ارے کچھ سنا تم نے۔۔۔

اِدھر کی اُدھر کرنے والی ’’آنٹیوں‘‘ سے ہوشیار رہیں


Nadia Fatima Rizvi April 06, 2014
اِدھر کی اُدھر کرنے والی ’’آنٹیوں‘‘ سے ہوشیار رہیں۔ فوٹو: فائل

ایک محتاط اندازے کے مطابق خواتین مرد حضرات کے مقابلے میں زیادہ متجسس ہوتی ہیں۔۔۔ یقیناً آپ کے پڑوس یا محلے میں بھی کوئی خالہ، بوا یا آنٹی ایسی ہوں گی، جو محلے بھر کی خبریں جمع کر کے آپ کے ہاں پہنچاتی ہوں گی۔۔۔ فلاں کی منگنی ٹوٹ گئی۔۔۔ فلاں کی شادی کی بات چل رہی ہے۔۔۔ فلاںکے گھر بیٹی پیدا ہوگئی۔۔۔ فلاں کا بیٹا کماتا نہیں۔۔۔ فلاں کا میاںگھر میں پڑا رہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔''

ان خواتین کو اپنے گھر کے معاملات سے زیادہ دوسروں سے دل چسپی ہوتی ہے۔ وہ ہمہ وقت اسی کوشش میں مصروف رہتی ہیں کہ دوسرے گھروں میںکیا ہو رہا ہے! شادی بیاہ کی تقریبات میں گویا ان خواتین کا ''کام'' اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے، جب کہ بعض اوقات ان کی اس عادت کے سنگین نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔ بالخصوص جب رشتے کچے ہوتے ہیں اور ذرا ذرا سی باتوں سے ہچکولے لینے لگتے ہیں۔ ایسے میں اِدھر کی اُدھر کر دینا سب تہہ وبالا کر دیتا ہے۔ رشتے ختم ہو جاتے ہیں۔ دونوں طرف بدگمانیاں پیدا ہو جاتی ہیں کہ نہ جانے بیٹی یا بیٹے کے ہونے والے سسرال کس طبیعت کے مالک ہیں۔ اکثر و بیش تر یہ بھی ہوتا ہے کہ دلہا کی رشتے دار خواتین اپنی متجسس طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہو کر دلہن والوں کی ٹوہ لگانے لگتی ہیں کہ آپ بیٹی کو جہیز میں کیا کیا دے رہے ہیں۔۔۔ ساس نندوں کو کیا کیا چڑھاوے میں دے رہے ہیں وغیرہ۔

یہ ہول ناک باتیں سن کر لڑکی کے گھر والے خوف زدہ ہو جاتے ہیں کہ لڑکے والے لالچی ہیں جب کہ بعض دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ لڑکے کے اپنے گھر والوں کو اس بات کا علم بھی نہیں ہوتا کہ ان کی رشتے دار خواتین ان کی جانب سے دلہن کے گھروالوں اور رشتے داروں کے سامنے ان کا امیج خراب کر رہے ہیں۔ انہی باتوں کی وجہ سے کبھی کبھار رشتے جڑنے سے پہلے ٹوٹنے کی نوبت آجاتی ہے۔

اسی طرح اگر کسی کے گھر موت ہو جائے، تو وہاں بھی کچھ خواتین بہ جائے سوگواروں کو تسلی دینے کے، ان سے ہی پوچھ گچھ شروع کر دیتی ہیں۔۔۔ ''مرحوم نے جائیداد میں کیا چھوڑا، اے بی بی، شوہر گھر تو تمہارے نام کر گئے ہیں نا۔۔۔ بیٹی کے سسرال والے اس موقع پر دکھائی نہیں دے رہے، ارے کیا لڑائی وغیرہ ہو گئی ہے۔ خواتین کے ہاتھوں میں سپارے ہوں یا پھر وہ کسی سنجیدہ محفل میں بیٹھی ہوں، اچانک موقع پاکر فوراً وہ ایک دوسرے کی یا پھر تیسرے فریق کی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اسی طرح ہر محلے میں کوئی ایسی آپا، خالہ، بوا، ہوتی ہے، جو پڑوس کی ملازمت پیشہ لڑکی یا طالبہ کے آنے جانے کی ساری خیر خبر رکھتی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر اسے دیر ہو جائے، تو ببانگ دہل اس تاخیر کا سبب جاننے گھر جا پہنچتی ہیں۔

کسی کے گھر نئی بہو بیاہ کر آئے یا بیٹی رخصت ہو کر جائے۔۔۔ اگلے دن ہی کسی اخبار کے ہرکارے کی طرح خبریں لینے پہنچ جاتی ہیں۔ ''کیسی ہے نئی بہو۔۔۔ تمہارے ساتھ رویہ کیسا ہے؟ یا بیٹی کے سسرال والوں نے کیسا برتائو کیا۔۔۔؟'' جب کہ یہ سب پوچھتے وقت انہیں کوئی بھی لحاظ و مروت نہیں ہوتی۔ نہ ہی انہوں نے کبھی یہ سوچا کہ ان کے اس عمل سے کسی پر کیا گزر رہی ہے، اور کسی کی زندگی پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔

ایسی خواتین کو دوسروں کے معاملات کی ٹوہ لگانے کے بہ جائے اپنے مسائل اور کاموں پر توجہ دینی چاہیے۔ اپنے اپنے اصول و قواعد پر زندگی گزارنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے، کسی کے گھریلو معاملات میں مداخلت اور ٹوہ لگانا انتہائی بد تہذیبی کے زمرے میں آتا ہے۔ جیو اور جینے دو کے اصول پر عمل کرکے صرف اپنے کام سے مطلب رکھ کر ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ دوسروں کی زندگیوں کو بھی سہل بنا سکتے ہیں۔ دیگر خواتین کو بھی ان باتوں پر کان دھرنے سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے۔ کوشش کریں کہ ان کے قریب بھی نہ پھٹکیں، مبادا ان کا کوئی جملہ آپ کو بھی کسی بے بنیاد تجسس اور بے چینی میں مبتلا کر ڈالے اور بعد میں آپ کو پچھتانا پڑے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں