ہم پشیماں کیوں ہوں
سیاست کودشمن بنانے والے نے اپنے تمام مخالفین کوجیلوں میں ڈالا اور اس کی حکومت ختم ہوگئی مگراس کا لاڈلاپن اب تک جاری ہے
وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف نے ایک عجب مطالبہ کیا ہے کہ میاں نواز شریف کے ساتھ زیادتیاں کرنے والے ان سے معافی مانگیں اور انھیں وطن واپس لائیں کیونکہ سب کو پتا ہے کہ ترقیاتی کام ملک بھر میں کرانے والی حکومت کو کرپشن کے جھوٹے بیانیے پر پہلے ان کی حکومت ختم کرا کر انھیں پاناما میں نام نہ ہونے کے باعث اقامہ پر سزا دے کر سیاست سے فارغ کیا گیا۔
دنیا جانتی ہے کہ احتساب عدالت سے انھیں جان بوجھ کر سزا دلائی گئی اور بغیر کسی جرم نواز شریف کی جگہ لاڈلے کو لایا گیا جس کے ساڑھے تین سالہ دور میں ملک کا بیڑا غرق ہوا۔ غیر ملکی ریکارڈ قرضے لیے اور کوئی ایک بھی بڑا منصوبہ نہیں بنا۔
کرپشن کے ریکارڈ قائم ہوئے، سیاست کو دشمن بنانے والے نے اپنے تمام مخالفین کو جیلوں میں ڈالا اور اس کی حکومت ختم ہوگئی مگر اس کا لاڈلا پن اب تک جاری ہے اور ہمیں ہماری حکومت میں بھی انصاف نہیں مل رہا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا کھلا شکوہ ہے کہ ہمارے مقدمات کی سماعت کی مہینوں میں نوبت نہیں آتی اور پنجاب کے حکمرانوں کے کیس فوری سماعت کے لیے منظور ہی نہیں ہوتے بلکہ پنچایتوں کی طرح انھیں سماعت کے دوران وقفہ دے کر ان کے حق میں فیصلے بھی ہو جاتے ہیں۔ پنجاب سے متعلق ایک فیصلے پر مسلم لیگ (ن) کی اپیل 6 ماہ سے زیر سماعت نہیں آئی اور پرویز الٰہی اس دوران دوبارہ اقتدار میں آگئے۔
جرمن قوم ہٹلر کے اقتدار کے باعث اس قدر شرمندہ ہے کہ وہ ہٹلر کے نام پر اپنے بچوں کے نام بھی نہیں رکھتی اور ہٹلر دور کے اقدامات پر پشیماں بھی ہے۔
سابق وزیر اعظم تو اپنے بیان پر اب تک قائم ہیں کہ ریاستی اداروں نے ان کی حکومت کی ہر مشکل وقت میں مدد کی تھی مگر اب وہ اپنی حکومت میں ان کے کردار پر تنقید کر رہے ہیں جس پر ان کے مخالف انھیں محسن کش اور احسان فراموش قرار دے رہے ہیں اور وفاقی وزیر شیری رحمن کا کہنا ہے کہ عمران خان سلیکٹڈ وزیر اعظم تھے اور اس وقت کی حکومت وزیر اعظم عمران خان کے منہ پر ہی انھیں سلیکٹڈ کہتی تھی جس کے جواب میں وزیر اعظم نے اس کی تردید کرنے کے بجائے ایوان میں آنا ہی چھوڑ دیا تھا۔
عمران خان پر کسی کا دباؤ نہیں وہ مرضی کے بیانات دیتے ہیں۔ پارٹی میں مشاورت کے بغیر من مانے اعلانات کرتے ہیں کیونکہ انھیں پتا ہے کہ وہ خود ہی پی ٹی آئی ہیں جس میں کسی رہنما کی جرأت نہیں کہ ان سے اختلاف کرسکے اس لیے وہ پہلے خود اعلان کردیتے ہیں جس کی واضح مثال ان کا 26 نومبر کا راولپنڈی میں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا یکطرفہ اعلان ہے جس میں وہ پھنس گئے ۔
عمران خان کسی پشیمانی کے بغیر اپنے بیانات سے یوٹرن لے لیتے ہیں اور پرانے بیان کی نفی کرکے اپنے نئے بیانیے کو سیاست کی بنیاد بنا لیتے ہیں اور ان کے انحراف کی اگر کوئی صحافی نشان دہی کردے تب بھی وہ شرمندہ نہیں ہوتے اور سوال کا جواب ہی نہیں دیتے۔عمران خان مرضی کی تقاریر اور بیان دیتے اور پھر اس سے یوٹرن لے لیا کرتے تھے اور بیان بدلنے پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے تھے۔
پاکستانی سیاست میں رہنماؤں میں پشیمانی اور اپنے غلط بیانات پر شرمندہ ہونے کا رواج ہی نہیں ہے۔ جسٹس منیر نے 1958 کے آئین کو منسوخ کرنے کے جرم پر اپنی زندگی میں کبھی پشیمانی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ جنرل ٹکا خان نے بنگلہ دیش کے قیام سے قبل جو اعلانات کیے اس پر ملک کے دولخت ہونے کے بعد بھی شرمندگی ظاہر نہیں کی جن کے اعلانات سے مشرقی پاکستان میں نفرتیں بڑھیں ۔
بلوچستان کے ساتھ نصف صدی سے جو ہوتا آرہا ہے اس پر صدر آصف زرداری نے بلوچوں سے معافی ضرور مانگی تھی مگر بعد میں بھی زیادتیاں بند نہیں ہوئی تھیں۔
ہمارے یہاں تو ملک کے دولخت ہوجانے کے سب سے بڑے سانحہ پر کسی نے معافی نہیں مانگی تھی بلکہ سانحہ کی تحقیقات کے لیے جو حمود الرحمن کمیشن بنا تھا اس کی رپورٹ بھی جاری کرنے کی ہمت کسی حکومت میں نہیں تھی وہ بھی بھارت نے جاری کی مگر اس پر بھی کوئی شرمندہ نہیں ہوا تھا۔
(ن) لیگی وزراء نہ جانے کس دنیا میں رہتے ہیں کہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ نواز شریف سے معافی مانگ کر انھیں واپس لایا جائے جو عدالتی فیصلے اور بالاتروں کی مرضی سے باہر گئے تھے مگر ان سے کی جانے والی زیادتی پر معافی کوئی کیوں مانگے کہ پاکستانی سیاست میں حقائق تسلیم کرنے اور غلطیوں پر ندامت کا اظہار کبھی ہوا ہی نہیں ہے۔