مٹی کی گڑیا نہ سمجھے کوئی
سماج کو ’نسوانی شخصیت‘ کے نئے زاویوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے
خواتین کو دنیا کے ہر معاشرے میں ویسے تو 'صنف نازک' یا حضرات کے مقابلے میں کمزور صنف تصور کیا جاتا ہے۔
کبھی ان کو کائنات میں رنگ بھرنے والی تخلیق بتایا جاتا ہے، تو کبھی ان کو صرف نازک اور خوب صورت چیزوں سے تشبیہ دی جاتی ہے، لیکن عام مشاہدہ یہ ہے کہ جذباتی صدمہ ہو، شدید ذہنی دباؤ اورانتشار کا شکار، ذہنی اذیت ہویا پھر گہری جسمانی چوٹ پہنچنے کی صورت ہو، ایسے میں بہت سی خواتین نفسیاتی اور اعصابی اعتبار سے حضرات سے زیادہ مضبوط بہادراور منظم ثابت ہوتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین حضرات کے مقابلے میں زیادہ حساس اور جذباتی ہوتی ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں ان کو کسی کی تکلیف اور دکھ درد کا احساس زیادہ اور جلدی ہوتا ہے، لیکن یہ حساسیت اور جذباتیت بھی خواتین کی خود سے جڑے ہوئے رشتوں کے ساتھ خلوص، ایمان داری اور لگاؤ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق خواتین میں موت کے خلاف جنگ لڑنے صلاحیت زیادہ ہوتی ہے، کیوں کہ انھیں اولاد کی ولادت کے علاوہ ان کی دیکھ بھال اورپرورش بھی کرنی ہوتی ہے، لہٰذا مشکلات کا سامنا کرنے اور مختلف صدموں اور چوٹوں سے لڑنے کا نظام ان میں قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے۔
عام طور پر ہمارے معاشرے میں شرمیلا، نازک اور ڈرپوک ہونا۔ رونا، تکلیف محسوس ہونا، فیشن کرنا، شاپنگ کا شوقین ہونا، عدم برداشت، اور نہ جانے کتنے ایسے اوصاف ہیں، جو خواتین کے کردار کے ساتھ منسلک کر دیے گئے ہیں۔
جب کہ اگر دیکھا جائے، تو یہ سب انسانی اوصاف ہیں، جو کسی بھی انسان کے اندر موجود ہو سکتے ہیں۔ کسی آدمی کو بھی دکھ یا تکلیف سے رونا آنا سکتا ہے۔
کوئی مرد بھی نرم مزاج ہو سکتا ہے، کوئی لڑکا بھی شرمیلا ہو سکتا ہے، حساس دل رکھ سکتا ہے اور کسی تکلیف پر مرد کے آنسو بھی نکل سکتے ہیں۔
حضرات، گھروں میں بھی خواتین سے زیادہ اچھے اور لذید کھانے پکا سکتے ہیں، عورتوں سے زیادہ اچھے انداز میں فیشن بھی کر سکتے ہیں، گھر کو بھی زیادہ سلیقے اور کفایت شعاری چلا سکتے ہیں۔ والد بچوں کوماں سے زیادہ منظم انداز سے رکھ سکتے ہیں۔
بالکل اس ہی طرح کچھ صنفی کردار ایسے بھی ہیں، جن کو صرف مرد حضرات سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ جیسے مرد ہے تو بہادر ہوگا، کمانے والا ہوگا، گھر کا سربراہ ہوگا، زیادہ سمجھ دار ہوگا، لیکن یہ تمام اوصاف تو خواتین میں بھی ہوسکتے ہیں۔
ایک بیٹی بیٹے سے زیادہ کماؤ پوت ہو سکتی ہے۔ اپنے گھر اور بچوں کے لیے بیوی شوہر سے زیادہ بہتر اور سمجھ داری کے ساتھ فیصلے کر سکتی ہے۔ ایک لڑکی لڑکے سے زیادہ بہادر ہو سکتی ہے۔ ایک خاتون باس بھی کسی مرد سے زیادہ اچھی فیصلہ ساز ہو سکتی ہے۔
جدید ٹیکنالوجی اور گلوبلائزیشن کے باعث تیزی سے بدلتی ہوئی آج کی دنیا میں عورت کا کردار بھی بدل رہا ہے۔
آج کی عورت خوش قسمت ہے کہ پچھلی نسلوں کے مقابلے میں اسے ہر میدان میں آگے بڑھنے اور مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کے بہت زیادہ مواقع حاصل ہیں۔ جب 1918ء میں خواتین کو صرف ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا تھا تب آج کے معاشرے میں خواتین کے لیے رویوں میں ہونے والی تبدیلی ناقابل یقین تھی۔
