اگر ہے جذبہ تعمیر زندہ
خدا تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور اِس کی دھرتی سونا اْگلتی ہے
انگریزی کے ایک انوکھے اور ممتاز شاعر الیگزینڈر پوپ کی طویل اور دلچسپ نظم ہمیں اِس وقت یاد آرہی ہے جس کا عنوان ہے '' ریپ آف دی لاک۔'' اِس نظم میں ایک بات بڑے پتے کی کہی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ طرزِ حکومت کی قِسموں میں الجھنا احمقوں کا کام ہے کہ کونسی قِسم اچھی ہے اور کونسی ناکارہ۔ کھری بات یہ ہے کہ وہی قِسم بہترین ہے جو کارگر ہو۔
مثال کے طور پر کہیں بادشاہت جلوہ گر ہے اور کہیں جمہوریت کی کارگری ہے اور کہیں آمریت کا چلن ہے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کہیں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا جس کا نام تھا نوشیروانِ عادل اور ایک اور بادشاہ کی حکمرانی کیسی تھی جس کا نام تھا سلطان ناصر الدین۔ اِن دونوں کے ادوار میں عوام کو کیا سہولتیں اور کیا آسائشیں مہیا تھیں۔ ذرا اِن کا موازنہ موجودہ دور کی جمہوریتوں سے کر کے دیکھیے اور پھر خود ہی فیصلہ کیجیے کہ کون سا دور بہتر تھا۔ اب آئیے دو اور مثالیں بادشاہت کی مثالیں ملاحظہ فرمائیے۔
کسی زمانہ میں شیر شاہ سْوری نامی ایک حکمراں ہوا کرتا تھا جس کا دورِ حکمرانی پورے پانچ سال سے بھی کم تھا۔ اْس زمانہ میں نہ کوئی ایسی مشینیں تھیں جن کا مقابلہ آج کے دور کی مشینوں سے کی جاسکے لیکن اْس نے پشاور سے کلکتہ تک ایک طویل سڑک تعمیر کرا دی جو ایک ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے اور آج کے دن تک مسافروں کے کام آرہی ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ اْس کا کمال یہ بھی تھا کہ دن تو دن رات کے بھی کسی پہر کوئی بھی عورت زیورات سے لدی پھندی تنِ تنہا آ جا سکتی تھی اور کسی کی مجال بھی نہ تھی کہ کوئی اْن کے پاس بھی پھٹک سکے۔
آج کے جمہوری دور میں عورت تو عورت مرد کی بھی نہ جان محفوظ ہے اور نہ مال۔ جدھر نظر اٹھائیے لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور کوئی پْرسانِ حال نہیں۔ بات کڑوی ضرور ہے لیکن اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔تجارتی دارالخلافہ کراچی شہر میں دن دھاڑے ڈاکے پڑ رہے ہیں اور عوام کے ہمدرد پولیس کے سربراہ یہ مشورہ دیتے ہوئے کہ خدارا مزاحمت نہ کریں اور اگر جان کی خیر چاہتے ہیں تو جیسا ہورہا ہے اْسے ہونے دیں۔ انتہا یہ ہے کہ وفاقی دارالخلافہ جو اسلام کے نام پر بسایا گیا ہے وہاں بھی لوگ اب خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ '' کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔''
حکمرانوں کو اپنا اقتدار بچانے سے فرصت نہیں اور باہر رہنے والوں کو بر سرِ اقتدار آنے کی کوشش کے علاوہ کسی اور چیز میں دلچسپی نہیں ہے لیکن عوام کی ہمدردی کے دعویدار دونوں ہیں۔
کہتے ہیں کہ خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے ، چنانچہ عوام بھی بیچارگی کے عالم میں اپنا پینترا بدل کر اجتماعیت کو ترک کرکے یا شیخ اپنی دیکھ کا رویہ اختیار کر رہے ہیں اور جائز و ناجائز کی تمیز کی پرواہ کیے بغیر جس کا جو بس چلے یہ رَوِش اختیار کررہے ہیں۔ معاشرتی قدریں دم توڑ رہی ہیں اور اخلاقیات چپ سادھے ہوئے ہے۔
کہاوت ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد ہندوستان اور پاکستان دونوں نے برٹِش پارلیمانی نظام اختیارکیا لیکن جمہوریت کے نام پر اصل حکمرانی خاندان شاہی کی رہی۔ ہندوستان میں اِس کا آغاز نہرو شاہی سے ہوا اور اختتام نہرو کی بیٹی اِندرا گاندھی کی اولاد پر ہوا۔
وطنِ عزیز میں یہ نظام قدرے دیر سے رائج ہوا جس کی ابتدا بھٹو خاندان سے ہوئی اور اِس نے اور روپ بھی بدلے۔ سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کی نام لیوا بیشتر سیاسی جماعتوں میں جمہوری مزاج کا فقدان ہے۔
ہندوستان اور وطنِ عزیز کی سیاست میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ وہاں تاحال عسکریت کی حکمرانی نہیں ہوئی۔ یہ اور بات ہے کہ عسکری نظام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بحالتِ مجبوری آیا اور اِس کے دوران ملک میں استحکام بھی رہا اور ترقی بھی ہوئی۔ لَوٹ پھیٹ کر بات اْسی طرف چلی جاتی ہے جو الیگزینڈر پوپ نے کہا تھا۔
وطنِ عزیز کی موجودہ حالت کا تقاضہ یہ ہے کہ حکمرانی ایسی ہو کہ استحکام قائم رہے اور حکمراں اپنے ذاتی اور گروہی اختلافات سے بالاتر ہوکر ملک و قوم کی سلامتی ، استحکام کے لیے اپنی تمام توانائیاں بروئے کار لائیں۔
ملک و قوم اِس وقت ایک نازک موڑ پر ہے اور اقتصادی صورتحال اِس بات کی متقاضی ہے کہ ایسی پالیسیاں اور منصوبے بنائے جائیں جن کے نتیجہ میں کاسہ گداگری سے ہمیشہ کے لیے جان چھوٹ جائے اور پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجائے ، اْسے اپنی خود داری کا سودا نہ کرنا پڑے۔
خدا تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور اِس کی دھرتی سونا اْگلتی ہے اور اِس کے زیرِ زمین وہ خزانے موجود ہیں جن کو ابھی تک ہم نے دریافت کیا ہے اور نہ استعمال۔ رہی بات افرادی قوت کی تو ہمارے ہاں جوہرِ قابل کی کوئی کمی نہیں ہے۔
کمی صرف اِس بات کی ہے کہ ہم اِسے ضایع نہ ہونے دیں اور اِس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ہمارا ٹیلنٹ نظام کی درستی نہ ہونے کی وجہ سے ترکِ وطن کرکے بیرونی ممالک کا رخ کررہا ہے اور ہمارے اربابِ اختیار کو اِس کا احساس نہیں ہے۔
اِس بات کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جب یہ وطن معرضِ وجود میں نہیں آیا تھا تو اْس وقت بے سرو سامانی کی کیفیت ہونے کے باوجود صرف قربانی کے جذبہ اور حبْ الوطنی کی وجہ سے صحرا گلستان میں تبدیل ہوگیا۔ماشاء اللہ اب تو حالات بدرجہ بہتر ہیں اور ایک سے ایک بڑا جوہر قابل موجود ہے۔
احمد ندیم قاسمی صاحب کا یہ فرمانا بالکل بجا ہے:
اگر ہے جذبہ تعمیر زندہ
تو پھرکس چیزکی ہم میں کمی ہے
مثال کے طور پر کہیں بادشاہت جلوہ گر ہے اور کہیں جمہوریت کی کارگری ہے اور کہیں آمریت کا چلن ہے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کہیں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا جس کا نام تھا نوشیروانِ عادل اور ایک اور بادشاہ کی حکمرانی کیسی تھی جس کا نام تھا سلطان ناصر الدین۔ اِن دونوں کے ادوار میں عوام کو کیا سہولتیں اور کیا آسائشیں مہیا تھیں۔ ذرا اِن کا موازنہ موجودہ دور کی جمہوریتوں سے کر کے دیکھیے اور پھر خود ہی فیصلہ کیجیے کہ کون سا دور بہتر تھا۔ اب آئیے دو اور مثالیں بادشاہت کی مثالیں ملاحظہ فرمائیے۔
کسی زمانہ میں شیر شاہ سْوری نامی ایک حکمراں ہوا کرتا تھا جس کا دورِ حکمرانی پورے پانچ سال سے بھی کم تھا۔ اْس زمانہ میں نہ کوئی ایسی مشینیں تھیں جن کا مقابلہ آج کے دور کی مشینوں سے کی جاسکے لیکن اْس نے پشاور سے کلکتہ تک ایک طویل سڑک تعمیر کرا دی جو ایک ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے اور آج کے دن تک مسافروں کے کام آرہی ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ اْس کا کمال یہ بھی تھا کہ دن تو دن رات کے بھی کسی پہر کوئی بھی عورت زیورات سے لدی پھندی تنِ تنہا آ جا سکتی تھی اور کسی کی مجال بھی نہ تھی کہ کوئی اْن کے پاس بھی پھٹک سکے۔
