تو پھر بسم اللہ کیجیے
بھارت سے ’’تجارتانہ‘‘ تعلقات کو مستحکم کرنے اور اسے ہر سطح پر فروغ دینے کی تمنا رکھنے والوں کو شک ہے۔۔۔
لاہور:
ہمارے وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید صاحب متحمل مزاج اور محتاط واقع ہوئے ہیں۔ حریف کی اشتعال انگیز گفتگو سن کر بھی وہ مشتعل ہوتے ہیں نہ غصے میں آتے ہیں۔ گویا انھیں اپنے جذبات پر قابو پانا خوب آتا ہے۔ مارچ 2014ء کے آخری ہفتے لاہور کے ایڈیٹرز کلب میں وہ مدعو تھے۔ اس کلب کے ایک شریک ممبر نے مجھے بتایا کہ پرویز رشید صاحب مقامی مدیران کی اس مجلس میں خوب کُھل کر بولے۔ ان سے منسوب خبریں کئی اخبارات میں شایع ہوئی ہیں۔ انھوں نے کہا: ''بھارت کو بلا تفریق تجارتی سہولتیں دینے کا فیصلہ بھارتی انتخابات کی وجہ سے مؤخر کیا ہے۔''
جب سے نواز شریف برسراقتدار آئے ہیں، یہ بات مسلسل کہی جا رہی ہے کہ پاکستان نے اگر معاشی ترقی کے مختلف النوع مدارج طے کرنا ہیں تو اسے ماضی کے اختلافات، تنازعات اور تلخیاں دفن کر کے بھارت سے تجارتی تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔ واہگہ بارڈر، کو اسی لیے، چوبیس گھنٹے کھولے رکھنے کے اعلانات بھی سامنے آئے اور ان پر عمل بھی کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف بھارتی پنجاب کا دورہ کر کے، تجارت ہی کے حوالے سے نرم گوشہ پیدا کرنے کا ایک عملی مظاہرہ کر چکے ہیں۔
ہمارے وزیر تجارت خرم غلام دستگیر خان بھی بھارت کا دورہ کر کے بھارتی تاجروں سے مصافحے اور معانقے کرتے ہوئے نظر آ چکے ہیں لیکن اس کے برعکس بھارتی وزیر تجارت نے اعلانات تو کیے کہ وہ بھی پاکستان کا دورہ کریں گے لیکن ہر بار ''سیکیورٹی کے نازک معاملات'' کا بہانہ بنا کر پاکستان آنے سے کتراتے رہے۔ اور پاکستان کے حکمران ہیں کہ عوام کی مخالفت اور ناراضی کے باوجود بھارت کو ''ایم ایف این'' کا درجہ دینے کے لیے پر تول رہے ہیں، اگرچہ اب اس کا نام ''ایم ایف این'' کی جگہ ''این ڈی ایم اے'' ہو گا۔
ہمارے ہاں بھارت سے ہر صورت میں تجارتی تعلقات استوار کرنے کے خواہاں اور مبلغین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت نے ''جرأت'' کا مظاہرہ کر کے تقریباً بیس برس قبل پاکستان کو ''پسندیدہ ترین ملک'' یعنی ایم ایف این کا درجہ دیا تھا تو پاکستان کو بھی دل کھلا کرکے اور اپنے ''تعصبات'' کی گرد جھاڑ کر بھارت کو بھی یہی درجہ دے دینا چاہیے۔ بھارت کو تجارت کے حوالے سے اس درجہ سے نوازنے کے لیے ''ٹریک ٹو'' کے نام پر، پسِ پردہ پاکستان اور بھارت کے کئی دانشور اور سیاستدان بھی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسی کوششیں کرنے والوں نے بھارتی شہر دہلی میں بروئے کار ایک تھنک ٹینک ''سی ڈی آر'' کے پلیٹ فارم پر مارچ 2014ء کے وسط میں تین روزہ کانفرنس کا انعقاد بھی کیا۔ پاکستان کے کئی صحافیوں اور دانشوروں نے بھی اس میں حصہ لیا جن میں مبینہ طور پر افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے ''آئی ایس پی آر'' کے سابق سربراہ میجر جنرل (ر) اطہر عباس بھی شامل تھے۔
کہا جاتا ہے کہ نواز شریف تین وعدوں کی بنیاد پر برسراقتدار آئے تھے: معیشت کی بہتری، ملازمتوں کی فراہمی اور توانائی بحران کا خاتمہ۔ اب اس کی توضیح یہ کی جا رہی ہے کہ ان تینوں وعدوں اور مقاصد کا حصول تبھی ممکن ہے اگر پاکستان آگے بڑھ کر بھارت کو، تجارتی میدان میں، گلے لگالے اور اس معاملے میں کسی سود و زیاں کی پرواہ نہ کی جائے۔ بھارت سے تجارت کی خواہاں جتنی بھی لابیاں ہمارے ہاں بروئے کار ہیں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ''سرد جنگ'' کے دنوں میں تمام کشیدگیوں اور اختلافات کے باوجود روس اور امریکا کے درمیان مذاکرات اور تجارت کا سلسلہ جاری رہ سکتا تھا تو پاکستان اور بھارت کا ''تجارتی ہاتھ'' آگے کیوں نہیں بڑھ سکتا؟
