طالبان حکومت مذاکرات میں پیش رفت
حکومت اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے اور مصائب و مسائل کے اس گرداب سے نکلنے کے لیے ناگزیر ہے۔۔۔
حکومت اور طالبان کے درمیان اعتماد کی فضا بہتر ہونا شروع ہوگئی اور امن کی جانب تیزی سے پیشرفت ہو رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے طالبان کے پیش کیے گئے مطالبات میں سے ایک مطالبہ غیر عسکری قیدیوں کی رہائی کا تسلیم کر لیا گیا ہے اور حکومت نے مزید 13 طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کر کے مذاکرات کو جاری رکھنے کے لیے ماحول مزید ساز گار بنا دیا ہے جب کہ 19 غیر عسکری قیدیوں کو وہ پہلے ہی رہا کر چکی ہے۔ اس طرح حکومت کی جانب سے آئین کی حدود کے اندر رہتے ہوئے طالبان کے مطالبات تسلیم کرنے کا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ حکومتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ اس بات پر اصولی اتفاق ہو گیا ہے کہ فہرست میں موجود جن قیدیوں کے خلاف ثبوت موجود نہیں انھیں مرحلہ وار رہا کر دیا جائے گا۔
قیدیوں کی رہائی کے اس حکومتی مثبت اقدام کے جواب میں طالبان نے ابھی تک غیر عسکری قیدیوں کو رہا نہیں کیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی زیر صدارت ہفتہ کو حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس ہوا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ طالبان شوریٰ کے ساتھ آیندہ ہفتے براہ راست مذاکرات کا دوسرا رائونڈ ہوگا۔ حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کے مشاورتی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ طالبان شوریٰ نے ایسی جگہ کا مطالبہ کیا تھا جہاں ان کے لیے آنا جانا آسان ہو اور حکومت نے ایسی جگہ کا انتخاب کر لیا ہے جہاں طالبان کی مذاکراتی ٹیم کو آنے جانے میں کوئی دشواری نہیں ہو گی' ایسی جگہ مذاکرات کو تیزی سے آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے۔
چوہدری نثار علی کا یہ مطالبہ بالکل صائب ہے کہ جب حکومت نے طالبان کے 19 قیدی رہا کر دیے ہیں اور مزید 13 قیدی رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو جواب میں طالبان کو بھی بے گناہ اور غیر عسکری قیدیوں کو چھوڑ دینا چاہیے۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اب طالبان کو بھی حکومتی مطالبے پر غیر عسکری قیدیوں کو رہا کر کے مثبت پیغام دینا چاہیے تاکہ اعتماد کی فضا جو قائم ہو چکی ہے وہ برقرار رہے۔اس وقت جماعت اسلامی' تحریک انصاف سمیت بعض مذہبی و سیاسی جماعتیں حکومت کے طالبان سے مذاکرات کی حامی ہیں اور اس امر کی خواہاں ہے کہ حکومت امن کے لیے آپریشن کا رستہ اپنانے کے لیے بجائے مذاکرات کا رستہ اپنائے جب کہ پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور کچھ مذہبی و سیاسی جماعتیں مذاکرات کی مخالفت کر رہی ہیں۔
چوہدری نثار علی نے مذاکرات پر تنقید کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ گزشتہ دنوں کو دیکھیں کہ کتنی جانیں بچی ہیں' دھماکوں میں کتنی کمی آئی' مذاکراتی عمل سے پاکستان میں امن آئے گا' امن لانا مشکل کام ہے' فوجی آپریشن کرنا کوئی مشکل نہیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ جذبات میں آ کر معاملات بگاڑنا نہایت آسان ہے اور حکمت و دانائی سے کام لے کر امن لانا اور اس کا قیام یقینی بنانا سب سے مشکل امر ہے۔ اب تک طالبان سے ہونے والے مذاکرات اور مابعد مرتب ہونے والے اثرات کے تناظر میں دیکھا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ حکومت قیام امن کے لیے درست پالیسی پر چل رہی ہے جو لوگ اس وقت اس مذاکراتی عمل کو تنقید کی نظر سے دیکھ رہے ہیں' ان کا اپنا نقطہ نظر ہے اور جمہوریت کا حسن ہی اختلاف رائے کو تحمل سے برداشت کرنا ہے۔ وزیر داخلہ نے واضح کر دیا ہے کہ قیام امن کے لیے پاکستان کے آئین اور قانون کے اندر رہ کر مذاکرات کریں گے۔
