبیلہ قریش کی شاخ بنو تمیم تھا۔ آپؓ کا سلسلہ نسب نبی کریم ﷺ سے ملتا ہے۔ آپؓ کی ازواج مبارکہ کی تعداد چار، تین بیٹے اور تین ہی بیٹیاں تھیں۔ آپؓ کا ذریعۂ معاش تجارت تھا۔ آپ ؓ اہل مکہ میں متمول اور قابل احترام حیثیت کے مالک تھے۔ آپ ؓ کا دور خلافت دو سال تین ماہ اور گیارہ دن تھا۔ آپؓ نے 22 جمادی الثانی 13ہجری کو تریسٹھ برس کی عمر میں مدینہ منورہ میں دار فانی سے پردہ فرمایا۔

آپؓ بالغ افراد میں کسی ہچکچاہٹ کے بغیر پہلی ہی دعوت پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ ﷺ کی مکی زندگی سے لے کر وصال نبوی ﷺ کے دن پیشانی مبارک پر بوسہ دینے تک ہمہ وقت حاضر خدمت اور تعمیل حکم میں سر تسلیم خم رہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ہم نے ہر شخص کے احسان کا بدلہ چکا دیا، مگر ابوبکر صدیقؓ کے احسانات ایسے ہیں کہ ان کا بدلہ اﷲ جل شانہ ہی عطا فرمائے گا۔ آپؓ واحد ہستی ہیں جنہیں مسلسل چار نسل تک شرف صحابیت نصیب ہوا۔

والد محترم حضرت ابی قحافہؓ، آپؓ، صاحب زادے حضرت عبدالرحمن اور پوتے حضرت ابُوعتیق محمدؓ۔ آپؓ کے پہلے نام عبدالکعبہ کی تبدیلی عبداﷲ کے ساتھ صدیق اور عتیق کے القابات دربار رسالتؐ سے نصیب ہوئے۔ آپؓ نے وصال نبویﷺ کے امتحان میں ثابت قدم رہتے ہوئے نوزائیدہ اسلامی ریاست کو انتہائی قلیل دور خلافت میں مضبوط بنیاد پر کھڑا کر دیا۔ آپؓ تدوین قرآن، ابتداء تسخیرِ عراق و شام، منکرین زکوٰۃ کا سد باب نیز انسداد فتنہ ارتداد کا سبب بھی ہوئے۔

آپؓ کے وصال ِمبارک کے مہینے میں لکھتے ہوئے یہ سوچ رہا ہوں کہ آج ہم کس حال کو پہنچ چکے ہیں کہ جن دنیادار لوگوں کی زندگی صرف حصولِ زر کے لیے وقف رہی ان کے دن ہمیں خُوب یاد رہتے ہیں مگر وہ ہستیاں جن کی زندگی نشانِ منزل بنی ان کے تذکرے ہم فراموش کیے بیٹھے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں