زباں فہمی نمبر 170 سرقہ توارُد چربہ اور استفادہ حصہ اوّل

اردو اَدب وصحافت کے شعبوں میں سرقہ آج سے نہیں، صدیوں سے عام ہے

زباں فہمی 170 ، فوٹو : روزنامہ ایکسپریس

سرقہ نِہاں رہے گا نہ اہلِ نظر سے جوشؔ
چوری کا مال گھر میں چھُپایا نہ جائے گا
(جوشؔ ملسیانی)

ایک مدت ہوئی کہ اس خاکسار نے فارسی ادبیات سے کچھ خوشہ چینی، درسی ضرورت کے تحت کی تھی۔ اُسی دورمیں یہ دل چسپ حکایت بھی نظر سے گزری (شاید پہلے بھی 'زباں فہمی' میں لکھ چکا ہوں) کہ فارسی کے نامورشاعر اَنوریؔ نے ایک مرتبہ کسی جگہ سرِ راہ ایک شخص کو اَنوری ؔ ہی کے اشعار پڑھتے ہوئے دیکھا تو تجاہل ِ عارفانہ سے (یعنی جانتے بوجھتے اَنجان بن کر) سوال کیا کہ شاعر کون ہے تو اُس نے جواب میں اپنا نام اَنوریؔ بتایا اور پھر "اصل" انوریؔ نے مجبوراً یہ کہا کہ "شعر چورتو بہت دیکھے، مگر شاعر چورآج پہلی بار دیکھا ہے"۔

یہ انوریؔ کوئی معمولی شاعر نہ تھا، بلکہ وہ سخنور تھا جسے صنفِ قصیدہ گوئی میں گویا پیغمبر کا درجہ دیا جاتا ہے۔ جب بھی سرقہ، توارد، چربہ اور اخذ واستفادہ یا محض اتفاق کا موضوع چھیڑاجائے گا، یہ قصہ بھی کہیں نہ کہیں ضرور نقل ہوگا۔ یہ واقعہ گویا انتہائی درجے کی چوری کی مثال ہے۔ ہمارے بعض بزرگ معاصرین کے یہاں سرقے کی موجودگی تو بہت مفصل بحث ہے، مگر بعض بعض نے تو دیگر متقدمین یا بزرگ معاصرین کے تخلص اور علاقائی نسبت، جُوں کی تُوں اپنا کر قارئین کے لیے مسائل پیدا کردیے۔ زندہ ومتوفیٰ اہل قلم خصوصاً شعراء میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔

اردو اَدب وصحافت کے شعبوں میں سرقہ آج سے نہیں، صدیوں سے عام ہے۔ جدید دور میں صحافت کی دوسری جہت یعنی سماجی ابلاغ کے ذرایع اور شعبہ تشہیر میں یہ سلسلہ دراز ہوا تو آج اصل کو نقل سے جدا کرنا محال ہوگیا ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ فقط اردو ہی کیوں بدنام ہے تو عرض کرتا ہوں کہ دیگر زبانوں میں ہونے والی وارداتوں کی طرف ہماری توجہ کم کم جاتی ہے اور اِس کی دیگر وجوہ میں ایک یہ بھی ہے کہ ہرکس وناکس کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ بہت ساری زبانیں اس طرح سیکھ لے کہ اُس کے ادب سے بھی کماحقہ' واقف ہوجائے۔

موٹی سی بات یہ ہے کہ عربی، فارسی وترکی سے اردو اور یورپی زبانوں خصوصاً ہِسپانوی، یونانی، لاطینی، المانوی [German]،انگریزی اور مشرقی یورپی زبانوں میں بہت زیادہ استفادہ کیا گیا، بعض مضامین، بلکہ پوری پوری کتب ترجمہ کرکے، اپنی ہی بنالی گئیں۔یہی حال دریافت و ایجادات کا بھی ہوا۔بعض مشہور مغربی فلسفے بھی اسی تحریک نقل وسرقہ کا نتیجہ ہیں۔

"سرقہ"کی تعریف کا تعین بہت آسان ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ہونے والے "اتفاقات" کے بارے میں بحث کسی منطقی نتیجے کو بمشکل پہنچتی ہے،خصوصاً تَوارُدکی وجہ سے، "توارد"کی تعریف آسان الفاظ میں یہ کی جاسکتی ہے کہ دو مختلف افراد کوئی ایک ہی خیال کسی ایک شکل (خصوصاًشعرکے قالب) میں باندھیں، خواہ ایک ہی وقت میں یا الگ الگ، حتیٰ کہ اُن کے الفاظ بھی بعینہ یکساں ہوں۔اس ضمن میں ترجمہ، استفادہ اور چربہ بھی رَوارَوی میں جائز قرار پاتا ہے۔

مشاہیر کے بے شمار اشعار اسی وجہ سے 'قابل معافی' ٹھہرے۔اس ضمن میں بعد میں ہونے والے مباحث سے قطع نظر، محض ایک ہی کتاب 'سرقہ اور توارُد' (مطبوعہ 1964) کا مطالعہ کافی ہے جو اپنے دور کے ایک معتبر شاعر ومحقق، نریش کمار شاد ؔ کی تحقیقی مساعی کا شاہکار ہے۔شادؔ غزل اور رُباعی کے مشّاق سخنور تھے اور بقول کسے، فیضؔ اور ساحرؔ کے ساتھ ساتھ، سرزمین ِ پنجاب (غیرمنقسم) کے نمایندہ شاعر تھے۔

لفظ سرقہ، عربی سے آیا ہے۔ اس کی گردان بھی بہت دل چسپ ہے۔معروف معانی میں چوری سرِ فہرست ہے۔عربی کی فصاحت ملاحظہ ہو کہ " سَرَقُوْالَیلۃً مّن الشَھر" سے مراد ہے، عیش وعشرت سے رات بسر کرنا(یعنی وہ جو ہمارے یہاں خواب چُرانے اور شام چُرانے کی بات کی جاتی ہے،وہ اُن کے یہاں بہ اندازِدِگر، اس طرح موجودہے)۔تفصیل سے قطع نظر، چُرائی ہوئی چیز کو "السَرِقۃ"(نیز اَلسُراقۃ)کہتے ہیں، جبکہ اس سے بالکل ہٹ کر، ریشمی کپڑے کو "اَلسَرَقَۃ''کہاجاتا ہے(بحوالہ المنجد)۔اس موضوع پر آگے بڑھنے سے پہلے یہ منفرد شعربھی پیش کرتاچلوں:
قرینہ، سَرقہ، اِشارہ، کِنایہ، رَمز، سوال
حیا سے جھکتی نگاہوں میں جھانکتے تھے سبھی
(شہزاد قیس)

بقول نریش کمارشادؔ "سرقہ کیا جاتا ہے اور توارد ہوجاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں اسے یوں کہیے کہ شاعر،پہلے سے کہے ہوئے شعر سے خود اِستفادہ کرے تو اُسے سرقہ،لیکن جب یہ استفادہ خود بخود ہوجائے تو اُسے توارد کہتے ہیں ; لیکن لغوی معنی کے اس تفاوت کے باوجود، عملی طور پر،دنیائے شعر میں اِن میں چنداں فرق نہیں"۔ انھی موصوف نے یہ بھی فرمایاکہ "حالانکہ دنیا کا بڑے سے بڑا،ہرشاعر، سرقے کے الزام سے مہتم ہوچکا ہے،لیکن توارُد کو شاعرانہ اُفتاد ِ طبع کی مجبوری پرمحمول کرنے کی وجہ سے،جائز خیال کرلیا جاتا ہے۔....................لیکن چشم ِ انصاف سے دیکھا جائے تو، توارُدبھی سرقے ہی کی مہذب شکل ہے"۔اس باب میں بعض دیگر اہل علم نے بھی اتفاق یااختلاف ِ رائے کا اظہارکیا ہے۔

ولیؔ گجراتی دکنی (جنھیں ولیؔ احمد آبادی کہنا جائز اور ولی اورنگ آبادی بھی کہنے والے کہہ دیتے ہیں)کی مثال یوں مشہور ہے کہ انھوں نے(بقول میرؔ صاحب) دِلّی کی نامور علمی وادبی شخصیت سعدا للہ خان گلشن ؔ کے مشورے پر، فارسی کے متعدد شعراء سے براہ راست اکتساب کرتے ہوئے ریختہ گوئی یا اردو غزل گوئی میں اپنے جوہر دکھائے اور داد وصول کی۔میرے مشفق بزرگ معاصر ڈاکٹر اَنور سدید (مرحوم) نے اپنی کتاب 'اردو ادب کی مختصر تاریخ' میں ایک تازہ تحقیق کی بِناء پر ولیؔ کی گلشنؔ سے ملاقات کی روایت باطل قراردی ہے۔

سدیدؔ صاحب نے لکھا ہے کہ "ولیؔ کی انفرادیت یہ ہے کہ اُس نے ایران کی آوارہ مزاجی کو ہندوستان کی سکون پسندی میں سمودیا۔..................ولیؔ کا مزاج مقامی ہے لیکن اُس نے فارسی اوزان وبحور میں یہ مزاج اس کامیابی سے سمویا کہ یہ غزل کے مزاج کا حصہ بن گیا۔..................ولیؔنے ریختہ گوئی کا جو اَنداز رائج کیا تھا، ا س کی تقلید بڑے پیمانے پر ہوئی"۔

یہاں ڈاکٹر انور سدید نے ایک فہرست پیش کی جواُس عہد کے کم یا زیادہ معروف،گجراتی،دکنی و ہندوستانی شعراء پر مشتمل ہے۔نوبت بہ ایں جا رسید کہ پنجاب میں مقیم دلشادؔپسروری نے ولیؔ کی زمین میں غزل گوئی کرکے نام کمایا۔ولیؔ گجراتی کے فن وشخصیت پر قاضی احمدمیاں اختر ؔ جوناگڑھی کے "مضامین اخترجوناگڑھی" میں شامل تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض کورمقلد یا چربہ ساز قسم کے معمولی شاعر نہ تھے،بلکہ دینی، علمی وادبی اعتبار سے اپنے عہد کے جےّد علماء و فصحاء اور لسانی رجحان ساز شاعر تھے جن کے کلام میں گوجری (قدیم اردو) اور گجراتی الفاظ وتراکیب کا بہت بڑا ذخیرہ، آج بھی دعوت ِ تحقیق دیتا ہے۔

ولیؔ کے جانشیں (اور اُن کے بعدسرزمین دکن کے دوسرے عظیم شاعر)سراجؔ اورنگ آبادی دکنی کا ایک شعر ہے:
پی (پیا) بِن مجھ (میرے)آنسوؤں کے شراروں کی کیا کمی
جس رات چاند نہیں ہے، ستاروں کی کیا کمی
اسے قاسمؔ نامی فارسی شاعرکے شعر کا اردو قالب قراردیاگیاہے:
بروزِ ہجر مَر ا بَس گُہر بار است
شبی (شبے) کہ ماہ نبا شد، ستارہ بسیار است
انھی سراجؔ کا مشہور زمانہ شعر ہے:
چلی سمت ِ غیب سے اِک ہَوا کہ چمن سُرُور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں،سو ہری رہی
(آزاد دائرہ معارف یعنی وِکی پیڈیا میں اس طرح درج کیا گیا:
کبھی سمتِ غیب سیں کیا ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہو، سو ہری رہی)

بعد کے دورمیں ممتاز عالم، صوفی بزرگ شاہ نیاز احمد نیاز ؔ بریلوی کے کلام میں اس شعرسے استفادہ یوں نظرآتا ہے:
چلی بادِگرم فراق ہے، جلاسب وجود نیاز ؔ کا
مگر ایک عشق کی کِشت ِ غم جسے دل کہیں، سوہَری رہی

شاہ نیازؔ عربی،فارسی اور اردو کے مستند عالم اور اس پائے کے سخنور تھے کہ اُن سے مصحفی ؔ نے اصلاح لی تھی۔
امیرؔ مینائی،حالیؔ، میرتقی میرؔ اورقدیم پنجابی اردوشاعر، رضاؔ تھانیسری: امیرؔ مینائی،حالیؔ اور اپنے میرؔ صاحب کی عظمت سے کس کافر کو اِنکار ہوگا، مگر کیا کیجئے کہ اُن حضرات سے منسو ب ایک مشہور شعر، اُن سے مدتوں پہلے، پنجاب کے ایک قدیم اردوشاعر رضاؔ تھانیسری کے یہاں ملتا ہے۔

