نیا سیلاب اور پرانی تقریریں

موسم کی تبدیلی، وہ سنگین مسئلہ ہے جس پر عملی طور پر ہم کئی دہائیوں سے سوئے ہوئے ہیں


راؤ منظر حیات April 06, 2014
[email protected]

دنیا ویسے تو ترقی کے اعتبار سے کئی حصوں میں تبدیل ہوچکی ہے، مگر ترقی یافتہ ممالک اب شعوری اعتبار سے اس رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں جسکا ادراک شاید ترقی پذیر ممالک کو اب تک نہیں ہوا۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ ہم لوگوں میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے کئی اہم مسائل کا فہم نہایت کم ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ ہم ان مسائل کی اہمیت ہی سے آگاہ نہیں ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔(Climate Change) موسم کی تبدیلی، وہ سنگین مسئلہ ہے جس پر عملی طور پر ہم کئی دہائیوں سے سوئے ہوئے ہیں۔ اکثریت اس مسئلہ کا شکار ہونے کے باوجود اس کے متعلق بالکل نہیں جانتی۔ بلکہ اگر میں یہ عرض کروں کہ گھمبیر مسائل کی فہرست میں اس کا شمار ہے بھی کہ نہیں! تو جواب نفی میں ہو گا۔

حکومتی سطح پر یہ کوئی قابل توجہ ایشو نظر نہیں آتا۔ تمام مسائل جو سیاسی سطح پر کسی بھی جماعت کی قیادت کی انا کی تسکین کا باعث بن سکتے ہیں، ان پر آپ کو بے شمار بیانات، لاتعدادM.O.U اور سیکڑوں میٹنگز نظر آئیں گی۔ مگر وہ مسائل جن کی فہم عام لوگوں کو نہیں ہے اور جن سے کوئی بڑا سیاسی فائدہ نہیں لیا جا سکتا، ان پر غور و فکر تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہماری معیشت اور عام لوگوں کو جتنا نقصان"موسم کی تبدیلی کے عنصر'' نے پہنچایا ہے، اس کا عشر عشیر بھی کسی اور حادثہ نے نہیں پہنچایا۔ آپ دور کیوں جاتے ہیں۔

آپ ان چار سے پانچ سالوں میں سیلاب اور اس سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگائیں تو ہوش گم ہو جاتے ہیں۔ پہلا سیلاب جس نے بنیادی طور پر خیبر پختونخوا کو کسی بھی خانہ جنگی سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ آپ کے سامنے کی بات ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے۔ ہزاروں عمارتوں کا وجود ختم ہو گیا۔ لوگوں کے مال مویشی، گھر اور دیگر عمارتیں پانی کی نظر ہو گئیں۔ دوسرا المناک حادثہ وہ سیلاب ہے جس نے جنوبی پنجاب کو تھوڑا مگر سندھ کو اپاہج کر کے رکھ دیا۔ وہ علاقے جس میں لوگوں نے بارش کا پانی تک نہیں دیکھا تھا۔ مکمل زیر آب آ گئے۔ اس سیلاب کے اثرات آج تک اندرون سندھ کے علاقوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے ان دونوں آفات کی وجوہات اور حل تلاش کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کے بجائے انکو انتظامی سطح پر حل کرنے کی سطحی کوششیں کی۔ بے سر و پا فضائی دورے، ٹی وی کوریج، انٹرویوز، بے پناہ محنت کا تاثر اور سیاسی قد بڑھانے پر بہت زیادہ زور دیا گیا۔ رہی سہی کسر ہمارے لاغر انتظامی ڈھانچے میں کمزوریوں نے پوری کر دی۔ اس تمام بحث سے قطع نظر، ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ سائنسی اعتبار سے ان دونوں قدرتی آفات کی اصل وجوہات کیا تھیں۔(Climate Change) اور اس کی بدولت نقصان کے ظہور پذیر ہونے کا ذکر کسی سطح پر نہ کیا گیا۔ ہمارے ملک میں موسمی تبدیلی کے نقصانات ابھی تک پوری طرح سامنے نہیں لائے گئے۔ وہ مشکل، جس سے مغربی ممالک ہر وقت لڑنے کے لیے ہر حربہ بروئے کار لا رہے ہیں، اس مسئلہ پر ہم چند بیانات اور کچھ میٹنگز سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ خیر یہ ہمارا عمومی رویہ ہے اور اس کو تبدیل کرنا ناممکن ہے۔