دلیل کسی قدر درست اور بھرپور ہے لیکن یہ دلیل دینے والے اپنے سامعین اور قارئین کو یہ نہیں بتاتے کہ امریکا اور سوویت روس نے ایک دوسرے کے کسی ''کشمیر'' پر قبضہ کیا تھا نہ کسی ''سیاچن گلیشیئر'' پر شب خون مارا گیا تھا اور دونوں طاقتوں نے تقریباً نصف صدی پر پھیلی ''سرد جنگ'' کے ایام میں ایک دوسرے کے کسی ''مشرقی پاکستان'' کو سازش کر کے جدا بھی نہیں کیا تھا اور نہ ہی کسی کے نظریے کو ''خلیج بنگال'' میں ڈبونے کی ڈینگ ہی ماری گئی تھی۔ ان تاریخی حقائق کو فراموش کرنا کسی عام پاکستانی کے لیے خاصا مشکل کام ہے۔ انھیں اپنے ڈھب پر لانے کے لیے ابھی مزید کئی برس درکار ہوں گے۔ اس سال نریندر مودی نے اقتدار میں آ کر اگر پاکستان کے خلاف ''بی جے پی'' کے ایجنڈے کی تنفیذ کے لیے شرارتوں کا آغاز کیا تو یہ سال مزید کئی عشروں پر پھیل سکتے ہیں، اگرچہ دہلی میں بروئے کار ''سی ڈی آر'' نے ایک کانفرنس میں اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ ''بی جے پی'' کی حکومت پاکستان سے مفسدانہ نہیں، دوستانہ اور تجارتانہ تعلقات کو فروغ دے گی۔
بھارت سے ''تجارتانہ'' تعلقات کو مستحکم کرنے اور اسے ہر سطح پر فروغ دینے کی تمنا رکھنے والوں کو شک ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ان تجارتانہ تعلقات کے بارے میں خاصے تحفظات رکھتی ہیں۔ اسی شک کو دور کرنے کے لیے کبھی کبھار نہیں بلکہ اب اکثر اوقات اخبارات میں ایسی خبریں شایع کروائی جاتی ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی فوج کو پاکستان کی طرف سے بھارت سے تجارتی تعلقات بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ لاہور، اسلام آباد اور کراچی کے دانشور حلقوں میں یہ بات بھی پھیلائی جا رہی ہے کہ اسلام آباد کی ''نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی'' میں افواج پاکستان اہل دانش کے درمیان کئی مذاکرے کروا چکی ہے، کئی تحقیقی پیپرز لکھوا چکی ہے کہ اگر پاک بھارت تجارتی تعلقات استوار ہوتے ہیں تو فوج کو کوئی اعتراض نہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور میں دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی ایک سنجیدہ مجلس میں حکومت کے ایک ذمے دار نے یہی بات بلند آہنگ سے کرتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔
ہمیں نہیں معلوم کہ اسلام آباد میں بروئے کار ''این ڈی یو'' میں کس قسم کے مذاکرے کون' کن مقاصد کے تحت کروا رہا ہے لیکن ہم اس بارے میں یہ گزارش کرنا چاہیں گے کہ پاک بھارت تجارتی تعلقات کو ''استحکام'' دینے کا خواب دیکھنے والے جو مرضی ہے کریں لیکن خدارا اس میں فوج کو نہ گھسیٹیں۔ اس عمل سے اعراض کرنا چاہیے۔ یہی مستحسن اور مفید ہو گا۔ اب تو خدا کے فضل سے وطن عزیز میں ایک منتخب سیاسی حکومت کا چلن ہے اور اس حکومت کے چیف ایگزیکٹو تیسری بار اس عمل سے گزر رہے ہیں۔ ان کی قیادت میں بھارت سے تجارت کے میدان میں کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو انھیں فوج کی طرف دیکھنے کے بجائے براہ راست اس کی خود ذمے داری قبول کرنی چاہیے۔ ویسے بھی موجودہ منتخب حکومت کی طاقت کے حوالے سے ہمارے وزیر اطلاعات سے منسوب یہ الفاظ اخبارات کی زینت بن چکے ہیں: ''پالیسیاں اب دفاعی ادارے نہیں، سویلین ادارے بنا رہے ہیں۔ ان آٹھ ماہ کے دوران نواز شریف کی پالیسیوں کے خلاف عسکری قیادت نے کبھی کوئی رخنہ نہیں ڈالا۔''
تو پھر آئیے بسم اللہ کیجیے۔ ہمیں امید ہے کہ جب حکومت پاک بھارت تجارتانہ تعلقات اور ''ایم ایف این'' کے حوالے سے کوئی فائنل فیصلہ کرے گی تو عسکری قیادت کوئی رخنہ نہیں ڈالے گی۔ سب لوگ ایک ہی صفحے پر مسکراتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ایسی مسکراہٹیں قومی یکجہتی کا تقاضا بھی تو ہیں۔