لیکن عورت کی ہمت، عظمت اور شجاعت اس ٹیکنالوجی کی مرہونِ منت نہیں۔ جب عورت اپنے حقوق سے ناواقف تھی، تب بھی سخت سے سخت حالات میں زندگی کی مشکلات اور چیلنجوں کا سامنا ویسے ہی کرتی تھی، جیسے آج کے دور کی عورت کر رہی ہے، فرق صرف بدلتے دور کے ساتھ ان نوعیت تبدیل ہونے والے نت نئے چیلنجوں کا ہے۔
ہماری نانیاں، دادیاں دس، دس بچوں کے ساتھ پورا دن گھر کے کاموں، بچوں کی تربیت، سسرال والوں کی خدمت میں گزارتے نہیں تھکتی تھیں۔ آج عورت کو درپیش مسائل کی نوعیت بدل گئی ہے۔
لیکن آج کی عورت خوش قسمت ہے کہ انھیں پڑھنے، سفر کرنے، کام کرنے اور اپنے بھائیوں کی طرح مواقع سے فائدہ اٹھانے کی سہولت میسر ہے۔ حوصلہ افزائی کرنے والے باپ، راہ نمائی کرنے والے بھائی، شانہ بشانہ چلنے والے شوہر، مدد کرنے والے بیٹوں اور مل جل کر کام کرنے والے 'کولیگ' کی شکل میں خواتین کو مردوں کا تعاون حاصل ہے۔
ایک عورت کا فیصلہ ساز ہونا، مضبوط اعصاب کا مالک ہونا، اصول پرست ہونا ضروری نہیں ہے کہ کسی عہدے کے باعث ہو بلکہ ایک ماں اپنے بچے کے لیے، ایک بیوی اپنے گھر کے لیے، ایک لڑکی اپنی زندگی کے لیے بہترین فیصلہ ساز ہوتی ہے۔
مرد عورتوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے۔ ہمارے معاشرے میں مرد اور عورت کی طاقت کا موازنہ ان کی جسامت اور ظاہری قد کاٹھ کے اعتبار سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ یہ نہیں مانتا کہ خواتین بھی جمسانی، ذہنی، جذباتی طور پر مضبوط ہو سکتی ہیں۔ عورت کی طاقت کی صلاحیتوں کے حوالے سے ہمیں جو سب سے بڑا جھوٹ کہا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ کبھی مرد سے زیادہ مضبوط نہیں ہو سکتی۔
یہاں تک کہ اگر کچھ لوگ خواتین کی جذباتی، ذہنی اور جسمانی طاقت پر یقین رکھتے بھی ہیں، تو یہ ہمیشہ مردوں کے ہم منصبوں کے مقابلے میں 'نچلے درجے' پر ہوتا ہے۔
سماجی اور ثقافتی طور پر ہمیشہ سے یہ ہی سمجھا جاتا ہے کہ خواتین کمزور ہیں، جب کہ تاریخ گواہ ہے کہ کون سا ایسا معرکہ ہے یا زندگی کا شعبہ ہے جس میں خواتین نے کامیابی حاصل نہ کی ہو۔
عورت معاشرے میں آج بھی مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور چاہے کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے ہر معاشرے میں اس کا مقام ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ اللہ کی طرف سے بنائی گئی مضبوط اعصاب اور پختہ ارادوں کی اس تخلیق کو ہر گز مٹی کی گڑیا نہ سمجھا جائے۔
وقتی طور پر شاید عورت کو جذباتی اور کمزور سمجھ کرجھکایا جا سکتا ہو، لیکن اس کا کسی مصلحت کے تحت جھکنا یا مصالحت سے کام لینے کو اس کی کمزوری کبھی نہ سمجھا جائے۔
زندگی میں اپنی اور اپنے خاندان کی بقا کی جنگ لڑنے سے لے کر مشکل سے مشکل ترین حالات کا مقابلہ کرنے اور سخت سے سخت فیصلے لینے تک کوئی کام ایسا نہیں، جو عورت نہ کر سکے، لہٰذا ہمیں اس صنفی کردار والی ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے اور ساتھ اس حقیقت کے ادراک کی بھی ضرورت ہے کہ خواتین صنف نازک ضرور ہیں لیکن مضبوط ذہنی، جسمانی اور اعصابی طاقت کے ساتھ!
