الیکشن کیوں ضروری ہیں
بھوکی ننگی مایوس اور پریشان قوم میں اعتماد کی بحالی کا واحد راستہ صرف الیکشن ہیں
وہ لوگ جو الیکشن کو پاکستان کے لیے لازم سمجھتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ان کی نگاہ بہت دور تک دیکھ رہی ہے اوران کی نگاہ یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ دنیا میں پاکستان کی حالت کیا ہے اور ایسی دنیا میں پاکستان کو بحال کرنے کے لیے الیکشن کیوں ضروری ہیں لیکن ملک میں قبل از وقت الیکشن کے لیے بے یقینی کی کیفیت ہے، کسی کو واضح علم نہیں ہے کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں، سب اپنے اپنے اندازے اور قیافے لگا رہے ہیں اور یہ اندازے ابھی تک تودرست ثابت نہیں ہو سکے۔
پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے متعلق تجزیہ نگاروں کی متفقہ رائے تھی کہ اسمبلی تحلیل نہیں ہو گی لیکن چوہدری پرویز الٰہی نے سیاسی تجزیہ کاروں کے اندازوں کو غلط ثابت کر دیا اور اسمبلی تحلیل کر کے اپنا تما م تر وزن عمران خان کے پلڑے میں ڈال دیا۔
اس تحلیل کے متعلق کہا جارہا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی نے اہم کردار ادا کیا ہے اور انھوں نے بزرگوں کی روایات سے ہٹ کر آزادانہ انداز سیاست اختیار کیا ہے جس کا نتیجہ عمران خان کی مسلسل حمایت اور ان کے مینڈیٹ کی پاسداری کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کرا دی ہے۔
پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد خیبر پختونخوا کی اسمبلی بھی تحلیل کے مرحلے سے گزر رہی ہے ان دونوں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد اس توقع کا اظہار کیا جارہا ہے کہ ملک میں قبل از وقت الیکشن ہو جائیں گے لیکن خطرات ہیں اورشنید یہ ہے کہ نگران سیٹ اَپ کہیں طوالت اختیار نہ کر جائے اور سب سیاستدان ہاتھ ملتے نہ رہ جائیں۔
الیکشن کیوں ضروری ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ملک میں انتخابات ہوں گے تو یہ اس بات کا اعلان ہوں گے کہ یہ ملک ابھی زندہ ہے اور اس کی قوم زندہ رہنا چاہتی ہے۔
ہماری سیاسی جماعتیں یہ سب جانتی ہیں لیکن اس کے باوجود الیکشن کے بارے میں شک و شبہات کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ ہمارا ماضی گواہ ہے کہ ہمارے آئین کے ماہرین ایسی ایسی دفعات نکال لاتے ہیں جو اشرافیہ کو درکار ہوتی ہیں اور ان دفعات سے مرضی کا کوئی بھی مطلب نکال لیا جاتا ہے، ماضی میں یہ سب تماشے ہوتے رہے ہیں، اس لیے اب سیاستدان پھونک پھونک کر قدم اٹھانے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔
شاید اسی لیے چند دردمند پاکستانیوں کی جانب سے بار بار کہا جارہا ہے کہ الیکشن انتہائی ضروری ہیں اور ان کی شفافیت اس سے زیادہ ضروری ہے۔
انتخابات اگر شفاف نہ ہوئے تو خدانخواستہ اس ملک کا مستقبل مخدوش ہو جائے گا۔ آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانیوں کو اپنی مرضی کی قیادت منتخب کرنے کا آزادانہ اختیار ہو گا وہ جسے چاہئیں منتخب کریں اور جسے چاہئیں مسترد کر دیں بس یہی اختیار اس قوم کی نئی زندگی کی نوید ہے۔
الیکشن کے انعقاد کے متعلق شور شرابے کے باوجود میری چھٹی حس مجھے خبردار کر رہی ہے کہ الیکشن شاید نہ ہوں کیونکہ اگر الیکشن ہو گئے اور تھوڑے بہت شفاف بھی ہو گئے تو اس کے نتیجے میں شاید وہ لوگ جیت جائیں جو اس وقت ناپسندیدہ ہیں اور ملک کے اندر اور ملک سے باہر ان کی حمایت موجود نہیں ہے تو ایسے ناپسندیدہ لوگوں کو منتخب کرانے کے لیے الیکشن کون کرائے گا۔ جو عالمی طاقتیں پاکستان کو بچتا نہیں دیکھ سکتیں، وہ ہر وقت اس تاک میں رہتی ہیں کہ ایٹمی پاکستان کو کس طرح کمزور کر کے اپنے دباؤ میں رکھا جا سکے۔
عالمی مالیاتی ادارے تو ہمیں زبردستی قرضے دے کر اپنے کنٹرول میں رکھا کرتے تھے لیکن اب ہمیں اس قابل نہیں سمجھتے کہ ہمیں قرض دیں بلکہ قرض کے لیے ہمارے منت ترلوں کے باوجود لیت و لعل اور ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے۔
غیرتوپھر غیر ہوتے ہیں ہمارے اپنے برادر اسلامی ممالک بھی اپنے ایٹمی پاکستان کی کھل کرمدد نہیں کر رہے تو غیروں سے گلہ کیا کیا جائے۔ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے، یہ ہماری اشرافیہ کی کار گزاریوں کا صلہ ہے جنھوں نے اس ملک کو اتنا لوٹا ہے کہ اس کی ہڈیاں تک چبا ڈالی ہیں اور ملک کو ڈھانچے میں بدل دیا ہے۔
اب تو رشوت بھی لاکھوں کے بجائے کروڑوں اربوں میں ہوتی ہے۔ عوام حیران ہوتے ہیں ان کا ملک اتنا رئیس تھا کہ ستر برسوں میں ان کے ملک کو اس بے دردی سے نوچا گیا کہ اس ملک کے رشوت خور بھی اربوں میں کھیلتے رہے۔
بھوکی ننگی مایوس اور پریشان قوم میں اعتماد کی بحالی کا واحد راستہ صرف الیکشن ہیں جن سے قوم کو بے پناہ اور ناقابل برداشت مایوسی سے نکالنے کا یہ فوری طریقہ ہیں جن سے قوم میں زندگی پر اعتماد پیدا ہو گا اور وہ اپنے ملک کو آباد دنیا کا ایک ملک سمجھنا شروع کر دے گی اور کوئی مالیاتی ادارہ اسے ختم نہیں کر سکے گا۔
ضد اور انا سے درگزر کرتے ہوئے بات سمجھ آتی ہے لیکن یہ اس صور ت میں ہی ممکن ہے اگر کوئی ملک کی خاطر ہوش مندی اور درد دل سے سمجھنا چاہے۔
پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے متعلق تجزیہ نگاروں کی متفقہ رائے تھی کہ اسمبلی تحلیل نہیں ہو گی لیکن چوہدری پرویز الٰہی نے سیاسی تجزیہ کاروں کے اندازوں کو غلط ثابت کر دیا اور اسمبلی تحلیل کر کے اپنا تما م تر وزن عمران خان کے پلڑے میں ڈال دیا۔
اس تحلیل کے متعلق کہا جارہا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی نے اہم کردار ادا کیا ہے اور انھوں نے بزرگوں کی روایات سے ہٹ کر آزادانہ انداز سیاست اختیار کیا ہے جس کا نتیجہ عمران خان کی مسلسل حمایت اور ان کے مینڈیٹ کی پاسداری کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کرا دی ہے۔
پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد خیبر پختونخوا کی اسمبلی بھی تحلیل کے مرحلے سے گزر رہی ہے ان دونوں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد اس توقع کا اظہار کیا جارہا ہے کہ ملک میں قبل از وقت الیکشن ہو جائیں گے لیکن خطرات ہیں اورشنید یہ ہے کہ نگران سیٹ اَپ کہیں طوالت اختیار نہ کر جائے اور سب سیاستدان ہاتھ ملتے نہ رہ جائیں۔
