قاسم علی شاہ کی غلطی
عمران خان پر تنقید کرکے قاسم علی شاہ نے اپنے پیر پر خود کلہاڑی مار لی ہے
یہ ان دنوں کی بات ہے جب پی ٹی وی اکثر پاکستانی گھروں کا فیملی ممبر ہوتا تھا۔ پی ٹی وی کے ڈرامے لوگ بمعہ اہل و عیال دیکھا کرتے تھے۔ ہمارے ڈرامے پڑوسی ملک بھارت میں سیکھنے کی غرض سے دیکھے جاتے تھے۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ پی ٹی وی کے عروج کا دور تھا۔
اسی دور سے بڑے میاں صاحب یعنی میاں شریف صاحب (مرحوم) جناب طارق عزیز (مرحوم) کے فین تھے۔ ان کی یہ پسندیدگی طارق عزیز کے سیاست میں آنے کا باعث بنی۔ طارق عزیز کو دیگر وجوہ کے ساتھ بڑے میاں صاحب کی وجہ سے 1997 کے الیکشن کا ٹکٹ ملا۔ طارق عزیز اس دور میں اس قدر مقبول تھے کہ انہوں نے اپنے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو شکشت دے دی۔
واقفان حال کا کہنا ہے سیاست کا آغاز ان کی مقبولیت میں کمی کی ابتدا تھی۔ سیاست میں آنے سے قبل وہ اپنے پرائے سب کے پسندیدہ تھے، مگر جیسے ہی انہوں نے ایک لائن لی، پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی نہ چاہتے ہوئے غیر محسوس طریقے سے ان کے خلاف لائن لے لی۔ ان کی مقبولیت میں بتدریج کمی آنے لگی۔ بعد ازاں ایک معروف صحافی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان سے گفتگو کرتے ہوئے طارق عزیز نے اعتراف کیا سیاست میں آنا میری زندگی کی بدترین غلطی تھی۔
بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ معروف موٹیویشنل اسپیکر قاسم علی شاہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے۔ سوشل میڈیا پر قاسم علی شاہ کے خلاف پوسٹس اور یوٹیوب ویڈیوز سے اندازہ کیجیے کہ وہ قاسم علی شاہ جو ایک ہفتے قبل تک عوام و خواص کےلیے قابل احترم تھا، جیسے ہی اس نے ایک لائن لی، قوم نے بھی اس کے خلاف لائن لے لی۔
سب میں یکساں مقبول قاسم علی شاہ، اب صرف مقبول نظر آرہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے عمران خان، چوہدری پرویزالہٰی اور شہباز شریف سے ملاقات کرنے کے باوجود انہیں تینوں جماعتوں کے افراد دامے درمے سخنے نشانہ بنا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حنا پرویز بٹ نے تو انہیں عمران خان سے ٹکٹ مانگنے پر غلام تک قرار دے دیا۔ غرض 'جتنے منہ اتنی باتیں' کی کیفیت ہے۔
میڈیا کے ہاتھ تو جیسے ایک کھلونا آگیا ہے، جسے خوب بجایا جارہا ہے۔ بالخصوص پاکستانی یوٹیوبر اس کھلونے سے خوب کھیل رہے ہیں اور کما رہے ہیں۔ جیسے خود قاسم علی شاہ نے بھی سیالکوٹ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ''میں ایک ہی بات بار بار بتا کر تنگ آگیا ہوں۔ ابھی بھی بارہ چینلز کے نمائندے سیالکوٹ آنے کےلیے تیار بیٹھے ہیں اور میں نے گزشتہ رات ایک نیوز چینل سے بات کرنے کے بعد ہاتھ کھڑے کردیے ہیں''۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ میں نے ایک یوٹیوبر کو انٹرویو دیا تو شام میں اس نے مجھے فون کرکے شکریہ اد کیا کہ سر امی کی دوا کے پیسے نکل آئے ہیں۔
شاید یہ بات کچھ دن کے شور کے بعد خودبخود ختم ہوجاتی، لیکن ختم ہوتی نظر نہیں آتی، کیونکہ قاسم علی شاہ اپنے انٹرویوز کے دوران متضاد اور معنی خیز باتیں کرکے اس معاملے کو دانستہ یا نادانستہ طور پر زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایک طرف وہ عمران خان سے ٹکٹ مانگتے ہیں تو دوسری طرف وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کا سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ایک طرف وہ عمران خان کے بارے میں منفی تبصرہ کرتے ہیں تو دوسری جانب انہیں ووٹ دینے کی بات کرتے ہیں۔ کبھی وہ یہ کہتے ہیں کہ انہیں آگے کی طرف دیکھنے کا حق ہے، نوجوانوں کو سیاست میں آنا چاہیے۔ تو کبھی وہ سیاست سے کنارہ کشی کی بات کرتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ انہیں کسی نے لانچ کیا ہے تو وہ واضح انکار کرنے کے بجائے بات کو گھما کر ابہام پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب میزبان اصرار کرتا ہے تو پھر بھی واضح انکار کے بجائے وہ کہتے ہیں کہ کسی کے پاس ثبوت ہے تو سامنے لائے وغیرہ۔
عمران خان کے خلاف بات کرکے تو جیسے قاسم علی شاہ نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا۔ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر قاسم علی شاہ کے خلاف جس قسم کی منفی پوسٹس کی جارہی ہیں وہ خود قابل مذمت عمل ہے۔ یہ سوشل میڈیائی شہسوار اخلاقیات سے عاری ہیں۔ قاسم علی شاہ کو سوچنا چاہیے تھا کہ جب طارق عزیز جیسا ہردلعزیز شخص سیاست میں آنے کے بعد غیر معروف ہوگیا، اور جس طرح پوری قوم کے دلوں پر راج کرنے والا کرکٹ کا بے تاج بادشاہ سیاست کی لائن میں آنے کے بعد محض ایک مخصوص طبقے کا ہی لیڈر بن کر رہ گیا، تو پھر قاسم علی شاہ کیسے سیاست کی اس کالک سے بچ سکتے ہیں۔ قاسم علی شاہ موٹیویشنل اسپیکر ہیں، اس لیے یہ محاورہ تو انھوں نے لازمی سنا ہوگا کہ ''کوئلے کی دلالی میں ہاتھ اور منہ تو کالے ہوتے ہی ہیں''۔
ایک موٹیویشنل اسپیکر کا عوامی لیڈر سے بھلا کیا مقابلہ؟ عمران خان پر تنقید کرکے قاسم علی شاہ نے اپنے پیر پر خود ہی کلہاڑی مار لی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی پر تنقید کے بعد قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کی ریٹنگ گوگل پر بھی بہت زیادہ گرگئی۔
بہرحال اس تمام مشق سے قاسم علی شاہ کو یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ اس واقعے سے پہلے صرف پڑھے لکھے، سمجھدار اور باشعور پاکستانیوں کی اکثریت انہیں جانتی اور پہچانتی تھی لیکن اس واقعے کے بعد وہ قریب قریب ہر کسی سے متعارف ہوجائیں گے، چاہے منفی انداز میں ہی کیوں نہ ہوں۔ میڈیا کے کچھ لوگ بالخصوص یوٹیوبر ان سے انٹرویو کرکے کچھ کما لیں گے اور جنہیں یہ سہولت میسر نہیں ہوگی وہ تبصرے بیچ کر پاؤ آٹا کمانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اس واقعے کی وجہ سے ہجوم میں بدلی پاکستانی قوم ایک ایسی غیرمتنازع شخصیت سے محروم ہوجائے گی جو گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی کرن تھا۔ ایک ایسا شخص جو ہجوم کو قوم میں بدلنے کی کوشش کررہا تھا، اب خود ہجوم میں گم ہوجائے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ قاسم علی شاہ سیاست کے اس میدان سے دور رہیں۔ اور اپنا اصل کام یعنی پھر سے قوم کی اصلاح شروع کریں۔ کیونکہ آپ نہ لوٹے تو عین ممکن ہے سیاست میں کامیاب ہونے کے باوجود بھی مستقبل میں آپ کہہ رہے ہوں کہ سیاست میں آنا میری بدترین غلطی تھی۔ مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اسی دور سے بڑے میاں صاحب یعنی میاں شریف صاحب (مرحوم) جناب طارق عزیز (مرحوم) کے فین تھے۔ ان کی یہ پسندیدگی طارق عزیز کے سیاست میں آنے کا باعث بنی۔ طارق عزیز کو دیگر وجوہ کے ساتھ بڑے میاں صاحب کی وجہ سے 1997 کے الیکشن کا ٹکٹ ملا۔ طارق عزیز اس دور میں اس قدر مقبول تھے کہ انہوں نے اپنے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو شکشت دے دی۔
واقفان حال کا کہنا ہے سیاست کا آغاز ان کی مقبولیت میں کمی کی ابتدا تھی۔ سیاست میں آنے سے قبل وہ اپنے پرائے سب کے پسندیدہ تھے، مگر جیسے ہی انہوں نے ایک لائن لی، پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی نہ چاہتے ہوئے غیر محسوس طریقے سے ان کے خلاف لائن لے لی۔ ان کی مقبولیت میں بتدریج کمی آنے لگی۔ بعد ازاں ایک معروف صحافی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان سے گفتگو کرتے ہوئے طارق عزیز نے اعتراف کیا سیاست میں آنا میری زندگی کی بدترین غلطی تھی۔
بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ معروف موٹیویشنل اسپیکر قاسم علی شاہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے۔ سوشل میڈیا پر قاسم علی شاہ کے خلاف پوسٹس اور یوٹیوب ویڈیوز سے اندازہ کیجیے کہ وہ قاسم علی شاہ جو ایک ہفتے قبل تک عوام و خواص کےلیے قابل احترم تھا، جیسے ہی اس نے ایک لائن لی، قوم نے بھی اس کے خلاف لائن لے لی۔
سب میں یکساں مقبول قاسم علی شاہ، اب صرف مقبول نظر آرہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے عمران خان، چوہدری پرویزالہٰی اور شہباز شریف سے ملاقات کرنے کے باوجود انہیں تینوں جماعتوں کے افراد دامے درمے سخنے نشانہ بنا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حنا پرویز بٹ نے تو انہیں عمران خان سے ٹکٹ مانگنے پر غلام تک قرار دے دیا۔ غرض 'جتنے منہ اتنی باتیں' کی کیفیت ہے۔
میڈیا کے ہاتھ تو جیسے ایک کھلونا آگیا ہے، جسے خوب بجایا جارہا ہے۔ بالخصوص پاکستانی یوٹیوبر اس کھلونے سے خوب کھیل رہے ہیں اور کما رہے ہیں۔ جیسے خود قاسم علی شاہ نے بھی سیالکوٹ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ''میں ایک ہی بات بار بار بتا کر تنگ آگیا ہوں۔ ابھی بھی بارہ چینلز کے نمائندے سیالکوٹ آنے کےلیے تیار بیٹھے ہیں اور میں نے گزشتہ رات ایک نیوز چینل سے بات کرنے کے بعد ہاتھ کھڑے کردیے ہیں''۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ میں نے ایک یوٹیوبر کو انٹرویو دیا تو شام میں اس نے مجھے فون کرکے شکریہ اد کیا کہ سر امی کی دوا کے پیسے نکل آئے ہیں۔