کبھی ان کو کائنات میں رنگ بھرنے والی تخلیق بتایا جاتا ہے، تو کبھی ان کو صرف نازک اور خوب صورت چیزوں سے تشبیہ دی جاتی ہے، لیکن عام مشاہدہ یہ ہے کہ جذباتی صدمہ ہو، شدید ذہنی دباؤ اورانتشار کا شکار، ذہنی اذیت ہویا پھر گہری جسمانی چوٹ پہنچنے کی صورت ہو، ایسے میں بہت سی خواتین نفسیاتی اور اعصابی اعتبار سے حضرات سے زیادہ مضبوط بہادراور منظم ثابت ہوتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین حضرات کے مقابلے میں زیادہ حساس اور جذباتی ہوتی ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں ان کو کسی کی تکلیف اور دکھ درد کا احساس زیادہ اور جلدی ہوتا ہے، لیکن یہ حساسیت اور جذباتیت بھی خواتین کی خود سے جڑے ہوئے رشتوں کے ساتھ خلوص، ایمان داری اور لگاؤ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق خواتین میں موت کے خلاف جنگ لڑنے صلاحیت زیادہ ہوتی ہے، کیوں کہ انھیں اولاد کی ولادت کے علاوہ ان کی دیکھ بھال اورپرورش بھی کرنی ہوتی ہے، لہٰذا مشکلات کا سامنا کرنے اور مختلف صدموں اور چوٹوں سے لڑنے کا نظام ان میں قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے۔
عام طور پر ہمارے معاشرے میں شرمیلا، نازک اور ڈرپوک ہونا۔ رونا، تکلیف محسوس ہونا، فیشن کرنا، شاپنگ کا شوقین ہونا، عدم برداشت، اور نہ جانے کتنے ایسے اوصاف ہیں، جو خواتین کے کردار کے ساتھ منسلک کر دیے گئے ہیں۔
جب کہ اگر دیکھا جائے، تو یہ سب انسانی اوصاف ہیں، جو کسی بھی انسان کے اندر موجود ہو سکتے ہیں۔ کسی آدمی کو بھی دکھ یا تکلیف سے رونا آنا سکتا ہے۔
کوئی مرد بھی نرم مزاج ہو سکتا ہے، کوئی لڑکا بھی شرمیلا ہو سکتا ہے، حساس دل رکھ سکتا ہے اور کسی تکلیف پر مرد کے آنسو بھی نکل سکتے ہیں۔
حضرات، گھروں میں بھی خواتین سے زیادہ اچھے اور لذید کھانے پکا سکتے ہیں، عورتوں سے زیادہ اچھے انداز میں فیشن بھی کر سکتے ہیں، گھر کو بھی زیادہ سلیقے اور کفایت شعاری چلا سکتے ہیں۔ والد بچوں کوماں سے زیادہ منظم انداز سے رکھ سکتے ہیں۔
بالکل اس ہی طرح کچھ صنفی کردار ایسے بھی ہیں، جن کو صرف مرد حضرات سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ جیسے مرد ہے تو بہادر ہوگا، کمانے والا ہوگا، گھر کا سربراہ ہوگا، زیادہ سمجھ دار ہوگا، لیکن یہ تمام اوصاف تو خواتین میں بھی ہوسکتے ہیں۔
ایک بیٹی بیٹے سے زیادہ کماؤ پوت ہو سکتی ہے۔ اپنے گھر اور بچوں کے لیے بیوی شوہر سے زیادہ بہتر اور سمجھ داری کے ساتھ فیصلے کر سکتی ہے۔ ایک لڑکی لڑکے سے زیادہ بہادر ہو سکتی ہے۔ ایک خاتون باس بھی کسی مرد سے زیادہ اچھی فیصلہ ساز ہو سکتی ہے۔
جدید ٹیکنالوجی اور گلوبلائزیشن کے باعث تیزی سے بدلتی ہوئی آج کی دنیا میں عورت کا کردار بھی بدل رہا ہے۔
آج کی عورت خوش قسمت ہے کہ پچھلی نسلوں کے مقابلے میں اسے ہر میدان میں آگے بڑھنے اور مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کے بہت زیادہ مواقع حاصل ہیں۔ جب 1918ء میں خواتین کو صرف ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا تھا تب آج کے معاشرے میں خواتین کے لیے رویوں میں ہونے والی تبدیلی ناقابل یقین تھی۔
