ذہنی صحت کے بغیر کوئی صحت نہیں

پاکستان میں ڈپریشن میں مبتلا لوگوں کی شرح 34 سے 44 فیصد ہے

پاکستان میں ڈپریشن میں مبتلا لوگوں کی شرح 34 سے 44 فیصد ہے۔ فوٹو : فائل

کیا آپ جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں ڈپریشن ایک عام مرض بنتا جا رہا ہے؟

عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں قریباً پانچ فیصد بالغ افراد ڈپریشن میں مبتلا ہیں۔ ان مریضوں میں بھی5.7 فیصد کی عمر 60 برس یا اس سے زائد ہے۔ مجموعی طور پر دنیا بھر کی آبادی میں 3.8 فیصد لوگ ڈپریشن کے مرض کا شکار ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد 28 کروڑ سے زائد ہے۔ پاکستان میں ڈپریشن زیادہ خطرناک ہوچکا ہے۔

ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈپریشن میں مبتلا لوگوں کی شرح 34فیصد ہے جب کہ ایک دوسرے جائزے کے مطابق شرح44 فیصد ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں حالات کس قدر خراب ہوچکے ہیں۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ دنیا میں ڈپریشن معذوری کی سب سے بڑی وجہ بنتی جا رہی ہے۔جسمانی اور ذہنی صحت ، دونوں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ مثلاً امراض قلب کے بنیادی اسباب میں ڈپریشن بھی شامل ہے۔

یہ ڈپریشن ہی ہے جو دیگر امراض بھی پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے ، یوں دنیا میں بحیثیت مجموعی بیماروں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ تحقیقات کے نتیجے میں ثابت ہوا ہے کہ مردوں کی نسبت خواتین زیادہ ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ ڈپریشن انسان کو خودکشی کی راہ پر لے جاتا ہے۔

ڈپریشن کیا ہے ؟

ڈپریشن روز مرہ زندگی میں آنے والے چیلنجز کے جواب میں بننے والے موڈ کے اتار چڑھاؤ یا مختصر وقت کے عام جذباتی ردعمل سے مختلف کیفیت کو کہتے ہیں۔

اگر درمیانے یا شدید درجے کا ڈپریشن بار بار ہونا شروع ہوجائے تو یہ صحت کی زیادہ خرابی کا الارم بجا رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے تعلیمی ادارے میں ، اپنی ملازمت یا کاروبار کی جگہ پر حتیٰ کہ اپنی گھریلو زندگی میں خراب رویے اور کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔

جب ڈپریشن نہایت شدت اختیار کرتا ہے تو مریض خودکشی کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ یاد رہے کہ دنیا میں ہر سال سات لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں۔15 سے 29برس تک کی عمر کے نوجوانوں کی اموات میں خودکشی چوتھا بڑا سبب ہوتا ہے۔

ذہنی امراض کے موثر علاج کا علم ہونے کے باوجود کم یا درمیانے درجے کی آمدن والے معاشروں میں 75 فیصد مریض اپنا علاج نہیں کراتے۔ ان کے علاج میں سب سے بڑی رکاوٹ وسائل کا نہ ہونا ہے۔

دوسری رکاوٹ تربیت یافتہ ماہرین کی کمی اور تیسری بدنامی کا خوف کہ عمومی طور پر لوگ ذہنی امراض میں مبتلا فرد کو پاگل گردانتے ہیں۔ دنیا کے تمام معاشروں میں ڈپریشن میں مبتلا لوگوںکی درست تشخیص نہیں ہو پاتی۔ اور المیہ ہے کہ جنھیں ڈپریشن نہیں ہوتا ، انھیں ڈپریشن کا مریض قرار دے کر اینٹی ڈپریشن ادویات استعمال کروائی جاتی ہیں۔

ڈپریشن کی علامات

ڈپریشن کی حالت میں مریض اداس ہوتا ہے ، اس کی زندگی سے رومانس ختم ہوجاتا ہے، جن چیزوں کو پہلے پسند کرتا تھا ، اب وہ ناپسند کرتا ہے۔ کسی بھی حوالے سے وہ لطف حاصل نہیں کر پاتا۔ اسی طرح اسے بے خوابی کا مسئلہ لاحق ہوتا ہے، خواہ مخواہ صبح جلد بیدار ہوجاتا ہے۔

تھکاوٹ اور جسمانی توانائی کی کمی بھی محسوس کرتا ہے۔ دیگر علامات میں مسلسل درد، سردرد، پٹھوں کا اکڑنا یا پھر نظام انہضام کے ایسے مسائل کا شکار ہوتا ہے جن سے علاج کے باوجود چھٹکارا نہیں ملتا۔ اگر ڈپریشن کے کسی مریض کو پہلے سے کچھ امراض لاحق ہوتے ہیں تو وہ ڈپریشن کی حالت میں زیادہ شدید ہوجاتے ہیں۔

ذہنی امراض کا سب سے پہلا حملہ معدے اور نظام انہضام پر ہوتا ہے۔ ڈپریشن کے مریض کو بھوک محسوس نہ ہونے کی شکایت ہوتی ہے۔

یہ ایک بڑی علامت ہوتی ہے۔ ہاں ! بعض مریضوں میں کھانے پینے کی خواہش میں اضافہ بھی دیکھا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بھوک محسوس نہ کرنے والے مریضوں کا وزن کم ہونا شروع ہوجاتا ہے جبکہ زیادہ بھوک پیاس محسوس کرنے والوں کا وزن بڑھ جاتا ہے۔