بارہویں صدی ہجری کے شاعررضاؔ تھانیسر ی نے کہا تھا:
آدمی بًلبًلہ ہے پانی کا
کیا بھروسا(ہے)زندگانی کا


("اردو کے مشہور اشعار۔ایک جائزہ از سہیل احمد صدیقی: 2001ء، کراچی، بحوالہ پنجاب کے قدیم اردو شعراء از خورشید احمد خان یوسفی: اکتوبر 1992ء، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد)۔ نریش کمار شاد ؔ نے امیرؔ مینائی کا شعر یوں نقل کیا:
زیست کا اعتماد کیا ہے امیرؔ
آدمی بلبلہ ہے پانی کا

"اردو کے ضرب المثل اشعار: تحقیق کی روشنی میں" (ازمحترم شمس الحق) کی رُوسے درست شکل یوں ہے:
زیست کا اعتبار کیا ہے امیرؔ
آدمی بلبلہ ہے پانی کا

یہی شعر مصرعوں کی ترتیب بدل کر، حالی ؔسے منسوب کردیا گیا:
کیا بھروسا ہے زندگانی کا
آدمی بلبلہ ہے پانی کا

جبکہ بعض جگہ دیکھا کہ یہ شعر میرؔ سے منسوب کردیا گیا۔اب کوئی کہے کہ صاحب! یہ محض اتفاق ہے یا توارُد ہے، تو کم ازکم یہ خاکسار اس سے اتفاق نہیں کرتا۔(اس کالم کی تحریر سے ذرا پہلے،ایک نوآموز شاعرہ کی 'سالِ نو' پرکہی ہوئی نظم کی اصلاح کرتے ہوئے جب خاکسار نے تقریباً سارا حُلیہ ہی بدل ڈالا تو محض اتفاقاً اولین مصرع، فیض ؔ لدھیانوی کی مشہور ِزمانہ نظم سے جاٹکرایا جو لوگوں نے فیض احمد فیضؔ کے نام سے زبردستی منسوب کرکے، ہرسال چلانے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔یہ بہرحال توارد ہے)۔

میرؔ کے بہت سے اشعار کا معاملہ یہی ہے کہ اُن سے قبل یا مابعد کسی کے شعر سے یکسانیت یا مماثلت بہت نمایاں ہے۔بعدکی تو چلیں خیر ہے کہ کسی نے اُن کا خیال چُرالیا یا اُس پر تضمین کرنے کی اپنی سی کوشش کی، مگر ماقبل کا کیا جواز ہے؟

سراجؔ اورنگ آبادی دکنی نے کہا: دامن تلک بھی ہائے مجھے دسترس نہیں
کیا خاک میں ملی ہیں مِری جا ں فشانیاں
اُن کے مدتوں بعد میرؔ صاحب گویا ہوئے: مارا بھی اُن نے سان کے غیروں میں مجھ کو میرؔ
کیا خاک میں ملائیں مِری جا ں فشانیاں
کیا خیال ہے یہ سرقہ ہے، توارُد ہے، تضمین ہے یا محض استفادہ؟

میرؔ چونکہ اپنے عہد کا نمایندہ ہے، اس لیے اس کے کلام پر زیادہ تنقیدی نگاہ ڈالی جاتی ہے، ورنہ کیا اُن کے بزرگ خان آرزوؔ کی علمی شخصیت کی اس جہت پر کام ہوا ہے کہ اُنھوں نے بھی ایسا کچھ کیا ہو؟
میرزا غالبؔ کا مشہور شعر ہے: ہے خبر گرم اُن کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریہ نہ ہوا
اُن سے بہت پہلے میرؔ کہہ گئے تھے: تیز یوں ہی نہ تھی شب،آتش ِ شوق
تھی خبر گرم، اُن کے آنے کی