موسمی تبدیلی کا عنصر بیسویں صدی کے پہلے حصے میں محسوس کیا گیا۔ ہماری فضا میں ہزاروں سال سے کاربن ڈائی آکسائیڈاور دیگر گیسز کا ایک قدرتی توازن موجود تھا۔ ہزاروں سال سے یہ توازن انسان، نباتاتی اور حیوانی زندگی کا امین تھا۔ بیسویں صدی میں سائنس دانوں نے معلوم کیا کہ یہ توازن بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ یہ تما م سائنسدان مغرب سے تعلق رکھتے تھے۔ ان لوگوں اور ان کی حکومتوں نے کثیر سرمایہ اس امر کی تحقیقات کے لیے مختص کر دیا۔ تحقیق سے یہ چیز سامنے آئی کہ پوری انسانی حیات شدید خطرے کا شکار ہو چکی ہے۔

اس کی کئی وجوہات بتائی گئیں۔ کسی جامع منصوبہ بندی کے بغیر صنعتی ترقی، تیل اور کوئلہ پر صنعتی اداروں کو بجلی دینے کا انحصار، بڑھتی ہوئی آبادی، کم ہوتے ہوئے جنگلات اور دیگر عوامل، وہ بنیادی وجوہات تھیں جس سے یہ موسمی تغیر کا عفریت ہمارے سامنے آیا۔ اس میں انتہائی قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس بربادی کی شروعات بھی مغربی ممالک ہی سے ہوئیں کیونکہ ان کی بے پناہ صنعتی ترقی کی وجہ سے فضا میں مختلف گیسز کا توازن بگڑنا شروع ہوا۔ لیکن اس کے منفی اثرات پر ان ممالک نے بہت جلد قابو پا لیا اور اب بھی اسی تگ و دو میں مشغول ہیں۔

1990ء میں"بین الحکومتی پینل برائے موسمی تبدیلی" نے اپنی پہلی رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ سے دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ فضا میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ یہ ایک مکمل سائنسی رپورٹ تھی۔ اس رپورٹ پر ایک مدلل بحث شروع ہو گئی۔ اقوام متحدہ میں ایک ادارہ تشکیل دیا گیا جو " موسمی تبدیلی" کے مسئلہ پر بھر پور توجہ دے سکے۔ 1992ء میں ریو ڈی جنیرو میں"دوسری ارتھ سمٹ" منعقد کی گئی۔ 194 ممالک نے اس میں شرکت کی اور سب نے اس کے اعلانات پر دستخط کیے۔ لیکن بتدریج یہ نکتہ سامنے آیا کہ یہ اقدامات بہت ناکافی ہیں۔

چنانچہ "برلن" میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں وہ اصول طے کیے گئے جس پر اس مسئلہ پر مستقبل میں فیصلے کیے جا سکیں۔ اس کو"برلن مینڈیٹ"کانام دیا گیا۔ 1997ء میں"کیوٹو پروٹو کول" وجود میں آیا۔ اس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ دنیا کے وہ 55 ممالک جو فضائی آلودگی کا55 فیصد تک ذمے دار ہیں اس آلودگی کو بتدریج کم کرینگے۔ پاکستان نے اس معاہدہ پر2005ء میں دستخط کیے۔ اس کے بعد کوپن ہیگن میں ایک اور بین الاقوامی کانفرنس ہوئی اور ایک معاہدہ کیا گیا کہ کویوٹو پروٹول کے فیصلوں کو آگے بڑھایا جائے گا۔ اس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ترقی یافتہ ممالک اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر 100 بلین ڈالر کا فنڈ بھی قائم کرینگے۔

پاکستان اکثر معاہدوں میں دستخط کرنے کے باوجود عملی اقدامات اٹھانے میں یکسر ناکام رہا ہے۔ ہمارے ملک میں جنگلات کا تناسب بیس سے پچیس فیصد تک ہونا چاہیے۔ مگر ہمارے پاس صرف4.8% جنگلات ہیں۔ کئی ماہرین یہ تناسب صرف3% بتاتے ہیں۔ صرف جنگلات کا کم تناسب خطرے کی لال بتی ہے جس سے ہمارا ملک بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ آپ کسی طرف دیکھ لیجیے، ہم انتہائی بے رحمی سے اپنے درخت کاٹتے رہتے ہیں۔ آج سے تیس، چالیس برس پہلے اگر آپ پنڈی سے مری کا سفر کرتے تھے تو آپ کو ہر طرف گھنے جنگل نظر آتے تھے۔ مگر اب اس سفر میں آپ کو درختوں کے عدم وجود کا احساس" گنجے پہاڑوں" کی صورت میں ہو گا۔

