سیاسی پارٹیوں کا مستقبل
نواز شریف نے مسلم لیگ کو مقبولیت کی وہ معراج بخشی جو قائداعظم اور قائد ملت کے دور کی یادگار ہواکرتی تھی ۔۔۔
یہ بڑا اہم سوال ہے کہ پاکستان کی چھ سیاسی پارٹیوں کا مستقبل کیا ہے؟ یہ ضروری اس لیے بھی ہے کہ نوے فی صد سے زیادہ ہم وطن نصف درجن پارٹیوں سے وابستگی رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کو پسند کرتی ہے، نوجوان کے ووٹوں کی بدولت تحریک انصاف نے ملکی سیاست میں اہم پوزیشن اختیار کرلی ہے، جماعت اسلامی اور اے این پی کی تاریخ قیام پاکستان سے قبل سے شروع ہوتی ہے، ایم کیو ایم نے مہاجر سے متحدہ بن کر ملکی سیاست میں اپنے لیے جگہ بنانے کی ابتدا کردی ہے۔
جب عوام کی بہت بڑی اکثریت ان پارٹیوں پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتی ہے تو وہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ نواز شریف کی مسلم لیگ کا کیا مستقبل ہوگا؟ بلاول بھٹو کے ہوتے ہوئے پیپلزپارٹی کا کیا فیوچر ہے؟ تحریک انصاف اپنے کپتان کی قیادت میں آگے آنے والے دن کیسے گزارے گی؟ جماعت اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل کیا ہوگا؟ اے این پی کی عاقبت کس میں ہے؟ ایم کیو ایم کی پتنگ آیندہ کس رخ پر فضائوں میں اڑے گی؟ لالٹین کب تک جلتی رہے گی؟ ترازو کب ایوان اقتدار میں آئے گا؟ بلاکب رنز اگلے گا؟ تیر کب چلے گا؟ شیر ہمیں ایشین ٹائیگر بنا پائے گا؟
نواز شریف نے مسلم لیگ کو مقبولیت کی وہ معراج بخشی جو قائداعظم اور قائد ملت کے دور کی یادگار ہواکرتی تھی، ان دو زمانوں کے علاوہ مسلم لیگ پہلے نوابوں کے ہاتھ کی چھڑی اور بعد میں فوجی حکمرانوں کے جیب کی گھڑی ہوا کرتی تھی۔ نئی صدی میں نواز شریف سیاست دان سے بڑھ کر مدبر کا روپ اختیار کرتے جارہے ہیں، یہ سب حال کی بات ہے۔ مسلم لیگ کا مستقبل کیا ہے؟ کیا مقبولیت کی یہ معراج شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز تک محدود رہے گی؟ لیگ ایک جمہوری پارٹی بنے گی یا ایک خاندان تک سمٹ جائے گی؟ کیا ایک لیڈر کی ذاتی مقبولیت اس کی پارٹی تادیر قائم رکھ پائے گی؟
کبھی ایسا ہوا ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوا۔ بڑی حد تک پنجاب میں محدود رہنے والی پارٹی اس صوبے کے مزاج کو بہتر سمجھتی ہوگی۔ یونینسٹ سے لیگ اور بھٹو سے شریف کو چاہے جانے کی ایک صدی کی تاریخ اتار چڑھائو کا شکار رہی ہے، سمجھ داری، دانش مندی اور عوامی پن ہو تو مسلم لیگ کا مستقبل روشن ہے ورنہ؟ ورنہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ذہن میں رکھے اور ہاتھ میں قلم پکڑے جو رخ آنے والے وقت کا منتظر ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا بیس سالہ سیاسی دور بھی مورخ کے سامنے ہے، ایک عشرہ فوجی چھتری تلے اقتدار کی چھائوں اور اس کے بعد جدوجہد ہی جدوجہد۔ پھر تیس سال بے نظیر بھٹو کے رہے ہیں۔ پہلا عشرہ آمر کے خلاف جدوجہد تو دوسرا اقتدار و اپوزیشن کا کھیل اور آخری دس سال جلاوطنی، واپسی و شہادت نصف صدی کے بیگم اور سسر کے زمانے جناب زرداری کے سامنے کھلی کتاب کی مانند تھے، پارٹی کو متحد رکھنا اور اقتدار کے حصول تک جناب آصف نے شاندار سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا۔ بلاول کا زمانہ شروع ہوتے ہی پارٹی کا پنجاب و خیبر پختونخوا سے صفایا ہوگیا۔ کراچی میں ملنے والی نشستیں بھی نہ رہیں۔