اب چونکہ یہ بات بالتحقیق ثابت ہے کہ غالبؔ نے فارسی شعراء کے بعد، اردو میں اپنے متقدمین میں شامل، میرؔ کے کلام سے شعوری وغیرشعوری طور پراستفادہ کیا تھا، لہٰذا یہ قیاس کرنا غلط نہیں کہ میرزا نے میرؔ کے نسبتاً کم مشہور شعر کو، یوں بہتر کردیا کہ آج اُنھی کا شعر مشہور ہے۔فارسی سے استفادہ، ترجمہ، سرقہ اور چربہ محض غالبؔ تک محدودنہیں،بلکہ ہمارے مشاہیرسخن میں شامل بہت سارے مستند شاعر،اس ضمن میں اپنا اپنا کمال دکھاچکے ہیں۔

میرؔ کا شعر ہے: میرے تغیر ِ رنگ پر مَت جا
انقلابات ہیں زمانے کے
(دوسرا مصرع تو ضرب المثل ہے)
اُنھی کے معاصر دردؔ نے کہا: میرے تغیر ِ رنگ کو مَت دیکھ
یوں بھی اے مہربان ہوتا ہے
اور اِن دونوں کے بعدآنے والے مومنؔ نے فرمایا:
میرے تغیر ِ رنگ کو مَت دیکھ
تجھ کو اَپنی نظر نہ ہوجائے

میرؔ اور دردؔ کے معاملے میں حُسن ِ ظن سے کام لیتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ توارُد ہوگیا ہوگااور یہ بھی قیا س کیا جاسکتا ہے کہ دردؔ بہرحال بڑے تھے توشاید میرؔسے ایسا ہوگیا ہو، غیر شعوری طور پر، مگر،مومنؔ کا کیا کہاجائے؟ یا تو اُنھوں نے تضمین کی یا سرقہ۔

میرؔ کا شعر ہے: ناخن سے بُوالہوس (بُل ہَوَس) کا گلا یونہی چھِل گیا
لوہو (لہو) لگا کے وہ بھی شہیدوں میں مِل گیا
(محاورہ:انگلی کٹاکے شہیدوں میں نام لکھوانا)
اُن کے بہت بعد میں طلوع ہونے والے استاد شاعر، ذوقؔ نے یوں اظہارِخیال فرمایا:
گُل اُس نگہ کے زخم رَسِیدوں میں مل گیا
یہ بھی لہو لگا کے شہیدوں میں مِل گیا
صاف نظر آرہاہے کہ استفادہ ہے، یا تو مصرع پر تضمین کا شوق پورا کیا گیا یا اُس شعر کے کم مشہور ہونے کے سبب، ترمیم کے ساتھ اپنالیاگیا۔
فارسی کا شعر ہے: ناخن تمام گشت معطر چو برگِ گُل
بندِ قبائے کیست کہ وا می کنیم ما
اسے "حریف ِ میرؔ"، انعام اللہ خاں یقینؔ نے اس طرح اردو کا جامہ پہنایا: کیا بدن ہوگا کہ جس کے کھولتے جامے کے بند
برگِ گل کی طرح ہر ناخن معطر ہوگیا
یہ ترجمہ ہے، چربہ ہے، استفادہ، سرقہ یاتوارُد؟

ایک اوربات قابل ذکر یہ ہے کہ بے شمار اچھے بُرے،معیاری وغیرمعیاری اشعار کا انتساب کسی مشہور شاعر سے کرکے اُسے مزید مشہور کرنے کی سعی نامشکور بہت کی گئی۔"زباں فہمی" میں اس بابت بھی لکھا جاچکا ہے، مگر محض ایک کالم توکیا اس پر پوری کتاب یا پی ایچ ڈی کی سطح کا مقالہ قلم بند کیا جاسکتاہے۔اس ضمن میں سب سے پہلا اور نمایاں نام ہے حضرت امیر خسروؔ کا، جن کا اصل ہندوی (قدیم اردو)کلام ناپید ہے اور اُن سے منسوب کلام اپنی صفات کی بنیاد پر صاف چغلی کھاتا ہے کہ خسروؔ کے عہد کا نہیں، ورنہ یہ بات ماننی پڑے گی کہ اردو آٹھ سو سال پہلے تو اس قدر صاف زبان تھی اور پھر درمیان کے کوئی پانچ چھے سو سال لسانی تشکیل کا عمل، آسان سے دشوار ہوتا گیا اور پھر دوسوسال پہلے دوبارہ یہ زبان صاف ہوگئی اور ہم اس میں ہر مضمون پیش کرنے کے لائق ہوگئے۔
Load Next Story