خیبرپختونخوا اور آزاد کشمیر میں دہائیوں سے" ٹمبر مافیا" بلا کسی روک ٹوک کے اپنا غیر قانونی کام کرنے میں مصروف ہے۔ کئی صوبوں میں ایسے وزیر جنگلات رہے ہیں جو بذات خود" ٹمبر مافیا" کے سرغنہ تھے اور انھوں نے سرکاری افسروں کے ساتھ ملکر درختوں کا صفایہ کر دیا۔ صاحبان! آپ تحقیق کیجیے، مغربی ممالک میں صرف ایک پرانے درخت کو کاٹنے سے روکنے کے لیے ملک کے عوام اور اعلیٰ ترین عدالتیں حرکت میں آ جاتی ہیں۔ وہاں درخت کاٹنا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ صرف اس لیے، کہ وہ جانتے ہیں کہ درخت انسانی زندگی کو محفوظ رکھنے کے لیے "ڈاکٹر" کا کام کرتے ہیں۔

پہاڑی جنگلات کے علاوہ وہ تمام "مین گروو" جنگلات جو دریائے سندھ اور دیگر جگہ پر موجود ہیں، ان تمام میں صاف پانی نہ ہونے کی بدولت نمایاں کمی واقع ہو رہی ہے۔ آپ ہمارے برف کے گلیشئرز کی جانب نظر دوڑائیں۔ ہمارے تمام برفانی گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ پگھلنے کی یہ رفتار پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس سے انسانوں کے لیے گھمبیر مسائل پیدا ہو ر ہے ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں غیر معمولی بے وقتی سیلاب عام ہیں۔ کئی مقامات پر یک لخت پانی سے جھیلیں وجو د میں آ جاتی ہیں جو قصبوں کے قصبے اور گائوں کے گائوں اجاڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ جانی نقصانات کی تعداد ان گنت ہے۔ لینڈ سلائیڈز بالکل عام سی بات نظر آتی ہے۔ برف کے وزنی تودے گر گر کر انسانی جان کو ہر وقت بے وقعت کر رہے ہیں۔ پرندے، نباتات، کیڑوں اور جانوروں کی کئی ایسی اقسام ہیں جو قدرتی ماحول تبدیل ہونے سے تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔

بارشوں کا قدرتی نظام بھی اب تبدیل پذیر ہے۔ بارشوں کی ترتیب اور ان کی مقدار بہت حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔ کئی ایسے علاقے جن میں پہلے بارشیں کم ہوتیں تھیں، اب غیر معمولی بارشوں کی زد میں رہتے ہیں۔ دریائوں میں پانی کی موجودگی پر بھی اثر پڑا ہے۔ پانی کی موجودگی جس کی پہلے آپ قطعی طور پر پیشین گوئی کر سکتے تھے، اب قدرے مشکل ہے۔ بارشوں کے اوقات میں تبدیلی سے آنے والی مٹی ہمارے ڈیمز اور پانی کے قدرتی ذخائر کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ اس مٹی سے ان کی عمر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ ہماری زراعت کا مکمل انحصار بارشوں اور دریائی پانی پر ہے۔ ہماری زراعت بھی فضائی حرارت میں تبدیلی اور پانی کی غیر یقینی صورت حال سے شدید متاثر ہو رہی ہے۔ ہماری زرعی پیداوار بھی کمی کا شکار ہے۔

پوری دنیا "ماحولیاتی تبدیلی" سے نبرد آزما ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے لوگوں کو سیلاب اور دیگر آفات سے بچانے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اپنے پودوں، جانوروں، درختوں، پرندوں اور کیڑوں کی بے پناہ حفاظت کر تے ہیں۔ لیکن ہمارے عظیم ملک میں جہاں روز بے شمار انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح مارے جاتے ہیں! جہاں لوگ خود اپنی زندگیاں ختم کر ہے ہیں! وہاں موسمی تبدیلی اور اُس سے پیدا ہونے والے مسائل بے معنی اور بے وقعت ہیں! نئے سیلاب میں ہمارے حکمران پرانی تقریروں سے بڑی آسانی سے کام چلا لیں گے! اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں