یارِ غار و یارِ مزار حضرت ابُوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
آپؓ نے جھوٹے مدعیانِ نبوت کے خلاف تلوار اٹھا کر اُمت مسلمہ پر قیامت تک کے لیے احسان فرمایا
حضرت صدیق اکبرؓ کی جائے پرورش مکہ مکرمہ اور بنو تمیم سے تعلق رکھتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں آپؓ کا شمار رؤساء قریش میں ہوتا تھا اور دیگر سردار آپؓ سے مختلف اُمور میں مشورے کرتے تھے۔
آپؓ کا پیشہ تجارت تھا، آپؓ صرف تجارت کی غرض سے باہر تشریف لے جاتے تھے، اپنے اعلیٰ اخلاق، صاف گو، زبان کی سچائی اور ایمان داری سے آپؓ نے بیحد نفع کمایا اور تھوڑے ہی عرصے میں آپؓ کا شمار مکہ کے معروف تاجروں میں ہونے لگا۔ جب اسلام کا پیغام ملا تو اسلام کو دُنیا پر ترجیح دی اور صرف اسلام کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا دِل پہلے ہی ایمان قبول کرنے کی صلاحیت سے پوری طرح معمور تھا، صرف دعوت ملنے کی دیر تھی اور جو شمع جلنے کے لیے بے تاب تھی فوراً جل اٹھی۔
حضرت محمد بن عبدالرحمن بن عبداﷲ بن حصین تمیمیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''میں نے جس شخص کو بھی اسلام کی دعوت دی اس نے تردد اور تھوڑا بہت غور و فکر ضرور کیا مگر ابُوبکر صدیقؓ ایسے ہیں کہ جب میں نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے بغیر کسی تردد اور غور و فکر کے فوراً کلمہ پڑھ لیا اور اسلام میں داخل ہو گئے۔''
آپؓ نے جیسے ہی اسلام قبول فرمایا اور اس کی تبلیغ کھلے عام شروع کی تو مشرکین مکہ آپؓ کے جانیں دشمن بن گئے، آپؓ کو اذیت میں مبتلا کرنا ان کے نزدیک ایک ضروری اَمر تھا لیکن آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے رسول اﷲ ﷺ کی حفاظت اور ان کی حمایت و مدد کو اساس ایمان قرار دے رکھا تھا اور یہ اساس ہی حقیقی ایمان ہے، یقیناً سچا اور حقیقی مسلمان وہی ہے جو رسول اﷲ ﷺ کی محبت کے مقابل اپنی جان، مال، اولاد وغیرہ کسی چیز کی قطعاً پروا نہ کرے اور نہ ہی دُنیا کی ظاہری عزت و وجاہت اس کی راہ میں حائل ہو۔
آپؓ کا یہ بے مثال کردار آپ کی بے نظیر جرأت و بہادری ہے جس کا انہوں نے ہر موقع پر شان دار مظاہرہ فرمایا۔ اﷲ عزوجل کی وحدانیت کا اعلان کرنے کے بعد جب مشرکین نے آپؓ کو اور حسن اخلاق کے پیکر، محبوب رب اکبر ﷺ کو اذیتیں پہنچانا شروع کیں اس وقت آپؓ نے مشرکین کی طرف سے پہنچائی جانے والی تکالیف کو بڑے صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کیا۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایمان لانے کے بعد کفار کے ظلم استبداد کے مقابل میں کوہ گراں کی مانند ڈٹے رہے۔ آپؓ نے ہر معاملے میں صداقت کا عملی مظاہرہ کیا حتیٰ کہ واقعہ معراج اور آسمانی خبروں وغیرہ جیسے معاملات کو جن کو اس وقت کسی کی عقل نے تسلیم نہیں کیا، ان میں بھی فوراً تصدیق فرمائی۔ سرکار مدینہ ﷺ کی تمام معاملات میں جیسی تصدیق آپؓ نے کی ویسی کسی نے نہیں کی اس لیے آپؓ کو صدیق اکبر کہا جاتا ہے۔
آپؓ نہایت ہی خشوع و خضوع سے نماز ادا کرنے کا اہتمام کیا کرتے تھے اور عبادت نہایت احسن انداز میں ادا کرنے کے شائق تھے۔ آپؓ کا حد درجہ تقویٰ و اخلاص تھا کہ فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے بھی گرمیوں میں رکھتے تھے۔ آپؓ نہایت ہی غم خوار اور قلبی طور پر اس قدر رحم دل اور حساس تھے کہ کسی مسلمان کو بڑی مصیبت تو کجا چھوٹی سی تکلیف میں دیکھنا بھی آپؓ کو گوارہ نہ تھا' یہی وجہ ہے کہ آپؓ نے کئی ایسے مسلمان غلاموں کو اپنی ذاتی رقم ادا کر کے آزاد کروایا جو اپنے سفاک مالکان کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بنتے تھے۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہجرت کے وقت حضور نبی کریم ﷺ کی مصاحبت میں رہے' سفر کے دوران ہر قدم پر آپؓ نے حضور نبی کریم ﷺ کا بھرپور انداز میں ساتھ دیا۔ ہجرت کے بعد مسجد نبویؐ کے لیے زمین خرید کر وقف کی۔ طائف، بدر، احد، بنی مصطلق، حدیبیہ، خیبر، حنین اور فاتح مکہ کے معرکوں میں رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی معیت کا شرف ملا اور ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ آپؓ کو امیرالحج مقرر کیا گیا، حضور نبی کریم ﷺ کی علالت کے دوران امامت کا منصب ِ عظیم حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو نصیب ہوا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے فہم و فراست اور معاملہ کے سبب حضور نبی کریم ﷺ آپؓ سے امور مسلمین میں اکثر مشاورت فرمایا کرتے تھے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ انتہائی نرم مزاج تھے، اگر ان کی اپنی ذات کا معاملہ ہوتا تو عفو و درگزر سے کام لیتے اور کسی کو ذرّہ برابر تکلیف نہ پہنچاتے لیکن اگر معاملہ پیارے آقا ﷺ، عظمت اسلام یا مسلمانوں کا ہوتا تو غیرت جوش میں آ جاتی اور قطعاً کسی چیز کی پروا نہ کرتے بلکہ باطل کے سامنے اڑ جاتے اور ڈٹ کر اس کا مقابلہ فرماتے۔
راہِ خدا میں ایثار و قربانی میں آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر کوئی بھی سبقت نہ لے جا سکا۔ ایک موقع پر رسول اﷲ ﷺ نے رومی حملہ کے انسداد کے لیے انفاق سبیل اﷲ کا ارشاد فرمایا تو حضرت عمرؓ نصف مال و متاع لیکر حاضر ہوئے مگر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے گھر کا سارا اثاثہ پیش کر دیا، پھر جب رسول اﷲ ﷺ نے پوچھا : ''اپنے اہل و عیال کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟'' تو عرض کیا: ''اُن کے لیے اﷲ اور اس کا رسول ﷺ ہی کافی ہیں۔'' حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے اور کہنے لگے: ''میں کبھی بھی ابوبکر صدیقؓ سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔''
حضور سیّد عالم ﷺ کے دنیائے فانی سے ظاہری طور پر پردہ فرمانے کے بعد مہاجرین و انصار صحابہؓ نے باہمی اتفاقِ رائے سے آپؓ کو پہلا خلیفہ منتخب کرلیا۔ حضور نبی کریم ﷺ کے وصال ظاہری کے بعد تمام صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین شدتِ غم سے نڈھال تھے اور کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا ہو گا، ایسے میں آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین کے بکھرے ہوئے جذبات کو یکجا کیا اور شیرازۂ اسلام کو منتشر ہونے سے بچایا۔
آپؓ کے زمامِ خلافت ہاتھ میں لینے کے بعد کبھی کسی قسم کا ہنگامہ مسلمانوں میں خلافت کے مسئلے پر پیدا نہیں ہوا، بنو ہاشم اور انصار دونوں نے کبھی ان کی مخالفت نہیں کی اور ان کا کوئی فرد مسلح ہو کر یا باغی کی صورت میں ان کے سامنے نہیں آیا اور کسی نے ان کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں کیا۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مانعین زکوٰۃ کیخلاف تمام خطرات کے باوجود جہاد کیا' آپؓ کی خلافت راشدہ کے پہلے سال کا زیادہ تر حصہ مرتدین اور باغیوں کی بغاوت و ارتداد کو ختم کرنے میں گزرا' بغاوت و ارتداد کے خلاف جنگ و جہاد کے ساتھ مملکت کے انتظامی امور کی طرف بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے توجہ مبذول کیے رکھی اور مدینہ منورہ میں ایک بہترین نظام قائم فرما دیا۔
آپؓ نے کاذب نبیوں کے خلاف جہاد کیا انہیں تباہ و برباد کر دیا۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جھوٹے مدعیانِ نبوت کے خلاف تلوار اٹھا کر اُمت مسلمہ پر قیامت تک کے لیے احسان فرمایا کہ ختم الانبیاء محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے وہ کاذب و دجال ہے' اس کے خلاف مسلمانوں کو جہاد کرنا چاہیے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ 22 جمادی الآخر اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئے۔
آپؓ کا پیشہ تجارت تھا، آپؓ صرف تجارت کی غرض سے باہر تشریف لے جاتے تھے، اپنے اعلیٰ اخلاق، صاف گو، زبان کی سچائی اور ایمان داری سے آپؓ نے بیحد نفع کمایا اور تھوڑے ہی عرصے میں آپؓ کا شمار مکہ کے معروف تاجروں میں ہونے لگا۔ جب اسلام کا پیغام ملا تو اسلام کو دُنیا پر ترجیح دی اور صرف اسلام کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا دِل پہلے ہی ایمان قبول کرنے کی صلاحیت سے پوری طرح معمور تھا، صرف دعوت ملنے کی دیر تھی اور جو شمع جلنے کے لیے بے تاب تھی فوراً جل اٹھی۔
حضرت محمد بن عبدالرحمن بن عبداﷲ بن حصین تمیمیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''میں نے جس شخص کو بھی اسلام کی دعوت دی اس نے تردد اور تھوڑا بہت غور و فکر ضرور کیا مگر ابُوبکر صدیقؓ ایسے ہیں کہ جب میں نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے بغیر کسی تردد اور غور و فکر کے فوراً کلمہ پڑھ لیا اور اسلام میں داخل ہو گئے۔''
آپؓ نے جیسے ہی اسلام قبول فرمایا اور اس کی تبلیغ کھلے عام شروع کی تو مشرکین مکہ آپؓ کے جانیں دشمن بن گئے، آپؓ کو اذیت میں مبتلا کرنا ان کے نزدیک ایک ضروری اَمر تھا لیکن آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے رسول اﷲ ﷺ کی حفاظت اور ان کی حمایت و مدد کو اساس ایمان قرار دے رکھا تھا اور یہ اساس ہی حقیقی ایمان ہے، یقیناً سچا اور حقیقی مسلمان وہی ہے جو رسول اﷲ ﷺ کی محبت کے مقابل اپنی جان، مال، اولاد وغیرہ کسی چیز کی قطعاً پروا نہ کرے اور نہ ہی دُنیا کی ظاہری عزت و وجاہت اس کی راہ میں حائل ہو۔
آپؓ کا یہ بے مثال کردار آپ کی بے نظیر جرأت و بہادری ہے جس کا انہوں نے ہر موقع پر شان دار مظاہرہ فرمایا۔ اﷲ عزوجل کی وحدانیت کا اعلان کرنے کے بعد جب مشرکین نے آپؓ کو اور حسن اخلاق کے پیکر، محبوب رب اکبر ﷺ کو اذیتیں پہنچانا شروع کیں اس وقت آپؓ نے مشرکین کی طرف سے پہنچائی جانے والی تکالیف کو بڑے صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کیا۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایمان لانے کے بعد کفار کے ظلم استبداد کے مقابل میں کوہ گراں کی مانند ڈٹے رہے۔ آپؓ نے ہر معاملے میں صداقت کا عملی مظاہرہ کیا حتیٰ کہ واقعہ معراج اور آسمانی خبروں وغیرہ جیسے معاملات کو جن کو اس وقت کسی کی عقل نے تسلیم نہیں کیا، ان میں بھی فوراً تصدیق فرمائی۔ سرکار مدینہ ﷺ کی تمام معاملات میں جیسی تصدیق آپؓ نے کی ویسی کسی نے نہیں کی اس لیے آپؓ کو صدیق اکبر کہا جاتا ہے۔
آپؓ نہایت ہی خشوع و خضوع سے نماز ادا کرنے کا اہتمام کیا کرتے تھے اور عبادت نہایت احسن انداز میں ادا کرنے کے شائق تھے۔ آپؓ کا حد درجہ تقویٰ و اخلاص تھا کہ فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے بھی گرمیوں میں رکھتے تھے۔ آپؓ نہایت ہی غم خوار اور قلبی طور پر اس قدر رحم دل اور حساس تھے کہ کسی مسلمان کو بڑی مصیبت تو کجا چھوٹی سی تکلیف میں دیکھنا بھی آپؓ کو گوارہ نہ تھا' یہی وجہ ہے کہ آپؓ نے کئی ایسے مسلمان غلاموں کو اپنی ذاتی رقم ادا کر کے آزاد کروایا جو اپنے سفاک مالکان کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بنتے تھے۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہجرت کے وقت حضور نبی کریم ﷺ کی مصاحبت میں رہے' سفر کے دوران ہر قدم پر آپؓ نے حضور نبی کریم ﷺ کا بھرپور انداز میں ساتھ دیا۔ ہجرت کے بعد مسجد نبویؐ کے لیے زمین خرید کر وقف کی۔ طائف، بدر، احد، بنی مصطلق، حدیبیہ، خیبر، حنین اور فاتح مکہ کے معرکوں میں رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی معیت کا شرف ملا اور ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ آپؓ کو امیرالحج مقرر کیا گیا، حضور نبی کریم ﷺ کی علالت کے دوران امامت کا منصب ِ عظیم حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو نصیب ہوا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے فہم و فراست اور معاملہ کے سبب حضور نبی کریم ﷺ آپؓ سے امور مسلمین میں اکثر مشاورت فرمایا کرتے تھے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ انتہائی نرم مزاج تھے، اگر ان کی اپنی ذات کا معاملہ ہوتا تو عفو و درگزر سے کام لیتے اور کسی کو ذرّہ برابر تکلیف نہ پہنچاتے لیکن اگر معاملہ پیارے آقا ﷺ، عظمت اسلام یا مسلمانوں کا ہوتا تو غیرت جوش میں آ جاتی اور قطعاً کسی چیز کی پروا نہ کرتے بلکہ باطل کے سامنے اڑ جاتے اور ڈٹ کر اس کا مقابلہ فرماتے۔
راہِ خدا میں ایثار و قربانی میں آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر کوئی بھی سبقت نہ لے جا سکا۔ ایک موقع پر رسول اﷲ ﷺ نے رومی حملہ کے انسداد کے لیے انفاق سبیل اﷲ کا ارشاد فرمایا تو حضرت عمرؓ نصف مال و متاع لیکر حاضر ہوئے مگر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے گھر کا سارا اثاثہ پیش کر دیا، پھر جب رسول اﷲ ﷺ نے پوچھا : ''اپنے اہل و عیال کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟'' تو عرض کیا: ''اُن کے لیے اﷲ اور اس کا رسول ﷺ ہی کافی ہیں۔'' حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے اور کہنے لگے: ''میں کبھی بھی ابوبکر صدیقؓ سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔''
حضور سیّد عالم ﷺ کے دنیائے فانی سے ظاہری طور پر پردہ فرمانے کے بعد مہاجرین و انصار صحابہؓ نے باہمی اتفاقِ رائے سے آپؓ کو پہلا خلیفہ منتخب کرلیا۔ حضور نبی کریم ﷺ کے وصال ظاہری کے بعد تمام صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین شدتِ غم سے نڈھال تھے اور کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا ہو گا، ایسے میں آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین کے بکھرے ہوئے جذبات کو یکجا کیا اور شیرازۂ اسلام کو منتشر ہونے سے بچایا۔
آپؓ کے زمامِ خلافت ہاتھ میں لینے کے بعد کبھی کسی قسم کا ہنگامہ مسلمانوں میں خلافت کے مسئلے پر پیدا نہیں ہوا، بنو ہاشم اور انصار دونوں نے کبھی ان کی مخالفت نہیں کی اور ان کا کوئی فرد مسلح ہو کر یا باغی کی صورت میں ان کے سامنے نہیں آیا اور کسی نے ان کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں کیا۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مانعین زکوٰۃ کیخلاف تمام خطرات کے باوجود جہاد کیا' آپؓ کی خلافت راشدہ کے پہلے سال کا زیادہ تر حصہ مرتدین اور باغیوں کی بغاوت و ارتداد کو ختم کرنے میں گزرا' بغاوت و ارتداد کے خلاف جنگ و جہاد کے ساتھ مملکت کے انتظامی امور کی طرف بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے توجہ مبذول کیے رکھی اور مدینہ منورہ میں ایک بہترین نظام قائم فرما دیا۔
آپؓ نے کاذب نبیوں کے خلاف جہاد کیا انہیں تباہ و برباد کر دیا۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جھوٹے مدعیانِ نبوت کے خلاف تلوار اٹھا کر اُمت مسلمہ پر قیامت تک کے لیے احسان فرمایا کہ ختم الانبیاء محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے وہ کاذب و دجال ہے' اس کے خلاف مسلمانوں کو جہاد کرنا چاہیے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ 22 جمادی الآخر اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئے۔