شہید بھٹو کا سیاسی ورثہ
آج بھٹو کے ’’سیاسی ورثے‘‘ کا گراں بار ان کے نواسے بلاول بھٹو زرداری کو منتقل ہوچکا ہے۔۔۔
SIALKOT:
تاریخ میں ایسے کم ہی رہنما و قائدین گزرے ہیں جن کی قومی و عالمی خدمات کے اعتراف میں انھیں پوری دنیا میں شہرت، عزت اور سرفرازی نصیب ہوئی ہو اور عالمی سطح پر احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو۔ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں قائداعظم، مائوزے تنگ اور ذوالفقار علی بھٹو کا شمار ایسے ہی قدآور رہنمائوں میں ہوتا ہے، وطن عزیز کی آج تک کی تاریخ میں قائداعظم کے بعد پیپلزپارٹی کے بانی و چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو وہ واحد سیاسی رہنما ہیں جنھیں عالمی سطح پر انتہائی باعزت اور بلند مرتبہ ملا اور اپنی خدمات کے صلے میں وہ بجا طور پر اس کے مستحق تھے، قائداعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ پاکستان کے کسی اور سیاسی رہنما کو آج تک ملکی و بین الاقوامی سطح پر ایسی مقبولیت، پذیرائی، عزت و احترام اور عوامی مقبولیت نہ مل سکی جو قائداعظم اور قائد عوام کے نام سے تاریخ کے اوراق میں امر ہو چکی ہے۔
قائداعظم نے تاریخی جدوجہد کے بعد ایک نیا ملک حاصل کیا جب کہ قائد عوام نے سقوط بنگال کے بعد باقی ماندہ پاکستان کو نئے سرے سے تعمیر کیا اور ترقی و استحکام کی شاہراہ پر گامزن کردیا اور شکست خوردہ اور مایوس عوام کے دلوں میں زندہ رہنے کی روح پھونک دی۔ بھٹو کی آنکھوں میں غریب عوام اور پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی منزل تک لے جانے کے خواب سجے تھے لیکن 4 اپریل 1979 وطن عزیز کی تاریخ کا وہ سیاہ دن تھا جب ایک جابر و آمر مطلق حکمران نے وطن عزیز کو ایٹمی قوت بنانے، اسلامی دنیا کو متحد کرنے اور عوام کے دلوں پر حکومت کرنیوالے بین الاقوامی سطح کے عظیم مدبر و فلسفی سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کو شدید عالمی دبائو کے باوجود اس کی شہرت سے خوفزدہ ہوکر تختہ دار پر پہنچا دیا۔
شہید بھٹو سندھ کے ایک ممتاز سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، ان کے والد سر شاہنواز بھٹو کو برطانوی عہدحکومت میں ایک اہم سیاسی رہنما تسلیم کیا جاتا تھا، بھٹو نے تعلیم کے ابتدائی مدارج ممبئی میں طے کیے، بعد ازاں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا امریکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، بھٹو نے بیرسٹری کی ڈگری لنکنز ان سے حاصل کی۔ یہ وہی ادارہ ہے جہاں سے قائداعظم نے بھی قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بھٹو ابتدا سے ہی اسلامی ممالک میں سوشلزم کے امکانات کے حوالے سے عمیق مطالعے اور لیکچرز میں خصوصی دلچسپی لیتے تھے جو آگے چل کے ان کے نظریات اور فکر و فلسفے کا اثاثہ بنی۔ جب 1967 میں ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کے مکان لاہور میں بھٹو نے ایک نئی سیاسی پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی تو اسلام ہمارا دین، جمہوریت سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، پیپلزپارٹی کے منشور کی بنیاد قرار پایا۔
جنرل یحییٰ کے دور آمریت میں جب وطن عزیز دولخت ہوگیا تو بھٹو کو شکست خوردہ پاکستان کی قیادت کا بار گراں اٹھانا پڑا۔ یہ وہ تکلیف دہ وقت تھا کہ آمریت کی عاقبت نااندیش پالیسیوں کے باعث نہ صرف پاکستان ٹوٹ کر دو ٹکڑے ہوچکا تھا بلکہ عوام شدید مایوس، دلبرداشتہ اور مستقبل کے حوالے سے اضطراب کا شکار تھے، قومی معیشت تباہ حال اور ملکی خزانہ خالی ہو چکا تھا اس پہ مستزاد یہ کہ 90 ہزار فوجی بھارت کی قید میں تھے اور 5000 مربع میل کا علاقہ بھی بھارتی فوج کے قبضے میں تھا۔
