سیاسی اور معاشی استحکام‘ وقت کی ضرورت

عام آدمی مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہے تو سرمایہ کار طبقہ غیریقینی سیاسی و معاشی صورتحال پر خوفزدہ ہے

عام آدمی مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہے تو سرمایہ کار طبقہ غیریقینی سیاسی و معاشی صورتحال پر خوفزدہ ہے (فوٹو: فائل)

پاکستان اس وقت شدید سیاسی عدم استحکام اور مشکل ترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ ملک کا انتظامی ڈھانچہ مفلوج ہے،دو صوبوں میں حکومت اور اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں'اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

عام آدمی مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہے تو سرمایہ کار طبقہ غیریقینی سیاسی و معاشی صورتحال پر خوفزدہ ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ گزشتہ روز پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں غیرمعمولی کریش کی شکل میں ہوا ہے۔

نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود مزید بڑھنے کی افواہوں، منفی معاشی اشاریوں اور غیریقینی سیاسی صورتحال کی وجہ سے سرمایہ کاروں میں بے اعتمادی بھیلی اور وہ اپنے سودے دھڑا دھڑ فروخت کرنے لگے ، یوں پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں ڈھائی سال کے بعد منگل کو شدید ترین مندی دیکھی گئی۔

بدترین مندی کے نتیجے میں اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی اور ہنڈرڈ انڈیکس جولائی 2020 کے بعد پہلی بار 39000 پوائنٹس کی نفسیاتی سطح سے بھی نیچے آگیا، اس طرح گزشتہ تین سیشن کے دوران مجموعی طور پر 2460 پوائنٹس کی مندی ریکارڈ کی گئی۔

یہ تو حصص مارکیٹ کی ایک مثال ہے' باقی تمام کاروباری سرگرمیاںبھی انتہائی سست رفتار ہو چکی ہیں۔وفاقی حکومت اپنے طور پر معیشت کو بہتر کرنے کے لیے خاصی محنت کر رہی ہے اور اس کے کچھ فوائد بھی ہوئے ہیں لیکن یہ فوائدسیاسی پروپیگنڈے کی نذر ہو گئے ہیں کیونکہ عام آدمی کے لیے کھانے پینے کی اشیا کی قلت اور مہنگائی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

حالانکہ موجودہ حکومت نے عالمی برادری کے ساتھ ماضی کی حکومت کی نسبت بہتر تعلقات قائم کیے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا بھی ایک بڑا کام ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے جو نقصان ہوا اس کے لیے حالیہ ڈونرز کانفرنس کاانعقاد بھی ظاہر کرتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک پاکستان کی پالیسی کو بہتر سمجھتے ہیں تاہم ابھی آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات پوری طرح طے نہیں ہوئے ہیں جس کی وجہ سے معاشی جمود قائم ہے۔

ملک میں ڈالر کی قلت ہو رہی ہے اور اسی وجہ سے ڈالر کی قدر میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ معاشی ماہرین اس رائے پر متفق ہیں کہ جب تکIMF پروگرام بحال نہیں ہوتا اور سیاست میں ٹھہراؤ نہیں آتا تو اس وقت تک ملکی معیشت افواہوں اور قیاس آرائیوں کی زد میں رہے گی۔

اسٹاک ایکسچینج افواہوں اور قیاس آرائیوں کی زد میں سب سے پہلے آتی ہے' پوری دنیا میں ایسا ہی ہوتاہے۔

اس لیے ترقی یافتہ ملکوں میں معیشت پر سیاست ضرور ہوتی ہے لیکن بڑے مثبت انداز میں ہوتی ہے جس کی وجہ سے افواہوں اور قیاس آرائیوں کی گنجائش نہیں ہوتی ' یوں امور مملکت خوش اسلوبی سے جاری رہتے ہیں۔ برطانیہ پچھلے برسوں سے سیاسی اتار چڑھاؤ کا شکار چلا ٓ رہا ہے۔

وزیراعظم بھی تبدیل ہوئے اور آئین اور برطانوی روایات کے مطابق نیا وزیراعظم منتخب ہو گیا۔برطانوی معیشت اپنی رفتار سے چلتی رہی اور وہاں کسی قسم کی غیریقینی پیدا نہیں ہوئی لیکن پاکستان کی سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔

ہمارے ہاں جو پارٹیاں اقتدار سے باہر ہوتی ہیں 'وہ آئین اور قانون میں موجود ابہام کا فائدہ اٹھا کر برسراقتدار حکومت کو تنگ کر نے کے لیے اعلیٰ عدالتوں میں درخواستیں دائر کرتی ہیں ' اگر یہ حربہ بھی کارگر نہ ہو توپھر جلاؤ گھیراؤ کی سیاست شروع کرتی ہیں' لانگ مارچ اور دھرنے دیے جاتے ہیں۔

اس وجہ سے کاروباری طبقہ اور عوام دونوں پریشان ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی ادارے بھی تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو کی پالیسی اختیار کر لیتے ہیں۔پاکستان کو اس قسم کی منفی سیاست نے ہی نقصان پہنچایا ہے اور یہ سلسلہ ابھی بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا۔

مالیاتی حلقوں میں یہ بات کہی اور سنی جا رہی ہے کہ سرمایہ کار اپنا سرمایہ سونے جیسے دیگر اثاثوں میں منتقل کر رہے ہیں۔


اس وجہ سے سونے کے نرخوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جب ملک کا سرمایہ دار طبقہ اپنے سرمائے کو غیرپیداواری اثاثوں میں منتقل کرے گا تو اس سے ملکی معیشت سست روی کا شکار ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ریونیو وصول کرنے کی شرح بھی کم ہو جاتی ہے۔بڑے سرمایہ داروں نے رئیل اسٹیٹ میں انویسٹمنٹ کر رکھی ہے یا پھر سونا خرید رہے ہیں۔

پاکستانی سرمایہ بیرون ملک بھی منتقل ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے ڈالر کی طلب غیرمعمولی حد تک بڑھ گئی ہے۔ امپورٹرز کو بھی ڈالر چاہئیںاور حکومت کے لیے بھی ڈالر ضروری ہیں،اس وجہ سے امریکی ڈالر کی شدید قلت پیدا ہوئی ہے۔ادھر خام مال کی درآمد رکنے سے کئی صنعتوں کی ایک بڑی تعداد جزوی طور پر بند ہورہی ہے۔

ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 4.3 ارب ڈالر کی خطرناک حد تک گر گئے ہیں۔ بگڑتی ہوئی معیشت کا رخ بہتری کی جانب موڑنے کے لیے آئی ایم ایف کے قرضہ پروگرام کی بحالی ضروری ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے اس وقت آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ عام آدمی کی زندگی مہنگائی ، بیروزگاری اور اقتصادی حالات نے مشکل تر بنا دی ہے۔

مہنگائی 'بجلی کے نرخوں اور اشیائے خوراک کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ پاکستان کے لیے معیشت ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اس پر ہی سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

حکومت مخالف سیاسی قوتوں کو معیشت پر منفی سیاست سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ اقتدار میں آ گئے تو معیشت کو ترقی کی راہ پر لے جانا ان کے لیے بھی نا ممکن ہو جائے گا۔اس لیے اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ وسیع تر ملکی مفاد کو سامنے رکھ کر اپنا سیاسی ایجنڈا سیٹ کرے۔

آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ جو معاہدے ہو رہے ہیں 'ان کے بارے میں منفی مہم نہ چلائی جائے بلکہ معیشت کے لیے مثبت کردار ادا کیا جائے۔

سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا۔ وقفہ سوالات کے دوران وزیر مملکت پٹرولیم مصدق ملک نے بتایا کہ اوگرا نے گیس مہنگی کرنے کی تجویز دی تھی لیکن مہنگائی کی وجہ سی گیس کی قیمت نہیں بڑھائی۔

گیس کی قیمت نہ بڑھانے سے قومی خزانے پر بوجھ پڑرہا ہے۔ عوام پر اضافی بوجھ نہیں ڈال رہے، مہنگی ایل این جی خرید کر سستی نہیں بیچ سکتے۔ مناسب وقت میں گیس کی قیمت بڑھانی ہوگی۔ ہر سال 8 سے 10 فیصد گیس کم پیدا ہوتی ہے۔ ملک میں گیس کے نئے کنکشنز پر پابندی ہے۔ ملکی مفاد میں نئے کنکشنز پر پابندی مزید کچھ عرصہ برقرار رہنی چاہیے۔

بجلی 4 روپے 46 پیسے فی یونٹ مہنگی کر دی گئی۔ (نیپرا) نے بجلی مہنگی کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق قیمتوں میں منظوری جولائی تا ستمبر 2022 کی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں دی گئی ہے۔

نیپرا نے بجلی کی نرخوں میں اضافے کا فیصلہ وفاقی حکومت کو ارسال کردیا۔نیپرا کے مطابق مختلف کیٹگریوں کے تحت ایک روپے 49 پیسے سے چار روپے 46 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جدید دور کی کسی بھی ریاست میں سیاست اور معیشت آپس میں جڑی ہوتی ہیں اوراسے پولیٹیکل اکانومی یعنی سیاسی معیشت کہا جاتا ہے۔

ان میں سے ایک مضبوط اور دوسری کمزور ہو ، یہ بالعموم ممکن نہیں ہوتا۔ بلاشبہ وزیراعظم شہباز شریف کا برملا مہنگائی کا اعتراف کرنا ، اس بات کا غماز ہے کہ وہ صورتحال کی سنگینی کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ عوام کی مشکلات سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں اور اس میں اصلاح کے خواہش مند بھی ہیں تاہم مالی مشکلات اتنی زیادہ ہیں کہ معیشت کو پوری رفتار سے چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

ملک میں اس وقت سیاسی چپقلش اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ معیشت بھی سیاسی رسی کشی کا شکار بنا دی گئی ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت عالمی مالیاتی اداروں اور ترقی یافتہ ملکوں کے ساتھ اپنے معاملات طے کر رہی ہے۔

اپوزیشن کو اس معاملے میں اپنی سپورٹ پیش کرنی چاہیے۔ سیاست کرنی ہے تو اپنے پارٹی منشور کو سامنے رکھ کر کی جائے۔

آئین اور قانون کو منفی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی روش کو ترک کرنا انتہائی ضروری ہے ' پارلیمنٹیرینزکو بھی اپنے کام پر توجہ دینی چاہیے اور آئین کے ایسے آرٹیکلز جن میں ابہام یا سقم ہے 'انھیں دور کرنے پر کام کیا جائے 'اگر پارلیمنٹیرینز اور سیاسی قیادت اپنے کام پر توجہ دے تو ملک میں جمہوریت بھی مضبوط ہو گی اور معیشت بھی۔
Load Next Story