صرف اندرون سندھ کی عقیدت کے ووٹ کب تک؟ یہ بہت بڑا سوال ہے، کیا بلاول پنجاب میں اپنے نانا کی بھرپور یا والدہ کی مناسب مقبولیت کا دور واپس لاسکیںگے؟ وراثت کو سب سے بڑا صوبہ قبول کرے گا؟ کیا حمزہ، بلاول اور مونس کی سہ طرفہ لڑائی آنے والا وقت دیکھے گا؟ یا سب کو میرٹ کی بنیاد پر پنجاب کا نوجوان ووٹر جانچے گا؟ اپنے پرکھوں کی طرح جذباتی ہوکر بیلٹ پر مہر لگا دے گا یا پرکھے گا ہر امیدوار کو؟ یہ سوال پاکستان کی دو بڑی پارٹیوں کے فیوچر کا تعین کرے گا؟
عمران خان کی مسلسل جدوجہد نے پاکستان کے بعد بھارت کی سیاست کو ٹرائی اینگل فارمیٹ بنادیا ہے۔ برصغیر کی وفاقی جمہوریت میں دو پارٹی نظام میں تیسرے کی گنجائش کا خواب حقیقت بنتا جارہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں کارکردگی پر دنیا بھر کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ عمران کی باتوں اور نعروں کو دوسروں نے اپنایا ہے، کیا اب عملی طور پر پاکستان کے شمال مغرب میں واقع صوبے کے پختونوں کی زندگی میں فرق واقع ہوگا؟ آنے والے چند ماہ فیصلہ کن ہوںگے۔ اگر خیبر میں بہتر حکومت نظر آئی تو پنجاب کے میدانوں میں گھمسان کا رن پڑے گا۔ سندھ کے شہری علاقوں کے بعد دیہی علاقوں سے اچھے ووٹ اور نشستیں سیاست کا رخ بدل دیںگی، امید و خوف کے ساتھ عمران کو دیکھا جا رہا ہے۔ ایک طرف مستقبل میں دھند نظر آرہی ہے تو دوسری طرف کپتان کی انتھک جدوجہد ہے، جو کہنا وہ کرکے دکھانا والی بات کرکٹ و اسپتال کے بعد سیاست میں بھی سچ ثابت ہوگی؟
جماعت اسلامی پاکستان کی سب سے منظم اور جمہوری پارٹی ہے ان خوبیوں کے باوجود کم عوامی پذیرائی اسے اقتدار کے ایوانوں میں نہیں پہنچا سکتی۔ ستر کی دہائی میں مولانا مودودی اور نوے کی دہائی میں قاضی حسین احمد نے جماعت کو عوامی پارٹی بنانا چاہا۔ اب ایک بار پھر جماعت کی قیادت اپنے آپ کو عوام کے درمیان پیش کررہی ہے۔ رکن بننے کے سخت معیار کو ایک طرف رکھ کر لوگوں کو جماعت کا ممبر بننے کی جانب ابھارا جارہا ہے۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی موجودگی میں ملکی سطح پر متوسط طبقے کی قیادت کا فی الحال ابھرنا مشکل ہے۔ وزیراعظم صرف مسلم لیگ یا پیپلزپارٹی کا بنا ہے۔ صدر مملکت کا عہدہ بھی ان ہی پارٹیوں یا آمروں کے پاس رہا ہے۔ مستقبل قریب میں جماعت کی کامیابی کے آثار بہت کم ہیں۔ میڈیا کا بخشا ہوا شعور اور کرپشن کی ہوش ربا داستانیں شاید عوام کو جماعت کی دیانت دار قیادت کی جانب مائل کریں۔ یہ ایک خواب ہے جس کے شرمندہ تعبیر ہونے پر جماعت کی قیادت کو پورا یقین ہے معجزے بھی اس دنیا میں ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ مورخ تو وہی لکھے گا جو ہوگا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے کام کرنے والے اپنی جدوجہد کو برصغیر کی قدیم ترین جدوجہد قرار دیتے ہیں۔ پورے ہندوستان سے کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست کی ابتدا کرنے والوں کا اثر و رسوخ اب ایک صوبے بلکہ ایک دو اضلاع تک محدود ہوگیا ہے، اس صدی میں پہلی مرتبہ وزیراعلیٰ کا منصب حاصل کرنا اور صوبے کا نام اپنی پسند کے مطابق رکھوانا اس پارٹی کا تازہ ترین کارنامہ ہے، پنجاب کے میدانوں میں کامیابی حاصل کیے بغیر کوئی پارٹی وزارت عظمیٰ کا تاج اپنے سر پر نہیں سجاسکتی۔
