پاک بھارت جامع مذاکرات کے ایجنڈے میں تبدیلی کا امکان

بھارتی فوجی اسٹیبلشمنٹ کشمیر اور سیاچن جیسے اہم تنازعات پر معنی خیز بات چیت کی راہ میں رکاوٹیں حائل کررہی ہے .

نئی بھارتی حکومت تجارت اور عوامی سطح پر رابطے بڑھانے جیسے معاملات پر اپنی توجہ مرکوزکرے گی فوٹو: فائل

بھارت میں رواں ماہ عام انتخابات کے انعقاد اورنئی حکومت کی تشکیل کے بعد پاک بھارت جامع مذاکرات کے8 نکاتی ایجنڈے میں ردوبدل کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں تاہم بھارتی فوجی اسٹیبلشمنٹ کشمیر اور سیاچن جیسے اہم تنازعات پر معنی خیز بات چیت کی راہ میں رکاوٹیں حائل کررہی ہے .


۔ سفارتی ذرائع کے مطابق نئی بھارتی حکومت تجارت اور عوامی سطح پر رابطے بڑھانے جیسے معاملات پر اپنی توجہ مرکوزکرے گی۔ پاک بھارت مذاکرات کیلیے وضع کردہ 8 نکاتی ایجنڈا کشمیر، سیاچن ، سرکریک اور وولربیراج کے علاوہ کئی اور اہم معاملات کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ ایجنڈا دونوں ممالک نے سالہا سال کے تجربات کے بعد ترتیب دیا۔ اکتوبر1999ء میں نوازشریف حکومت ختم ہونے سے پہلے بھی اس ایجنڈے پربات چیت ہورہی تھی جبکہ سابق صدرجنرل(ر) پرویزمشرف کے دور میں 2004ء میں جب ایک بارپھرپاک بھارت مذاکرات شروع ہوئے تواسی ایجنڈا کوترتیب دیاگیا۔ ذرائع کے مطابق مشرف دور میں ہی ایک وقت ایسا آیا جب سیاچن کا مسئلہ حل ہونے کے قریب پہنچا۔ یہی حال سرکریک کے مسئلے کا تھا جبکہ مسئلہ کشمیر جیسے تنازع پر بھی کافی حد تک کام کرلیا گیا تھا ۔ نومبر2008ء میں ممبئی دہشت گرد حملوں سے پاک بھارت مذاکرات پٹڑی سے اترگئے تاہم پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں جب یہ بات چیت دوبارہ شروع ہوئی تو بھارتی حکام نے ممبئی دہشت گردحملوں میں مبینہ طور پرملوث اور پاکستان میں زیرحراست چند افراد کی حوالگی اور قرارواقعی سزا کا مطالبہ شروع کردیا اور مذاکراتی عمل کی رفتارسست سے سست ہوتی گئی۔

ایک پاکستانی سفارت کار نے نام ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر بتایا کہ اب جب پاکستان کی جانب سے بھارت کو تجارت کے شعبہ میں غیر ترجیحی بنیاد پر مارکیٹوں تک رسائی کا معاملہ کٹھائی میں پڑگیا ہے تو یہ مذاکراتی عمل مزید متاثر ہوگا۔ انھوں نے کہاکہ اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ آئندہ دو یا 3ماہ میں جو بھارتی حکومت بنے گی، اس کے بعد شاید بھارتی حکام بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے تحت جامع مذاکرات کے ایجنڈے میں ردوبدل کا مطالبہ کرے ۔ بہرحال ایسا نہ بھی ہوتو بھارت کی دلچسپی تجارت اور عوامی رابطوں اور تعلقات میں بہتری جیسے اقدامات پر ہی مرکوز رہے گی اوراس بات کا احتمال ہے کہ کشمیر، سیاچن اور سرکریک جیسے اہم معاملات کوسردخانے کی نذرکردیاجائے۔ معروف پاکستانی تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان کا مذاکراتی عمل جس بری طرح متاثر ہونا تھا ہوگیا اس سے آگے کی گنجائش نہیں۔ انھوں نے کہاکہ بھارت نئی حکومت بننے کے بعد چاہے وہ بی جے پی کی ہو یا کانگریس کی ممبئی دہشت گرد حملوں میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کے مطالبہ پراصرار جاری رکھے گا۔ بھارتی حکام کی کوشش ہوگی کہ مذاکراتی عمل کو تجارت اورعوام کے عوام سے تعلقات کی حد تک ہی محدود رکھاجائے۔
Load Next Story