بھٹو نے ایسے پریشان کن حالات میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور ایک دنیا جانتی ہے کہ بھٹو نے پھر پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا بلکہ مایوسی، بددلی، فکرمندی اور اضطراب میں مبتلا اور دل شکستہ قوم کے مورال کو بلند کرنے، ان کے مستقبل کو محفوظ بنانے اور بکھرے ہوئے پاکستان کی تعمیر نو اور ترقی و خوشحالی کے لیے رات و دن ایک کردیا۔ دنیا اس امر کی معترف اور گواہ ہے کہ بھٹو ایک جری، بہادر، بے خوف، بلند حوصلہ، زیرک، محب وطن اور پیش آمدہ خطرات سے آگاہ دوربین سیاستدان تھے۔ قومی و عالمی حالات پر گہری نظر رکھتے تھے، وہ بھارت کی بدنیتی ناپاک عزائم، پس پردہ سازشوں اور پاکستان دشمنی پر مبنی رویوں سے پوری طرح آگاہ تھے، سانحہ سقوط بنگال نے بھٹو صاحب کو پوری سنجیدگی سے یہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا کہ اگر بقیہ پاکستان کو بھارتی جارحیت سے بچانا ہے تو اس کے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے ایٹمی طاقت بنانا ہوگا۔
بھٹو نے بھارتی عزائم کا بہت پہلے ادراک کرلیا تھا یہی وجہ ہے کہ 1965 کی جنگ کے دوران انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ ''پاکستان جنگ لڑیگا اور ایک ہزار سال تک جنگ لڑیگا ... اگر انڈیا نے ایٹم بم بنایا تو پاکستانی گھاس اور پتے کھائینگے یہاں تک کہ بھوکے رہیںگے لیکن ہم ایٹم بم بنائینگے۔ ہمارے پاس اس کے سوا چارہ نہیں'' اور پھر دنیا جانتی ہے کہ وہ جب اقتدار میں آئے تو اپنے عزم و ارادے کو عملی جامہ پہنا دیا اور وطن عزیز کو جوہری طاقت بنانے، دنیا میں ایک با وقار، خود مختار، آزاد قوم کو باوقار مقام دلانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
شہید بھٹو ملک کے واحد سیاستدان تھے جو سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عوام کی بیٹھکوں، تھڑوں اور شاہرائوں پر لے کر آئے۔ وہ پاکستان کے مزدوروں، کسانوں، طالب علموں، ہاریوں، مزارعوں اور تمام محروم و مایوس عوام کی نمایندہ آواز تھے۔ انھوں نے پسماندہ طبقے کے لوگوں میں آگہی و شعور بیدار کیا اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنے کا حوصلہ پیدا کیا۔ اپنے دور حکومت میں بھٹو شہید نے عوام کی فلاح و بہبود کے متعدد منصوبے بنائے، جن میں تعلیمی پالیسی، زمینی و معاشی اصلاحات، مزدوروں کی بہتری کے اقدامات بالخصوص مزدوروں کی معذوری و ریٹائرمنٹ پر مراعات کے لیے ای او بی آئی کا قیام بھی شامل ہے۔ اسٹیل ملز بھٹو ہی کی نشانی ہے جو آج زبوں حالی سے دو چار ہے۔ بھٹو ایک وژنری رہنما تھے۔
انھوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو امریکی تسلط سے آزاد کرایا، انھی کے فہم و تدبر کے باعث ملک کی مذہبی و سیاسی قوتوں کے اتفاق رائے سے 1973 کا متفقہ آئین تشکیل دیا گیا، شراب پر پابندی، جمعہ کی چھٹی، قادیانیوں کے 90 سال پرانے مسئلے کا حل اور لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد شہید بھٹو کے ناقابل فراموش کارنامے ہیں۔ انھوں نے بھارت سے 93 ہزار قیدیوں کی واپسی، بھارتی قبضے سے 500 ہزار مربع میل علاقہ واپس لینا اور مسئلہ کشمیر پر بھارت سے پاکستانی موقف کو تسلیم کرواکے اپنے سیاسی تدبر کا سکہ جمایا۔ اپنی شاندار قومی و عالمی خدمات کے باعث بھٹو پاکستانی سیاست کا ایسا عوامی و لافانی کردار بن چکے ہیں جو چار دہائیوں سے گڑھی خدا بخش میں محو خواب ہونے کے باوجود '' کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے'' کے عوامی نعرے کی صورت میں کروڑوں عوام کے دلوں میں رقصاں ہے۔
بھٹو کا فکر و فلسفہ اور سیاسی ورثہ ان کی لاڈلی بیٹی بینظیر بھٹو میں منتقل ہوا انھوں نے بھی ملک کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ میزائل ٹیکنالوجی سے ملکی دفاع کو مستحکم کیا، دو مرتبہ اقتدار ملنے کے باوجود پس پردہ سازشوں کے ذریعے بینظیر بھٹو کو آئینی مدت پوری نہ کرنے دی گئی، 27 دسمبر کو ان کی شہادت کے بعد بھٹو کے داماد آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی نے 5 سالہ آئینی مدت پوری کی۔ آج بھٹو کے ''سیاسی ورثے'' کا گراں بار ان کے نواسے بلاول بھٹو زرداری کو منتقل ہوچکا ہے، جو نوجوان اور پر عزم اور اپنے نانا اور والدہ کی طرح نڈر اور بہادر بھی ہیں، قوم کو ان سے بڑی توقعات وابستہ ہیں کہ وہ بھٹو کے سیاسی ورثے کی دل و جان سے حفاظت اور ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے اخلاص نیت سے خدمات انجام دیںگے۔