آج ہم جن چھ سیاسی پارٹیوں پر گفتگو کررہے ہیں، اے این پی ان میں کم تر دلچسپی رکھتی ہے کہ وہ بڑے صوبے میں مقبولیت حاصل کرے۔ کانگریس سے ری پبلکن اور نیپ سے این ڈی پی کے بعد اب موجودہ پارٹی سچے، مخلص اور محنتی کارکنوں کا مجموعہ ہے۔ قوم پرستی کی دھند، مگر یہ پارٹی اگر ظلم کے خلاف میدان میں نکل آئے تو کسی حد تک مستقبل کے منظرنامے پر اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے، وگرنہ دنیا میں درجنوں سیاسی خاندانوں کے صدیوں پر محیط اقتدار کا خاتمہ بھی مورخ کی گنہگار آنکھوں نے دیکھا ہے۔
ایم کیو ایم کا مستقبل کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دینا سب سے زیادہ مشکل ہے۔ پاکستان کی یہ واحد پارٹی ہے جو اپنے قائد سے محبت و عقیدت کی بنیاد پر قائم ہے۔ خاندانی و جاگیرداری پس منظر نہ ہونے، وراثت سے کوسوں دوری اور کسی آئین کا پابند نہ ہونے کے سبب اس کے مستقبل کا تعین کرنا از حد مشکل ہے، ہم نہیں کہہ سکتے کہ الطاف حسین جیسے سیاست دان نے مستقبل کے حوالے سے بالکل نہیں سوچا ہوگا۔ انسان فانی ہے اور وہ اپنے بعد اپنے خاندان، کاروبار، جائیداد اور سیاسی میراث کی حفاظت کا بندوبست کرتاہے۔ آنے والے عشروں میں متحدہ قومی موومنٹ نے نظام کو چلانے کے لیے ضرور کوئی انتظام کیا ہوگا۔ دس فیصد مہاجروں کے حقوق سے 98 فیصد مظلوموں کی آواز بننے کی خواہش مند ایم کیو ایم پر ہم گفتگو کررہے ہیں، بہتر مستقبل کے لیے پائیدار قیادت اور منتخب جمہوری نظام لازم ہے۔ گاندھی اور خمینی جیسے رہنما پارٹی نظم و ضبط سے بالاتر ہوکر قیادت کرتے ہوئے انڈین نیشنل کانگریس اور ایران کے لیے جمہوری نظام دے گئے ہیں۔
شاہی خاندان، بزنس اسپائرز اور گروپ آف انڈسٹریز وقت کے خس و خاشاک میں بہہ چکے ہیں۔ مضبوط سیاسی پارٹیوں کو گردش ایام نے تنکوں کی طرح بے حیثیت کردیا ہے، نہ جانے کیا ہو آج کی مقبول و جانی پہچانی سیاسی پارٹیوں کا مستقبل؟
جب عوام کی بہت بڑی اکثریت ان پارٹیوں پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتی ہے تو وہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ نواز شریف کی مسلم لیگ کا کیا مستقبل ہوگا؟ بلاول بھٹو کے ہوتے ہوئے پیپلزپارٹی کا کیا فیوچر ہے؟ تحریک انصاف اپنے کپتان کی قیادت میں آگے آنے والے دن کیسے گزارے گی؟ جماعت اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل کیا ہوگا؟ اے این پی کی عاقبت کس میں ہے؟ ایم کیو ایم کی پتنگ آیندہ کس رخ پر فضائوں میں اڑے گی؟ لالٹین کب تک جلتی رہے گی؟ ترازو کب ایوان اقتدار میں آئے گا؟ بلاکب رنز اگلے گا؟ تیر کب چلے گا؟ شیر ہمیں ایشین ٹائیگر بنا پائے گا؟
نواز شریف نے مسلم لیگ کو مقبولیت کی وہ معراج بخشی جو قائداعظم اور قائد ملت کے دور کی یادگار ہواکرتی تھی، ان دو زمانوں کے علاوہ مسلم لیگ پہلے نوابوں کے ہاتھ کی چھڑی اور بعد میں فوجی حکمرانوں کے جیب کی گھڑی ہوا کرتی تھی۔ نئی صدی میں نواز شریف سیاست دان سے بڑھ کر مدبر کا روپ اختیار کرتے جارہے ہیں، یہ سب حال کی بات ہے۔ مسلم لیگ کا مستقبل کیا ہے؟ کیا مقبولیت کی یہ معراج شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز تک محدود رہے گی؟ لیگ ایک جمہوری پارٹی بنے گی یا ایک خاندان تک سمٹ جائے گی؟ کیا ایک لیڈر کی ذاتی مقبولیت اس کی پارٹی تادیر قائم رکھ پائے گی؟
کبھی ایسا ہوا ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوا۔ بڑی حد تک پنجاب میں محدود رہنے والی پارٹی اس صوبے کے مزاج کو بہتر سمجھتی ہوگی۔ یونینسٹ سے لیگ اور بھٹو سے شریف کو چاہے جانے کی ایک صدی کی تاریخ اتار چڑھائو کا شکار رہی ہے، سمجھ داری، دانش مندی اور عوامی پن ہو تو مسلم لیگ کا مستقبل روشن ہے ورنہ؟ ورنہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ذہن میں رکھے اور ہاتھ میں قلم پکڑے جو رخ آنے والے وقت کا منتظر ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا بیس سالہ سیاسی دور بھی مورخ کے سامنے ہے، ایک عشرہ فوجی چھتری تلے اقتدار کی چھائوں اور اس کے بعد جدوجہد ہی جدوجہد۔ پھر تیس سال بے نظیر بھٹو کے رہے ہیں۔ پہلا عشرہ آمر کے خلاف جدوجہد تو دوسرا اقتدار و اپوزیشن کا کھیل اور آخری دس سال جلاوطنی، واپسی و شہادت نصف صدی کے بیگم اور سسر کے زمانے جناب زرداری کے سامنے کھلی کتاب کی مانند تھے، پارٹی کو متحد رکھنا اور اقتدار کے حصول تک جناب آصف نے شاندار سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا۔ بلاول کا زمانہ شروع ہوتے ہی پارٹی کا پنجاب و خیبر پختونخوا سے صفایا ہوگیا۔ کراچی میں ملنے والی نشستیں بھی نہ رہیں۔
صرف اندرون سندھ کی عقیدت کے ووٹ کب تک؟ یہ بہت بڑا سوال ہے، کیا بلاول پنجاب میں اپنے نانا کی بھرپور یا والدہ کی مناسب مقبولیت کا دور واپس لاسکیںگے؟ وراثت کو سب سے بڑا صوبہ قبول کرے گا؟ کیا حمزہ، بلاول اور مونس کی سہ طرفہ لڑائی آنے والا وقت دیکھے گا؟ یا سب کو میرٹ کی بنیاد پر پنجاب کا نوجوان ووٹر جانچے گا؟ اپنے پرکھوں کی طرح جذباتی ہوکر بیلٹ پر مہر لگا دے گا یا پرکھے گا ہر امیدوار کو؟ یہ سوال پاکستان کی دو بڑی پارٹیوں کے فیوچر کا تعین کرے گا؟
عمران خان کی مسلسل جدوجہد نے پاکستان کے بعد بھارت کی سیاست کو ٹرائی اینگل فارمیٹ بنادیا ہے۔ برصغیر کی وفاقی جمہوریت میں دو پارٹی نظام میں تیسرے کی گنجائش کا خواب حقیقت بنتا جارہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں کارکردگی پر دنیا بھر کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ عمران کی باتوں اور نعروں کو دوسروں نے اپنایا ہے، کیا اب عملی طور پر پاکستان کے شمال مغرب میں واقع صوبے کے پختونوں کی زندگی میں فرق واقع ہوگا؟ آنے والے چند ماہ فیصلہ کن ہوںگے۔ اگر خیبر میں بہتر حکومت نظر آئی تو پنجاب کے میدانوں میں گھمسان کا رن پڑے گا۔ سندھ کے شہری علاقوں کے بعد دیہی علاقوں سے اچھے ووٹ اور نشستیں سیاست کا رخ بدل دیںگی، امید و خوف کے ساتھ عمران کو دیکھا جا رہا ہے۔ ایک طرف مستقبل میں دھند نظر آرہی ہے تو دوسری طرف کپتان کی انتھک جدوجہد ہے، جو کہنا وہ کرکے دکھانا والی بات کرکٹ و اسپتال کے بعد سیاست میں بھی سچ ثابت ہوگی؟