آج کے جمہوری دور میں عورت تو عورت مرد کی بھی نہ جان محفوظ ہے اور نہ مال۔ جدھر نظر اٹھائیے لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور کوئی پْرسانِ حال نہیں۔ بات کڑوی ضرور ہے لیکن اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔تجارتی دارالخلافہ کراچی شہر میں دن دھاڑے ڈاکے پڑ رہے ہیں اور عوام کے ہمدرد پولیس کے سربراہ یہ مشورہ دیتے ہوئے کہ خدارا مزاحمت نہ کریں اور اگر جان کی خیر چاہتے ہیں تو جیسا ہورہا ہے اْسے ہونے دیں۔ انتہا یہ ہے کہ وفاقی دارالخلافہ جو اسلام کے نام پر بسایا گیا ہے وہاں بھی لوگ اب خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ '' کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔''
حکمرانوں کو اپنا اقتدار بچانے سے فرصت نہیں اور باہر رہنے والوں کو بر سرِ اقتدار آنے کی کوشش کے علاوہ کسی اور چیز میں دلچسپی نہیں ہے لیکن عوام کی ہمدردی کے دعویدار دونوں ہیں۔
کہتے ہیں کہ خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے ، چنانچہ عوام بھی بیچارگی کے عالم میں اپنا پینترا بدل کر اجتماعیت کو ترک کرکے یا شیخ اپنی دیکھ کا رویہ اختیار کر رہے ہیں اور جائز و ناجائز کی تمیز کی پرواہ کیے بغیر جس کا جو بس چلے یہ رَوِش اختیار کررہے ہیں۔ معاشرتی قدریں دم توڑ رہی ہیں اور اخلاقیات چپ سادھے ہوئے ہے۔
کہاوت ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد ہندوستان اور پاکستان دونوں نے برٹِش پارلیمانی نظام اختیارکیا لیکن جمہوریت کے نام پر اصل حکمرانی خاندان شاہی کی رہی۔ ہندوستان میں اِس کا آغاز نہرو شاہی سے ہوا اور اختتام نہرو کی بیٹی اِندرا گاندھی کی اولاد پر ہوا۔
وطنِ عزیز میں یہ نظام قدرے دیر سے رائج ہوا جس کی ابتدا بھٹو خاندان سے ہوئی اور اِس نے اور روپ بھی بدلے۔ سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کی نام لیوا بیشتر سیاسی جماعتوں میں جمہوری مزاج کا فقدان ہے۔
ہندوستان اور وطنِ عزیز کی سیاست میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ وہاں تاحال عسکریت کی حکمرانی نہیں ہوئی۔ یہ اور بات ہے کہ عسکری نظام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بحالتِ مجبوری آیا اور اِس کے دوران ملک میں استحکام بھی رہا اور ترقی بھی ہوئی۔ لَوٹ پھیٹ کر بات اْسی طرف چلی جاتی ہے جو الیگزینڈر پوپ نے کہا تھا۔
وطنِ عزیز کی موجودہ حالت کا تقاضہ یہ ہے کہ حکمرانی ایسی ہو کہ استحکام قائم رہے اور حکمراں اپنے ذاتی اور گروہی اختلافات سے بالاتر ہوکر ملک و قوم کی سلامتی ، استحکام کے لیے اپنی تمام توانائیاں بروئے کار لائیں۔
ملک و قوم اِس وقت ایک نازک موڑ پر ہے اور اقتصادی صورتحال اِس بات کی متقاضی ہے کہ ایسی پالیسیاں اور منصوبے بنائے جائیں جن کے نتیجہ میں کاسہ گداگری سے ہمیشہ کے لیے جان چھوٹ جائے اور پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجائے ، اْسے اپنی خود داری کا سودا نہ کرنا پڑے۔
خدا تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور اِس کی دھرتی سونا اْگلتی ہے اور اِس کے زیرِ زمین وہ خزانے موجود ہیں جن کو ابھی تک ہم نے دریافت کیا ہے اور نہ استعمال۔ رہی بات افرادی قوت کی تو ہمارے ہاں جوہرِ قابل کی کوئی کمی نہیں ہے۔
کمی صرف اِس بات کی ہے کہ ہم اِسے ضایع نہ ہونے دیں اور اِس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ہمارا ٹیلنٹ نظام کی درستی نہ ہونے کی وجہ سے ترکِ وطن کرکے بیرونی ممالک کا رخ کررہا ہے اور ہمارے اربابِ اختیار کو اِس کا احساس نہیں ہے۔
اِس بات کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جب یہ وطن معرضِ وجود میں نہیں آیا تھا تو اْس وقت بے سرو سامانی کی کیفیت ہونے کے باوجود صرف قربانی کے جذبہ اور حبْ الوطنی کی وجہ سے صحرا گلستان میں تبدیل ہوگیا۔ماشاء اللہ اب تو حالات بدرجہ بہتر ہیں اور ایک سے ایک بڑا جوہر قابل موجود ہے۔
احمد ندیم قاسمی صاحب کا یہ فرمانا بالکل بجا ہے:
اگر ہے جذبہ تعمیر زندہ
تو پھرکس چیزکی ہم میں کمی ہے