کیا عدالت یہ کہہ کر نیب کو بحال کر سکتی ہے کہ احتساب ختم ہوگیا سپریم کورٹ

اگر پارلیمنٹ نیب کو ہی ختم کردے تو کیا اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ سپریم کورٹ

اگر پارلیمنٹ نیب کو ہی ختم کردے تو کیا اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے استفسار کیا ہے کہ اگر پارلیمنٹ نیب کو ہی ختم کردے تو کیا اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ کیا عدالت یہ کہہ کر نیب کو بحال کر سکتی ہے کہ احتساب ختم ہوگیا؟۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ پارلیمان کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ اسے قانون سازی کا اختیار ہے، نیب ترامیم کالعدم کرنے پر عدالت کو بتانا ہوگا نیب ترامیم جیسی قانون سازی کیوں نہیں ہوسکتی، صرف وہی قانون کالعدم ہو سکتا ہے جو بنانے پر آئینی ممانعت ہو اور عدلیہ کے اختیارات کم کرنے کیلئے کی گئی قانون سازی بھی کالعدم ہوسکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا پھانسی کی سزا ختم کرنا آئینی عمل ہوگا؟ اگر پارلیمنٹ نیب کو ہی ختم کردے تو کیا اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ کیا عدالت یہ کہہ کر نیب کو بحال کر سکتی ہے کہ احتساب ختم ہوگیا؟۔

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ پارلیمان کو قانون سازی کیساتھ قانون واپس لینے کا بھی اختیار ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا تعزیرات پاکستان ختم ہونے سے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہونگے؟ نیب پبلک پراپرٹی کے مقدمات بناتا ہے جو عوام کی ملکیت ہوتی ہے۔

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ برطانیہ میں سزائے موت کسی جرم میں نہیں دی جاتی، سزائے موت کے خاتمے کے قانون کا اطلاق زیرالتواء مقدمات پر بھی ہوا تھا، برطانیہ ان ممالک کیساتھ ملزمان حوالگی کا معاہدہ نہیں کرتا جہاں سزائے موت دی جاتی ہے۔


جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ شرعی قانون میں سزائے موت موجود ہے، کیا شرعی اصولوں کیخلاف قانون سازی کی جا سکتی ہے؟ درخواست گزار کے مطابق احتساب اسلام اور آئین کا بنیادی جزو ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ اسلام میں دیت اور قصاص کا تصور بھی موجود ہے، ورثاء دیت کے عوض جرم معاف کر سکتے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت قوانین کا جائزہ آئین اور بنیادی حقوق کے تناظر میں ہی لے سکتی ہے، کیا عدالت کچھ اور نہ ملنے پر شرعی تناظر میں قوانین کا جائزہ لے سکتی ہے؟۔

مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ شریعت کے تحت قوانین کا جائزہ صرف شرعی عدالت لے سکتی ہے، نیب ترامیم کا جائزہ اسلامی اصولوں کے تناظر میں نہیں لیا جا سکتا، اجماع اور اجتہاد کے اصول ریاستی ادارہ پارلیمان استعمال کر رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قرآن میں امانت اور خیانت کے اصول واضح ہیں، خائن کیلئے قرآن کریم میں سخت الفاظ استعمال ہوئے ہیں، عدالت میں بحث جرم کی ہیئت تبدیل کرنے کی ہے، سزا کچھ بھی ہو جرم تو جرم ہی رہتا ہے۔

مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ احتساب کے تمام قوانین کا اطلاق ہمیشہ ماضی سے ہوا ہے، نیب ترامیم کا ماضی سے اطلاق ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

عدالت نے مزید سماعت 7 فروری تک ملتوی کردی۔
Load Next Story