تھر ہنگامی اقدامات اور مستقبل
جب کوئی ہنگامہ میڈیا میں برپا ہوتا ہے تو حکمران طبقات اپنی موروثی نیند سے جاگتے ہیں اور اپنا جرم تسلیم کرنے کے بجائے۔۔
تھر میں بھوک اور بیماریوں سے اموات کا سلسلہ جاری ہے، تازہ اطلاعات کے مطابق مٹھی میں دو بچے ہلاک ہو گئے اور درجنوں بچوں کو اسپتال میں داخل کر دیا گیا ہے۔ دسمبر 2013ء سے اب تک تھر میں دو سو سے زیادہ افراد کی جان بھوک و افلاس سے جا چکی ہے، ہماری اخلاقیات اور قومی حمیت کا عالم یہ ہے کہ ہزاروں من گندم کو گوداموں میں سڑا دیا گیا لیکن قحط زدہ تھر کے باشندوں کو گندم نہیں دی گئی۔ اس پر مزید ستم یہ کہ بے نظیر انکم سپورٹ کے تحت ملنے والی امداد بھی ان تک نہ پہنچ سکی۔ حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی امداد میں بدعنوانیوں اور رشوت کی شکایات عام ہیں۔ لیکن سوائے اشک شوئی کے اس حوالے سے کسی قسم کے سخت اقدامات ہوتے نظر نہیں آتے۔ تھر کے المیے کے حوالے سے پہلے یہ خبریں میڈیا میں آئیں کہ ایک وزیر کو ناقص کارکردگی کی وجہ سے وزارت سے سبکدوش کر دیا گیا ہے لیکن کچھ ہی دن گزرنے کے بعد وزیر اعلیٰ کی طرف سے اعلان ہوا کہ انھیں سبکدوش نہیں کیا گیا، وہ جلد ہی وزارت کی ذمے داریاں سنبھال لیں گے۔ اس حوالے سے میڈیا میں یہ خبریں بھی چلیں کہ وزیر کی وزارت سے علیحدگی کی خبروں سے ان کے والد محترم وزیر اعلیٰ سے سخت ناراض ہو گئے، پھر یہ خبریں آئیں کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے ناراضگی دور کر دی۔
دنیا کے دوسرے مہذب ملکوں میں یہ روایت بہت مستحکم ہے کہ کسی وزیر کے محکمے میں کوئی بڑی خرابی یا ناقص کارکردگی کی وجہ کوئی جانی نقصان ہوتا ہے تو وہ وزیر از خود اپنے عہدے سے مستعفی ہو جاتا ہے لیکن پاکستان میں حکومتی اخلاقیات کا عالم یہ ہے کہ ایک وزیر کی ناقص کارکردگی کے نتیجے میں بچوں سمیت 200 سے زیادہ افراد بھوک اور بیماریوں سے ہلاک ہو چکے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ اور آصف علی زرداری نے تاج حیدر کو تھر میں حالات معمول پر لانے کی ذمے داری سونپی ہے، تاج حیدر کا شمار پارٹی کے سینئر رہنماؤں میں ہوتا ہے اور ان کی کارکردگی کو بھی سراہا جاتا ہے، تھر میں بھی تاج حیدر متحرک نظر آتے ہیں، اصولاً ایسے بے داغ اور متحرک پارٹی رہنماؤں کو ذمے دارانہ عہدے دیے جانے چاہئیں لیکن ہماری حکومتی روایات اور اخلاقیات میں کام کی قدر کا سرے سے کوئی تصور موجود نہیں۔
تھر کے المیے کے دو پہلو انتہائی قابل مذمت ہیں، ایک یہ کہ تھر میں بارشیں نہیں ہوئی تھیں اور تھر کے عوام کو قحط کا سامنا تھا۔ تھر نہ ہزاروں میل دور کا کوئی علاقہ ہے نہ مواصلاتی نظام سے کٹا ہوا ہے۔ کیا حکومت سندھ کو یہ علم نہیں تھا کہ تھر کے باشندے قحط کا شکار ہیں؟ اگر معلوم تھا تو اس نے بروقت اس تباہ کن قحط سے نمٹنے کے لیے انتظامات کیوں نہیں کیے۔ اگر حکومت کو تھر کے حالات کا علم نہ تھا تو حکومت کی اس سے بڑی نااہلی کیا ہو سکتی ہے۔ متعلقہ وزیر کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ تھر کے قحط اور قحط سے متاثرہ تھری عوام کے مسائل سے حکومت کو آگاہ کرتے مشکل یہ ہے کہ دیہی علاقوں سے انتخابات جیت کر آنے والے ان علاقوں میں جانے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ کراچی کی پرتعیش بستیوں کی شاندار حویلیوں کی مصروفیات سے انھیں اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ اپنے حلقہ انتخابات کا دورہ کریں، اپنے حلقہ انتخابات کے عوام کے مسائل سے آگہی حاصل کریں اور انھیں حل کرنے کی کوشش کریں۔ جن حکمران طبقات کو قومی دولت کی لوٹ مار اور عیاشیوں سے فرصت ہی نہیں ملتی ان سے عوام کے مسائل حل کرنے کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔
ہمارے حکمرانوں کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ اپنی راجدھانیوں کے مسائل سے اس وقت آگاہ ہوتے ہیں جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ تھر میں خشک سالی کوئی نئی بات نہیں جب بھی یہ علاقہ بارشوں سے محروم ہوتا ہے قحط اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ اس سال تھر میں بارشیں نہیں ہوئیں۔ کیا یہ اطلاع ہمارے حکمرانوں تک نہیں پہنچی تھی؟ اگر فوری تھری عوام کے لیے گندم آٹا اور کھانے پینے کی اشیا پہنچائی جاتیں تو شاید ایک فرد بھی قحط کا شکار ہوکر زندگی سے ہاتھ نہ دھوتا۔ حکمرانوں کو اس قسم کے سانحات کی خبر اس وقت ہوتی ہے جب میڈیا حرکت میں آتا ہے۔ پھر حکمرانوں میں کھلبلی مچتی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے رعایا کا حال جاننے کے بعد حکومت متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کرنے انھیں سزا دینے کے بجائے آئیں بائیں شائیں کرنے لگتی ہے اور بالواسطہ اور براہ راست عوام کے قاتلوں کا دفاع کرنے میں مصروف ہو جاتی ہے، یہ رویہ وڈیرہ شاہی کا طرہ امتیاز ہے جس کا مشاہدہ عوام کر رہے ہیں۔
تھر کے المیے کا دوسرا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ تھر کے عوام خاص طور پر معصوم بچے دودھ اور غذا سے محرومی کی وجہ سے جان سے جانے لگے اور گوداموں میں ہزاروں بوری گندم سڑتی رہی۔ گوداموں میں عموماً اجناس کے حفاظتی انتظامات نہیں ہوتے، اس سے قبل بھی کروڑوں روپوں کی گندم گوداموں میں سڑ گل کر تباہ ہوتی رہی لیکن اس جرم کے ذمے دار پکڑے گئے نہ ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ اس کے برخلاف یہ سڑی ہوئی گندم فلور ملوں کو سپلائی کی جاتی رہی اور عوام کی صحت کی دشمن فلور ملز مافیا صاف گندم کے ساتھ سڑی ہوئی انتہائی مضر صحت گندم ملا کر پیستے رہے اور عوام کو مہنگے داموں سپلائی کرتے رہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی باتیں نہیں، ہر شخص ان سے واقف ہے لیکن حکومت نے سوائے دکھاوے کی کارروائیوں کے کبھی کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی، جس کی وجہ سرکاری اور غیر سرکاری مجرموں کی ملی بھگت ہے جو اب بھی جاری ہے۔
جب کوئی ہنگامہ میڈیا میں برپا ہوتا ہے تو حکمران طبقات اپنی موروثی نیند سے جاگتے ہیں اور اپنا جرم تسلیم کرنے کے بجائے اس کا الٹا سیدھا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تھر کی اموات کے حوالے سے سرکار کا کہنا ہے کہ یہ اموات بھوک قحط سے نہیں ہوئیں بلکہ بیماریوں سے ہوئی ہیں۔ اس بھونڈے جواز کو پیش کرنے والوں نے عوام کو یہ نہیں بتایا کہ تھر میں وہ کون سی وبائی بیماری آئی ہوئی ہے جو سیکڑوں معصوم بچوں کی جان لے رہی ہے؟ یہ وبائی بیماری حکمرانوں کی نااہلی اور مجرمانہ غفلت ہے، چونکہ یہ بیماری موروثی ہے لہٰذا اس میں افاقے کا کوئی امکان نہیں۔ تھر کا قحط کوئی آج کا مسئلہ نہیں ہے، آج حکومت کے اہلکار جو مستعدی دکھا رہے ہیں وہ کل ختم ہو جائے گی، لیکن تھر کا مسئلہ زندہ رہے گا۔ اور یہ مسئلہ اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک کے اس کا کوئی مستقل حل تلاش نہیں کیا جاتا۔ یہاں پینے کے صاف پانی کا مستقل انتظام ہونا چاہیے۔ یہاں ٹیوب ویلوں کے ذریعے کاشتکاری کا ایک جامع نظام ہونا چاہیے، یہاں کے گوداموں سے عوام کو گندم اور آٹے کی مسلسل سپلائی کا انتظام ہونا چاہیے۔ ہنگامی اقدامات سے تھر کے عوام کے سائل حل نہیں ہو سکتے۔
دنیا کے دوسرے مہذب ملکوں میں یہ روایت بہت مستحکم ہے کہ کسی وزیر کے محکمے میں کوئی بڑی خرابی یا ناقص کارکردگی کی وجہ کوئی جانی نقصان ہوتا ہے تو وہ وزیر از خود اپنے عہدے سے مستعفی ہو جاتا ہے لیکن پاکستان میں حکومتی اخلاقیات کا عالم یہ ہے کہ ایک وزیر کی ناقص کارکردگی کے نتیجے میں بچوں سمیت 200 سے زیادہ افراد بھوک اور بیماریوں سے ہلاک ہو چکے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ اور آصف علی زرداری نے تاج حیدر کو تھر میں حالات معمول پر لانے کی ذمے داری سونپی ہے، تاج حیدر کا شمار پارٹی کے سینئر رہنماؤں میں ہوتا ہے اور ان کی کارکردگی کو بھی سراہا جاتا ہے، تھر میں بھی تاج حیدر متحرک نظر آتے ہیں، اصولاً ایسے بے داغ اور متحرک پارٹی رہنماؤں کو ذمے دارانہ عہدے دیے جانے چاہئیں لیکن ہماری حکومتی روایات اور اخلاقیات میں کام کی قدر کا سرے سے کوئی تصور موجود نہیں۔
تھر کے المیے کے دو پہلو انتہائی قابل مذمت ہیں، ایک یہ کہ تھر میں بارشیں نہیں ہوئی تھیں اور تھر کے عوام کو قحط کا سامنا تھا۔ تھر نہ ہزاروں میل دور کا کوئی علاقہ ہے نہ مواصلاتی نظام سے کٹا ہوا ہے۔ کیا حکومت سندھ کو یہ علم نہیں تھا کہ تھر کے باشندے قحط کا شکار ہیں؟ اگر معلوم تھا تو اس نے بروقت اس تباہ کن قحط سے نمٹنے کے لیے انتظامات کیوں نہیں کیے۔ اگر حکومت کو تھر کے حالات کا علم نہ تھا تو حکومت کی اس سے بڑی نااہلی کیا ہو سکتی ہے۔ متعلقہ وزیر کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ تھر کے قحط اور قحط سے متاثرہ تھری عوام کے مسائل سے حکومت کو آگاہ کرتے مشکل یہ ہے کہ دیہی علاقوں سے انتخابات جیت کر آنے والے ان علاقوں میں جانے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ کراچی کی پرتعیش بستیوں کی شاندار حویلیوں کی مصروفیات سے انھیں اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ اپنے حلقہ انتخابات کا دورہ کریں، اپنے حلقہ انتخابات کے عوام کے مسائل سے آگہی حاصل کریں اور انھیں حل کرنے کی کوشش کریں۔ جن حکمران طبقات کو قومی دولت کی لوٹ مار اور عیاشیوں سے فرصت ہی نہیں ملتی ان سے عوام کے مسائل حل کرنے کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔
ہمارے حکمرانوں کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ اپنی راجدھانیوں کے مسائل سے اس وقت آگاہ ہوتے ہیں جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ تھر میں خشک سالی کوئی نئی بات نہیں جب بھی یہ علاقہ بارشوں سے محروم ہوتا ہے قحط اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ اس سال تھر میں بارشیں نہیں ہوئیں۔ کیا یہ اطلاع ہمارے حکمرانوں تک نہیں پہنچی تھی؟ اگر فوری تھری عوام کے لیے گندم آٹا اور کھانے پینے کی اشیا پہنچائی جاتیں تو شاید ایک فرد بھی قحط کا شکار ہوکر زندگی سے ہاتھ نہ دھوتا۔ حکمرانوں کو اس قسم کے سانحات کی خبر اس وقت ہوتی ہے جب میڈیا حرکت میں آتا ہے۔ پھر حکمرانوں میں کھلبلی مچتی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے رعایا کا حال جاننے کے بعد حکومت متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کرنے انھیں سزا دینے کے بجائے آئیں بائیں شائیں کرنے لگتی ہے اور بالواسطہ اور براہ راست عوام کے قاتلوں کا دفاع کرنے میں مصروف ہو جاتی ہے، یہ رویہ وڈیرہ شاہی کا طرہ امتیاز ہے جس کا مشاہدہ عوام کر رہے ہیں۔
تھر کے المیے کا دوسرا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ تھر کے عوام خاص طور پر معصوم بچے دودھ اور غذا سے محرومی کی وجہ سے جان سے جانے لگے اور گوداموں میں ہزاروں بوری گندم سڑتی رہی۔ گوداموں میں عموماً اجناس کے حفاظتی انتظامات نہیں ہوتے، اس سے قبل بھی کروڑوں روپوں کی گندم گوداموں میں سڑ گل کر تباہ ہوتی رہی لیکن اس جرم کے ذمے دار پکڑے گئے نہ ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ اس کے برخلاف یہ سڑی ہوئی گندم فلور ملوں کو سپلائی کی جاتی رہی اور عوام کی صحت کی دشمن فلور ملز مافیا صاف گندم کے ساتھ سڑی ہوئی انتہائی مضر صحت گندم ملا کر پیستے رہے اور عوام کو مہنگے داموں سپلائی کرتے رہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی باتیں نہیں، ہر شخص ان سے واقف ہے لیکن حکومت نے سوائے دکھاوے کی کارروائیوں کے کبھی کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی، جس کی وجہ سرکاری اور غیر سرکاری مجرموں کی ملی بھگت ہے جو اب بھی جاری ہے۔
جب کوئی ہنگامہ میڈیا میں برپا ہوتا ہے تو حکمران طبقات اپنی موروثی نیند سے جاگتے ہیں اور اپنا جرم تسلیم کرنے کے بجائے اس کا الٹا سیدھا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تھر کی اموات کے حوالے سے سرکار کا کہنا ہے کہ یہ اموات بھوک قحط سے نہیں ہوئیں بلکہ بیماریوں سے ہوئی ہیں۔ اس بھونڈے جواز کو پیش کرنے والوں نے عوام کو یہ نہیں بتایا کہ تھر میں وہ کون سی وبائی بیماری آئی ہوئی ہے جو سیکڑوں معصوم بچوں کی جان لے رہی ہے؟ یہ وبائی بیماری حکمرانوں کی نااہلی اور مجرمانہ غفلت ہے، چونکہ یہ بیماری موروثی ہے لہٰذا اس میں افاقے کا کوئی امکان نہیں۔ تھر کا قحط کوئی آج کا مسئلہ نہیں ہے، آج حکومت کے اہلکار جو مستعدی دکھا رہے ہیں وہ کل ختم ہو جائے گی، لیکن تھر کا مسئلہ زندہ رہے گا۔ اور یہ مسئلہ اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک کے اس کا کوئی مستقل حل تلاش نہیں کیا جاتا۔ یہاں پینے کے صاف پانی کا مستقل انتظام ہونا چاہیے۔ یہاں ٹیوب ویلوں کے ذریعے کاشتکاری کا ایک جامع نظام ہونا چاہیے، یہاں کے گوداموں سے عوام کو گندم اور آٹے کی مسلسل سپلائی کا انتظام ہونا چاہیے۔ ہنگامی اقدامات سے تھر کے عوام کے سائل حل نہیں ہو سکتے۔