حکومت یہ کئی بار وضاحت کر چکی ہے کہ وہ طالبان کا آئین سے ماورا کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کرے گی۔ طالبان کو بھی حکومت سے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے جس سے اس کی مشکلات میں اضافہ ہو اور مذاکرات کے جاری عمل میں رکاوٹ پیدا ہو۔ حکومت اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے اور مصائب و مسائل کے اس گرداب سے نکلنے کے لیے ناگزیر ہے کہ حکومت کوئی ایسا فیصلہ نہ کرے جس سے اس کی راہ میں مزید رکاوٹیں پیدا ہو جائیں۔ گزشتہ چند برس سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں ان سے نکلنے کے لیے سنجیدگی کی ضرورت ہے۔
مولانا سمیع الحق کا کہنا ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا ہو گئی ہے' اصل مذاکرات ابھی شروع ہی نہیں ہوئے تاہم مذاکرات کی گاڑی چل پڑی ہے۔ مذاکرات کو آگے بڑھانے میں حکومت کے خیرسگالی اقدامات کا اہم کردار ہے جس کے باعث دونوں اطراف مذاکرات کے لیے ساز گار فضا بن چکی ہے' طالبان نے جنگ بندی میں 10 اپریل تک توسیع کر کے مثبت پیغام دیا ہے تاہم مولانا سمیع الحق نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ جنگ بندی میں مزید توسیع ہو گی' دونوں طرف سے مستقل جنگ بندی کے لیے ناگزیر ہے کہ معاملات کو جلد از جلد حل کیا جائے۔ جتنی تاخیر ہوتی چلی جائے گی معاملات کے بگڑنے اور مسائل کے پیدا ہونے کے خدشات موجود رہیں گے کیونکہ مذاکرات کی مخالفت کرنے والی قوتیں بھی طاقتور ہیں اور وہ قیام امن کے لیے آپریشن کا راستہ اپنانا چاہتی ہیں۔
اب طالبان پر بھی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ حکومت کے مطالبے کو مانتے ہوئے غیر عسکری قیدیوں کو فی الفور رہا کرے تاکہ ان کی طرف سے بھی یہ پیغام ملے کہ وہ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ دوسری جانب حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے عمل میں گومگو کی کیفیت ابھی تک موجود ہے اور صورت حال مکمل طور پر واضح نہیں ہو رہی۔ حکومت کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہے یہی وجہ ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ نے اس گومگو کی کیفیت کو ختم کرنے کے لیے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ طالبان کی طرف سے واضح اور اصل نکات سامنے آئیں' حکومت بھی واضح نکات کے ساتھ جائے گی۔
موجودہ صورت حال سے نمٹنا آسان نہیں' اس میں موجود الجھائو اور پیچیدگی گزشتہ کئی سال کے بگاڑ کا نتیجہ ہے' اسی لیے حکومت کوئی جذباتی قدم اٹھانے کے بجائے صبر و تحمل اور زیرکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھا رہی ہے۔ امید ہے کہ حکومت اور طالبان دونوں سنجیدگی سے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ملک ایک بار پھر امن کا گہوارہ بن سکے۔
قیدیوں کی رہائی کے اس حکومتی مثبت اقدام کے جواب میں طالبان نے ابھی تک غیر عسکری قیدیوں کو رہا نہیں کیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی زیر صدارت ہفتہ کو حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس ہوا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ طالبان شوریٰ کے ساتھ آیندہ ہفتے براہ راست مذاکرات کا دوسرا رائونڈ ہوگا۔ حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کے مشاورتی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ طالبان شوریٰ نے ایسی جگہ کا مطالبہ کیا تھا جہاں ان کے لیے آنا جانا آسان ہو اور حکومت نے ایسی جگہ کا انتخاب کر لیا ہے جہاں طالبان کی مذاکراتی ٹیم کو آنے جانے میں کوئی دشواری نہیں ہو گی' ایسی جگہ مذاکرات کو تیزی سے آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے۔
چوہدری نثار علی کا یہ مطالبہ بالکل صائب ہے کہ جب حکومت نے طالبان کے 19 قیدی رہا کر دیے ہیں اور مزید 13 قیدی رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو جواب میں طالبان کو بھی بے گناہ اور غیر عسکری قیدیوں کو چھوڑ دینا چاہیے۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اب طالبان کو بھی حکومتی مطالبے پر غیر عسکری قیدیوں کو رہا کر کے مثبت پیغام دینا چاہیے تاکہ اعتماد کی فضا جو قائم ہو چکی ہے وہ برقرار رہے۔اس وقت جماعت اسلامی' تحریک انصاف سمیت بعض مذہبی و سیاسی جماعتیں حکومت کے طالبان سے مذاکرات کی حامی ہیں اور اس امر کی خواہاں ہے کہ حکومت امن کے لیے آپریشن کا رستہ اپنانے کے لیے بجائے مذاکرات کا رستہ اپنائے جب کہ پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور کچھ مذہبی و سیاسی جماعتیں مذاکرات کی مخالفت کر رہی ہیں۔
چوہدری نثار علی نے مذاکرات پر تنقید کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ گزشتہ دنوں کو دیکھیں کہ کتنی جانیں بچی ہیں' دھماکوں میں کتنی کمی آئی' مذاکراتی عمل سے پاکستان میں امن آئے گا' امن لانا مشکل کام ہے' فوجی آپریشن کرنا کوئی مشکل نہیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ جذبات میں آ کر معاملات بگاڑنا نہایت آسان ہے اور حکمت و دانائی سے کام لے کر امن لانا اور اس کا قیام یقینی بنانا سب سے مشکل امر ہے۔ اب تک طالبان سے ہونے والے مذاکرات اور مابعد مرتب ہونے والے اثرات کے تناظر میں دیکھا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ حکومت قیام امن کے لیے درست پالیسی پر چل رہی ہے جو لوگ اس وقت اس مذاکراتی عمل کو تنقید کی نظر سے دیکھ رہے ہیں' ان کا اپنا نقطہ نظر ہے اور جمہوریت کا حسن ہی اختلاف رائے کو تحمل سے برداشت کرنا ہے۔ وزیر داخلہ نے واضح کر دیا ہے کہ قیام امن کے لیے پاکستان کے آئین اور قانون کے اندر رہ کر مذاکرات کریں گے۔
حکومت یہ کئی بار وضاحت کر چکی ہے کہ وہ طالبان کا آئین سے ماورا کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کرے گی۔ طالبان کو بھی حکومت سے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے جس سے اس کی مشکلات میں اضافہ ہو اور مذاکرات کے جاری عمل میں رکاوٹ پیدا ہو۔ حکومت اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے اور مصائب و مسائل کے اس گرداب سے نکلنے کے لیے ناگزیر ہے کہ حکومت کوئی ایسا فیصلہ نہ کرے جس سے اس کی راہ میں مزید رکاوٹیں پیدا ہو جائیں۔ گزشتہ چند برس سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں ان سے نکلنے کے لیے سنجیدگی کی ضرورت ہے۔
مولانا سمیع الحق کا کہنا ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا ہو گئی ہے' اصل مذاکرات ابھی شروع ہی نہیں ہوئے تاہم مذاکرات کی گاڑی چل پڑی ہے۔ مذاکرات کو آگے بڑھانے میں حکومت کے خیرسگالی اقدامات کا اہم کردار ہے جس کے باعث دونوں اطراف مذاکرات کے لیے ساز گار فضا بن چکی ہے' طالبان نے جنگ بندی میں 10 اپریل تک توسیع کر کے مثبت پیغام دیا ہے تاہم مولانا سمیع الحق نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ جنگ بندی میں مزید توسیع ہو گی' دونوں طرف سے مستقل جنگ بندی کے لیے ناگزیر ہے کہ معاملات کو جلد از جلد حل کیا جائے۔ جتنی تاخیر ہوتی چلی جائے گی معاملات کے بگڑنے اور مسائل کے پیدا ہونے کے خدشات موجود رہیں گے کیونکہ مذاکرات کی مخالفت کرنے والی قوتیں بھی طاقتور ہیں اور وہ قیام امن کے لیے آپریشن کا راستہ اپنانا چاہتی ہیں۔
اب طالبان پر بھی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ حکومت کے مطالبے کو مانتے ہوئے غیر عسکری قیدیوں کو فی الفور رہا کرے تاکہ ان کی طرف سے بھی یہ پیغام ملے کہ وہ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ دوسری جانب حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے عمل میں گومگو کی کیفیت ابھی تک موجود ہے اور صورت حال مکمل طور پر واضح نہیں ہو رہی۔ حکومت کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہے یہی وجہ ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ نے اس گومگو کی کیفیت کو ختم کرنے کے لیے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ طالبان کی طرف سے واضح اور اصل نکات سامنے آئیں' حکومت بھی واضح نکات کے ساتھ جائے گی۔
موجودہ صورت حال سے نمٹنا آسان نہیں' اس میں موجود الجھائو اور پیچیدگی گزشتہ کئی سال کے بگاڑ کا نتیجہ ہے' اسی لیے حکومت کوئی جذباتی قدم اٹھانے کے بجائے صبر و تحمل اور زیرکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھا رہی ہے۔ امید ہے کہ حکومت اور طالبان دونوں سنجیدگی سے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ملک ایک بار پھر امن کا گہوارہ بن سکے۔