جماعت اسلامی پاکستان کی سب سے منظم اور جمہوری پارٹی ہے ان خوبیوں کے باوجود کم عوامی پذیرائی اسے اقتدار کے ایوانوں میں نہیں پہنچا سکتی۔ ستر کی دہائی میں مولانا مودودی اور نوے کی دہائی میں قاضی حسین احمد نے جماعت کو عوامی پارٹی بنانا چاہا۔ اب ایک بار پھر جماعت کی قیادت اپنے آپ کو عوام کے درمیان پیش کررہی ہے۔ رکن بننے کے سخت معیار کو ایک طرف رکھ کر لوگوں کو جماعت کا ممبر بننے کی جانب ابھارا جارہا ہے۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی موجودگی میں ملکی سطح پر متوسط طبقے کی قیادت کا فی الحال ابھرنا مشکل ہے۔ وزیراعظم صرف مسلم لیگ یا پیپلزپارٹی کا بنا ہے۔ صدر مملکت کا عہدہ بھی ان ہی پارٹیوں یا آمروں کے پاس رہا ہے۔ مستقبل قریب میں جماعت کی کامیابی کے آثار بہت کم ہیں۔ میڈیا کا بخشا ہوا شعور اور کرپشن کی ہوش ربا داستانیں شاید عوام کو جماعت کی دیانت دار قیادت کی جانب مائل کریں۔ یہ ایک خواب ہے جس کے شرمندہ تعبیر ہونے پر جماعت کی قیادت کو پورا یقین ہے معجزے بھی اس دنیا میں ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ مورخ تو وہی لکھے گا جو ہوگا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے کام کرنے والے اپنی جدوجہد کو برصغیر کی قدیم ترین جدوجہد قرار دیتے ہیں۔ پورے ہندوستان سے کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست کی ابتدا کرنے والوں کا اثر و رسوخ اب ایک صوبے بلکہ ایک دو اضلاع تک محدود ہوگیا ہے، اس صدی میں پہلی مرتبہ وزیراعلیٰ کا منصب حاصل کرنا اور صوبے کا نام اپنی پسند کے مطابق رکھوانا اس پارٹی کا تازہ ترین کارنامہ ہے، پنجاب کے میدانوں میں کامیابی حاصل کیے بغیر کوئی پارٹی وزارت عظمیٰ کا تاج اپنے سر پر نہیں سجاسکتی۔
آج ہم جن چھ سیاسی پارٹیوں پر گفتگو کررہے ہیں، اے این پی ان میں کم تر دلچسپی رکھتی ہے کہ وہ بڑے صوبے میں مقبولیت حاصل کرے۔ کانگریس سے ری پبلکن اور نیپ سے این ڈی پی کے بعد اب موجودہ پارٹی سچے، مخلص اور محنتی کارکنوں کا مجموعہ ہے۔ قوم پرستی کی دھند، مگر یہ پارٹی اگر ظلم کے خلاف میدان میں نکل آئے تو کسی حد تک مستقبل کے منظرنامے پر اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے، وگرنہ دنیا میں درجنوں سیاسی خاندانوں کے صدیوں پر محیط اقتدار کا خاتمہ بھی مورخ کی گنہگار آنکھوں نے دیکھا ہے۔
ایم کیو ایم کا مستقبل کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دینا سب سے زیادہ مشکل ہے۔ پاکستان کی یہ واحد پارٹی ہے جو اپنے قائد سے محبت و عقیدت کی بنیاد پر قائم ہے۔ خاندانی و جاگیرداری پس منظر نہ ہونے، وراثت سے کوسوں دوری اور کسی آئین کا پابند نہ ہونے کے سبب اس کے مستقبل کا تعین کرنا از حد مشکل ہے، ہم نہیں کہہ سکتے کہ الطاف حسین جیسے سیاست دان نے مستقبل کے حوالے سے بالکل نہیں سوچا ہوگا۔ انسان فانی ہے اور وہ اپنے بعد اپنے خاندان، کاروبار، جائیداد اور سیاسی میراث کی حفاظت کا بندوبست کرتاہے۔ آنے والے عشروں میں متحدہ قومی موومنٹ نے نظام کو چلانے کے لیے ضرور کوئی انتظام کیا ہوگا۔ دس فیصد مہاجروں کے حقوق سے 98 فیصد مظلوموں کی آواز بننے کی خواہش مند ایم کیو ایم پر ہم گفتگو کررہے ہیں، بہتر مستقبل کے لیے پائیدار قیادت اور منتخب جمہوری نظام لازم ہے۔ گاندھی اور خمینی جیسے رہنما پارٹی نظم و ضبط سے بالاتر ہوکر قیادت کرتے ہوئے انڈین نیشنل کانگریس اور ایران کے لیے جمہوری نظام دے گئے ہیں۔
شاہی خاندان، بزنس اسپائرز اور گروپ آف انڈسٹریز وقت کے خس و خاشاک میں بہہ چکے ہیں۔ مضبوط سیاسی پارٹیوں کو گردش ایام نے تنکوں کی طرح بے حیثیت کردیا ہے، نہ جانے کیا ہو آج کی مقبول و جانی پہچانی سیاسی پارٹیوں کا مستقبل؟