الیکشن کیوں ضروری ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ملک میں انتخابات ہوں گے تو یہ اس بات کا اعلان ہوں گے کہ یہ ملک ابھی زندہ ہے اور اس کی قوم زندہ رہنا چاہتی ہے۔
ہماری سیاسی جماعتیں یہ سب جانتی ہیں لیکن اس کے باوجود الیکشن کے بارے میں شک و شبہات کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ ہمارا ماضی گواہ ہے کہ ہمارے آئین کے ماہرین ایسی ایسی دفعات نکال لاتے ہیں جو اشرافیہ کو درکار ہوتی ہیں اور ان دفعات سے مرضی کا کوئی بھی مطلب نکال لیا جاتا ہے، ماضی میں یہ سب تماشے ہوتے رہے ہیں، اس لیے اب سیاستدان پھونک پھونک کر قدم اٹھانے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔
شاید اسی لیے چند دردمند پاکستانیوں کی جانب سے بار بار کہا جارہا ہے کہ الیکشن انتہائی ضروری ہیں اور ان کی شفافیت اس سے زیادہ ضروری ہے۔
انتخابات اگر شفاف نہ ہوئے تو خدانخواستہ اس ملک کا مستقبل مخدوش ہو جائے گا۔ آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانیوں کو اپنی مرضی کی قیادت منتخب کرنے کا آزادانہ اختیار ہو گا وہ جسے چاہئیں منتخب کریں اور جسے چاہئیں مسترد کر دیں بس یہی اختیار اس قوم کی نئی زندگی کی نوید ہے۔
الیکشن کے انعقاد کے متعلق شور شرابے کے باوجود میری چھٹی حس مجھے خبردار کر رہی ہے کہ الیکشن شاید نہ ہوں کیونکہ اگر الیکشن ہو گئے اور تھوڑے بہت شفاف بھی ہو گئے تو اس کے نتیجے میں شاید وہ لوگ جیت جائیں جو اس وقت ناپسندیدہ ہیں اور ملک کے اندر اور ملک سے باہر ان کی حمایت موجود نہیں ہے تو ایسے ناپسندیدہ لوگوں کو منتخب کرانے کے لیے الیکشن کون کرائے گا۔ جو عالمی طاقتیں پاکستان کو بچتا نہیں دیکھ سکتیں، وہ ہر وقت اس تاک میں رہتی ہیں کہ ایٹمی پاکستان کو کس طرح کمزور کر کے اپنے دباؤ میں رکھا جا سکے۔
عالمی مالیاتی ادارے تو ہمیں زبردستی قرضے دے کر اپنے کنٹرول میں رکھا کرتے تھے لیکن اب ہمیں اس قابل نہیں سمجھتے کہ ہمیں قرض دیں بلکہ قرض کے لیے ہمارے منت ترلوں کے باوجود لیت و لعل اور ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے۔
غیرتوپھر غیر ہوتے ہیں ہمارے اپنے برادر اسلامی ممالک بھی اپنے ایٹمی پاکستان کی کھل کرمدد نہیں کر رہے تو غیروں سے گلہ کیا کیا جائے۔ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے، یہ ہماری اشرافیہ کی کار گزاریوں کا صلہ ہے جنھوں نے اس ملک کو اتنا لوٹا ہے کہ اس کی ہڈیاں تک چبا ڈالی ہیں اور ملک کو ڈھانچے میں بدل دیا ہے۔
اب تو رشوت بھی لاکھوں کے بجائے کروڑوں اربوں میں ہوتی ہے۔ عوام حیران ہوتے ہیں ان کا ملک اتنا رئیس تھا کہ ستر برسوں میں ان کے ملک کو اس بے دردی سے نوچا گیا کہ اس ملک کے رشوت خور بھی اربوں میں کھیلتے رہے۔
بھوکی ننگی مایوس اور پریشان قوم میں اعتماد کی بحالی کا واحد راستہ صرف الیکشن ہیں جن سے قوم کو بے پناہ اور ناقابل برداشت مایوسی سے نکالنے کا یہ فوری طریقہ ہیں جن سے قوم میں زندگی پر اعتماد پیدا ہو گا اور وہ اپنے ملک کو آباد دنیا کا ایک ملک سمجھنا شروع کر دے گی اور کوئی مالیاتی ادارہ اسے ختم نہیں کر سکے گا۔
ضد اور انا سے درگزر کرتے ہوئے بات سمجھ آتی ہے لیکن یہ اس صور ت میں ہی ممکن ہے اگر کوئی ملک کی خاطر ہوش مندی اور درد دل سے سمجھنا چاہے۔