اگر ڈپریشن کی بروقت تشخیص اور علاج نہ ہو تو انسان ایسی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے جہاں وہ توجہ کے ارتکاز اور قوت فیصلہ میںکمی محسوس کرنے لگتا ہے۔

وہ اپنی پسندیدہ سرگرمیوں سے منہ موڑ لیتا ہے۔ وہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہو ، ارد گرد کے لوگوں سے تعلقات خراب کر بیٹھتا ہے۔ چونکہ وہ خود بھی لوگوں کے ساتھ چڑچڑے پن اور ایسے ہی دیگر منفی رویوں کا مظاہرہ کرتا ہے ۔

اس لئے لوگ بھی اس سے دور رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ یوں وہ تیزی سے تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے۔ جب یہ صورت حال سنگین ہوجاتی ہے تو اس کی علامات میں مریض موت یا خودکشی کے بارے میں بات کرتا ہے، لوگوں کو نقصان پہنچانے کی دھمکیاں د یتا ہے یا پھر جارحانہ یا خطرے مول لینے والے رویوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔

ڈپریشن کیوں ہوتا ہے ؟

کوئی بھی فرد ڈپریشن کا شکار ہوسکتا ہے تاہم زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ اس حوالے سے جینز کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ اگر والدین ڈپریشن کے مریض ہوں تو اولاد میں بھی یہ مرض منتقل ہوتا ہے۔ ماہرین کی آرا کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تاحال ڈپریشن کی اصل وجوہات تلاش نہیں کرسکے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی ساخت اور کیمیائی افعال میں تبدیلی پیدا ہوجائے تو نتیجہ ڈپریشن کی شکل میں نکلتا ہے۔

جب کوئی فرد ڈپریشن میں مبتلا ہو تو اس کے مزاج کو باقاعدگی عطا کرنیوالے سرکٹس موثر نہیں رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈپریشن کے علاج میں دی جانیوالی ادویات کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ اعصابی خلیات کے درمیان رابطہ بہتر بناتی ہیں اور انہیں معمول پر لانے میں مدد دیتی ہیں۔

ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ کسی پیارے سے محرومی بھی ڈپریشن میں مبتلا کردیتی ہے، اس کے علاوہ مخصوص ادویات، الکحل اور منشیات کا استعمال بھی سبب بنتا ہے۔ ہارمونز میں تبدیلیاں ہورہی ہوں یا پھر موسم میں تبدیلی ہو ، تب بھی انسان ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ڈپریشن کے بعض مریض موسم گرما میں اچھے بھلے اور خوش باش ہوتے ہیں لیکن سردیوں میں اداس ہوجاتے ہیں۔ اسے' موسمی ڈپریشن ' کہا جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر موسم بھی انسان کے مزاج پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تین سے 20 فیصد افراد موسمی ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔

مختلف جائزوں کے مطابق بچے کی پیدائش کے بعد ہر چار میں سے ایک ماں ڈپریشن کے خطرات سے دوچار ہوتی ہے، اسکے مزاج میں خرابی واقع ہوتی ہے۔

اسے ' پوسٹ پارٹم ڈپریشن ' کہا جاتا ہے۔ کوئی ماں اس قسم کے ڈپریشن میں مبتلا ہوجائے تو اسکے نتیجے میں بچوں کی صحت کو نقصان لاحق ہوتا ہے۔

لڑکپن میں بھی ڈپریشن کا مرض دیکھنے کو ملتا ہے، ایسے لڑکوں ، لڑکیوں یا نوجوانوں میں کھیلنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، وہ دوست بھی نہیں بناسکتے جبکہ سکول ، کالج کا کام بھی مکمل نہیں کرپاتے۔ وہ عام بچوں کی نسبت زیادہ غصہ کرتے ہیں یا پھر خطرے والے کام کرتے ہیں۔

ڈپریشن کی تشخیص کیسے ہوتی ہے؟

عمومی طور پر ماہرین مریض کی علامات کی بنیاد پر ڈپریشن کی تشخیص کرتے ہیں۔ مریض کی میڈیکل ہسٹری پوچھی جاتی ہے ، جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ کس قسم کی ادویات وغیرہ استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح مزاج میں اتار چڑھاؤ ، رویوں اور روزمرہ کی سرگرمیوں کے بارے میں استفسار کیا جاتا ہے۔

ڈپریشن کا علاج کیا ہو؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن زیادہ شدید نہ ہو اور اس کے نتیجے میں زیادہ مسائل پیدا نہ ہوئے ہوں تو بہتر خوراک ، مکمل نیند اور باقاعدہ ورزش کے ذریعے مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے تاہم مرض کی علامات شدید ہونے کی صورت میں کسی ماہر کی مدد لینا ضروری ہوتی ہے۔ وہ ماہر جنرل فزیشن، ماہرِ نفسیاتی امراض، نفسیاتی امراض کا ڈاکٹر یا تھراپسٹ ہوتا ہے۔

جو لوگ شدید ڈپریشن کے شکار ہوتے ہیں ، وہ دیگر عام لوگوں کی نسبت جلد موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ حالانکہ اس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ ڈپریشن چاہے ہلکا ہو ، درمیانہ ہو یا پھر شدید، اس کا علاج ممکن ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اب ہم ذہنی صحت پر بھی بات کریں۔ جسمانی اور ذہنی صحت، دونوں کو یکساں ترجیح دیں۔
Load Next Story