لیکن عورت کی ہمت، عظمت اور شجاعت اس ٹیکنالوجی کی مرہونِ منت نہیں۔ جب عورت اپنے حقوق سے ناواقف تھی، تب بھی سخت سے سخت حالات میں زندگی کی مشکلات اور چیلنجوں کا سامنا ویسے ہی کرتی تھی، جیسے آج کے دور کی عورت کر رہی ہے، فرق صرف بدلتے دور کے ساتھ ان نوعیت تبدیل ہونے والے نت نئے چیلنجوں کا ہے۔
ہماری نانیاں، دادیاں دس، دس بچوں کے ساتھ پورا دن گھر کے کاموں، بچوں کی تربیت، سسرال والوں کی خدمت میں گزارتے نہیں تھکتی تھیں۔ آج عورت کو درپیش مسائل کی نوعیت بدل گئی ہے۔
لیکن آج کی عورت خوش قسمت ہے کہ انھیں پڑھنے، سفر کرنے، کام کرنے اور اپنے بھائیوں کی طرح مواقع سے فائدہ اٹھانے کی سہولت میسر ہے۔ حوصلہ افزائی کرنے والے باپ، راہ نمائی کرنے والے بھائی، شانہ بشانہ چلنے والے شوہر، مدد کرنے والے بیٹوں اور مل جل کر کام کرنے والے 'کولیگ' کی شکل میں خواتین کو مردوں کا تعاون حاصل ہے۔
ایک عورت کا فیصلہ ساز ہونا، مضبوط اعصاب کا مالک ہونا، اصول پرست ہونا ضروری نہیں ہے کہ کسی عہدے کے باعث ہو بلکہ ایک ماں اپنے بچے کے لیے، ایک بیوی اپنے گھر کے لیے، ایک لڑکی اپنی زندگی کے لیے بہترین فیصلہ ساز ہوتی ہے۔
مرد عورتوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے۔ ہمارے معاشرے میں مرد اور عورت کی طاقت کا موازنہ ان کی جسامت اور ظاہری قد کاٹھ کے اعتبار سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ یہ نہیں مانتا کہ خواتین بھی جمسانی، ذہنی، جذباتی طور پر مضبوط ہو سکتی ہیں۔ عورت کی طاقت کی صلاحیتوں کے حوالے سے ہمیں جو سب سے بڑا جھوٹ کہا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ کبھی مرد سے زیادہ مضبوط نہیں ہو سکتی۔
یہاں تک کہ اگر کچھ لوگ خواتین کی جذباتی، ذہنی اور جسمانی طاقت پر یقین رکھتے بھی ہیں، تو یہ ہمیشہ مردوں کے ہم منصبوں کے مقابلے میں 'نچلے درجے' پر ہوتا ہے۔
سماجی اور ثقافتی طور پر ہمیشہ سے یہ ہی سمجھا جاتا ہے کہ خواتین کمزور ہیں، جب کہ تاریخ گواہ ہے کہ کون سا ایسا معرکہ ہے یا زندگی کا شعبہ ہے جس میں خواتین نے کامیابی حاصل نہ کی ہو۔
عورت معاشرے میں آج بھی مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور چاہے کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے ہر معاشرے میں اس کا مقام ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ اللہ کی طرف سے بنائی گئی مضبوط اعصاب اور پختہ ارادوں کی اس تخلیق کو ہر گز مٹی کی گڑیا نہ سمجھا جائے۔
وقتی طور پر شاید عورت کو جذباتی اور کمزور سمجھ کرجھکایا جا سکتا ہو، لیکن اس کا کسی مصلحت کے تحت جھکنا یا مصالحت سے کام لینے کو اس کی کمزوری کبھی نہ سمجھا جائے۔
زندگی میں اپنی اور اپنے خاندان کی بقا کی جنگ لڑنے سے لے کر مشکل سے مشکل ترین حالات کا مقابلہ کرنے اور سخت سے سخت فیصلے لینے تک کوئی کام ایسا نہیں، جو عورت نہ کر سکے، لہٰذا ہمیں اس صنفی کردار والی ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے اور ساتھ اس حقیقت کے ادراک کی بھی ضرورت ہے کہ خواتین صنف نازک ضرور ہیں لیکن مضبوط ذہنی، جسمانی اور اعصابی طاقت کے ساتھ!