شاید یہ بات کچھ دن کے شور کے بعد خودبخود ختم ہوجاتی، لیکن ختم ہوتی نظر نہیں آتی، کیونکہ قاسم علی شاہ اپنے انٹرویوز کے دوران متضاد اور معنی خیز باتیں کرکے اس معاملے کو دانستہ یا نادانستہ طور پر زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایک طرف وہ عمران خان سے ٹکٹ مانگتے ہیں تو دوسری طرف وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کا سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ایک طرف وہ عمران خان کے بارے میں منفی تبصرہ کرتے ہیں تو دوسری جانب انہیں ووٹ دینے کی بات کرتے ہیں۔ کبھی وہ یہ کہتے ہیں کہ انہیں آگے کی طرف دیکھنے کا حق ہے، نوجوانوں کو سیاست میں آنا چاہیے۔ تو کبھی وہ سیاست سے کنارہ کشی کی بات کرتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ انہیں کسی نے لانچ کیا ہے تو وہ واضح انکار کرنے کے بجائے بات کو گھما کر ابہام پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب میزبان اصرار کرتا ہے تو پھر بھی واضح انکار کے بجائے وہ کہتے ہیں کہ کسی کے پاس ثبوت ہے تو سامنے لائے وغیرہ۔
عمران خان کے خلاف بات کرکے تو جیسے قاسم علی شاہ نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا۔ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر قاسم علی شاہ کے خلاف جس قسم کی منفی پوسٹس کی جارہی ہیں وہ خود قابل مذمت عمل ہے۔ یہ سوشل میڈیائی شہسوار اخلاقیات سے عاری ہیں۔ قاسم علی شاہ کو سوچنا چاہیے تھا کہ جب طارق عزیز جیسا ہردلعزیز شخص سیاست میں آنے کے بعد غیر معروف ہوگیا، اور جس طرح پوری قوم کے دلوں پر راج کرنے والا کرکٹ کا بے تاج بادشاہ سیاست کی لائن میں آنے کے بعد محض ایک مخصوص طبقے کا ہی لیڈر بن کر رہ گیا، تو پھر قاسم علی شاہ کیسے سیاست کی اس کالک سے بچ سکتے ہیں۔ قاسم علی شاہ موٹیویشنل اسپیکر ہیں، اس لیے یہ محاورہ تو انھوں نے لازمی سنا ہوگا کہ ''کوئلے کی دلالی میں ہاتھ اور منہ تو کالے ہوتے ہی ہیں''۔
ایک موٹیویشنل اسپیکر کا عوامی لیڈر سے بھلا کیا مقابلہ؟ عمران خان پر تنقید کرکے قاسم علی شاہ نے اپنے پیر پر خود ہی کلہاڑی مار لی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی پر تنقید کے بعد قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کی ریٹنگ گوگل پر بھی بہت زیادہ گرگئی۔
بہرحال اس تمام مشق سے قاسم علی شاہ کو یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ اس واقعے سے پہلے صرف پڑھے لکھے، سمجھدار اور باشعور پاکستانیوں کی اکثریت انہیں جانتی اور پہچانتی تھی لیکن اس واقعے کے بعد وہ قریب قریب ہر کسی سے متعارف ہوجائیں گے، چاہے منفی انداز میں ہی کیوں نہ ہوں۔ میڈیا کے کچھ لوگ بالخصوص یوٹیوبر ان سے انٹرویو کرکے کچھ کما لیں گے اور جنہیں یہ سہولت میسر نہیں ہوگی وہ تبصرے بیچ کر پاؤ آٹا کمانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اس واقعے کی وجہ سے ہجوم میں بدلی پاکستانی قوم ایک ایسی غیرمتنازع شخصیت سے محروم ہوجائے گی جو گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی کرن تھا۔ ایک ایسا شخص جو ہجوم کو قوم میں بدلنے کی کوشش کررہا تھا، اب خود ہجوم میں گم ہوجائے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ قاسم علی شاہ سیاست کے اس میدان سے دور رہیں۔ اور اپنا اصل کام یعنی پھر سے قوم کی اصلاح شروع کریں۔ کیونکہ آپ نہ لوٹے تو عین ممکن ہے سیاست میں کامیاب ہونے کے باوجود بھی مستقبل میں آپ کہہ رہے ہوں کہ سیاست میں آنا میری بدترین غلطی تھی۔ مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