صدیق  ؓ کے لیے ہے خدا کا رسول ﷺ بس

سیّدنا ابُوبکر صدیقؓ تقریباً نبی اکرم ﷺ کے ہم عمر اور ہم مزاج و ہم خیال بھی تھے

سیّدنا ابُوبکر صدیقؓ تقریباً نبی اکرم ﷺ کے ہم عمر اور ہم مزاج و ہم خیال بھی تھے۔

آپؓ کا نام عبداﷲ، کنیت ابُوبکر اور صدیق کے لقب سے بلائے اور پہچانے جاتے ہیں۔ والد کا نام قحافہ تھا جو قریش کی شاخ بنو تمیم سے تعلق رکھتے تھے۔

چھٹی پشت پر آپؓ کا نسب سیّدالکونین حضرت محمد مصطفی ﷺ سے جا ملتا ہے۔ آپؓ کا پیشہ تجارت تھا۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی آپؓ کی ذاتِ مبارکہ خرافاتِ زمانہ سے بالکل پاک تھی۔ اس زمانے میں بھی لوگ آپؓ کے حسنِ اخلاق ، حق گوئی و حق شناسی کے قائل تھے اور اس کے ساتھ شرفائے مکہ کے ہاں بھی آپؓ کو قدر و منزلت حاصل تھی۔

سیّدنا ابُوبکر صدیقؓ تقریباً نبی اکرم ﷺ کے ہم عمر اور ہم مزاج و ہم خیال بھی تھے۔ قبول اسلام سے قبل آپؓ تجارت کی غرض سے ملک شام گئے تو وہاں آپؓ کی ملاقات بحیرا نامی راہب سے ہوئی۔ بحیرا راہب چوں کہ دُور دُور تک مشہور تھا اور لوگ اس سے خوابوں کی تعبیر پوچھنے کے لیے بہت طویل سفر کرکے آتے تھے۔

حضرت ابوبکر ؓ نے بھی بحیرا راہب کے سامنے اپنا ایک خواب بیان کیا: ''مکہ میں چاند اُتر آیا ہے اور ہر ایک گھر میں اس کی ایک ایک شاخ پہنچ گئی ہے۔ پھر چاند کے تمام حصے اکٹھے ہوکر ابُوبکرؓ کی گود میں آگئے ہیں۔'' بحیرا راہب نے تعبیر بتاتے ہوئے کہا: آپؓ اس نبی کی تابع داری کریں گے جس کے انتظار کا زمانہ ہے اور ان کا ظہور بہت قریب آچکا ہے اور آپؓ اُس نبی کے قُرب کی سب لوگوں کی نسبت زیادہ سعادت پائیں گے۔

چناں چہ اﷲ رب العزت نے صدیق اکبرؓ کا خواب بھی سچ کر دکھایا۔ بعثت نبویﷺ کے بعد ایک دن حضر ت ابوبکر ؓ حضورؐ سے ملاقات کے لیے گھر سے نکلے کہ راستے میں ہی ملاقات ہوگئی۔ آپ ؓ نے اﷲ کے نبی ﷺ کو مخاطب کر تے ہوئے پوچھا: ''اے ابُوالقاسمؐ! (حضورؐ کی کنیت) آپؐ اپنی قوم کی مجالس میں دکھائی نہیں دیتے۔ اور آپؐ کی قوم کے لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپؐ اُن کے باپ دادا کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔؟''

آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ''میں اﷲ کی طرف سے رسول بناکر بھیجا گیا ہوں اور میں تجھے اﷲ کی طرف دعوت دیتا ہوں۔'' جب اﷲ کے رسول ﷺ اپنی گفت گُو سے فارغ ہوئے تو ابوبکر ؓ نے کسی سوال و جواب کیے بغیر سرکا ر دو عالم ﷺ کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دے کر اِسلام قبول کرلیا۔ حضور ﷺ وہاں سے اس حال میں رخصت ہوئے کہ مکہ کے دو پہاڑوں کے درمیان اُس وقت آپؐ سے زیادہ خوش دوسری اور کوئی شخصیت نہ تھی۔

آنحضرت ﷺ کو حضرت سیّدنا ابُوبکرؓ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اکثر اپنے اصحابؓ میں بیٹھ کر ادائے صدیقؓ کا ذکر کچھ اس طرح فرماتے: ''میں نے اِسلام کے بارے میں جس سے بھی گفت گُو کی، اس نے سوال و جواب کیا، مگر ابُوقحافہ کے بیٹے ابوبکرؓ نے، کہ میں نے اس سے جو بات کہی اس نے قبول کرلی اور اس بات پر مضبوطی سے قائم رہا۔''

ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ایک بوسیدہ چوغہ پہنے ہوئے نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اس چوغے کے کنا روں کو کھجور کی شاخوں اور مختلف قسم کی ٹہنیوں سے جوڑا گیا تھا۔ اسی اثناء میں جبریل الامینؑ تشریف لائے اور دریافت کیا: اے محمدؐ! کیا وجہ ہے کہ ابوبکرؓ کے جسم پر بوسیدہ چوغہ نظر آرہا ہے، جسے عجب انداز میں جوڑا گیا ہے؟ حضور ﷺ نے جبریل امینؑ کے جواب میں فرمایا: '' اے جبریل! ابوبکر ؓ نے فتح سے پہلے اپنا مال مجھ پر خرچ کردیا تھا۔''

علامہ محمد اقبال ؒ نے کیا خوب کہا:

پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس


صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس

حضرت جبریل ؑ نے پھر عرض کیا کہ اﷲ تعالی آپؐ کو سلام کہہ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ آپؐ ابوبکر ؓ سے پوچھیں کہ کیا وہ اس حالت میں اﷲ سے خوش ہیں یا ناخوش؟ چناں چہ حضور ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کو مخاطب کرکے یہ سوال کیا جو حضرت جبریل ؑنے پوچھا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جب یہ سوال سُنا تو زارو قطار رونے لگے اور فرمایا: کیا میں اپنے رب سے ناخوش ہوسکتا ہوں؟ پھر فرمانے لگے: میں اپنے رب سے راضی ہوں، میں اپنے رب سے راضی ہوں، میں اپنے رب سے راضی ہوں۔

آقا ﷺ کو انہی خصوصیات کی وجہ سے سیّدنا ابوبکر صدیق ؓ سے خصوصی محبّت تھی۔ چناں چہ ارشاد فرمایا: ''جن کا مجھ پر احسان تھا، میں نے دنیا میں ہی ان کے احسان کا بدلہ چکا دیا سوائے ابوبکرؓ کے، کہ ان کو اﷲ قیامت کے دن بدلہ دے گا، جتنا مجھے ابوبکرؓ کے مال سے نفع پہنچا کسی اور کے مال سے نہیں پہنچا۔'' (تاریخ الخلفاء)

رسول اﷲ ﷺ کی دنیا سے رخصتی کے بعد سیّدنا ابوبکرؓ کو جانشین پیغمبرؐ منتخب کیا گیا۔ آپ ؓ نے صرف دو برس اور تین ماہ کے مختصر دورانیے میں جانشینی کا حق ادا کردیا۔ منکرین ختم نبوتؐ ہوں یا منکرین زکوۃ، سیّدنا صدیق اکبرؓ نے تما م فتنوں کی بیخ کنی کی۔ تمام اصحاب رسول ﷺ آپؓ کی زندگی پر رشک کیا کرتے تھے۔

انتقال سے چند روز قبل اپنی بیٹی اُم المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے دریافت فرمایا کہ رسول اﷲ ﷺ نے کس دن رحلت فرمائی تھی؟ انہوں نے فرمایا پیر کے دن۔ تو ارشاد فرمایا: ''مجھے بھی امید ہے کہ آج رات میری موت کا پیغام آجائے گا۔'' اگر اﷲ تعالیٰ اس خواہش کو پورا کر دیں تو میری قبر رسول اﷲ ﷺ کی مرقد کے پاس بنانا۔

پھر سوال کیا کہ نبی کریم ﷺ کو کتنے کپڑوں میں کفنایا گیا تھا؟

حضرت عائشہ ؓنے کہا! تین سفید کپڑوں میں۔

پھر اپنے جسم مبارک پر زیب تن دو چادروں کو دیکھ کر فرمایا کہ انہیں دھو لینا اور انہی میں مجھے کفن دینا۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ نے کہا: اباجان! میں نئی چادروں کا انتظام کر لوں گی۔

آپؓ نے فرمایا: نہیں بیٹی! زندہ، مرنے والے کی بہ نسبت نئے کپڑے کا زیادہ محتاج ہوتا ہے۔ اس لیے مجھے نئے کفن کی ضرورت نہیں ہے بل کہ یہ کسی مدینہ کے غریب کے کام آئے گا۔ چناں چہ وہ وقت بھی آن پہنچا جب اس صدیقؓ کے دنیا سے جانے کا وقت آ گیا جنہوں نے سب سے پہلے اسلام کی تصدیق کی۔ جنہوں نے سب پہلے نبوت ﷺ کی تصدیق کی۔ جنہوں نے سب سے پہلے معراج مصطفی ﷺ کی تصدیق کی۔ جنہوں نے سب سے پہلے محبوب ﷺ پر اپنی جان و مال نچھاور کیا۔ جو اپنے محبوب ﷺ کے طرز زندگی کو اختیار کر کے دنیا سے رخصت ہوئے۔

 
Load Next Story