ڈاکٹر اکبر ایس احمد۔۔۔ ایک عظیم پاکستانی

جنہوں نے اپنی تخلیقی اور علمی خدمات کی بدولت عالمی سطح پر منفرد نام اور مقام بنایا

فوٹو : فائل

پاکستان قدرت کا ایسا نایاب اور بیش قیمت تحفہ ہے جس کی قدروقیمت کا اندازہ شاید ا بھی تک نہ ہم پاکستانیوں کو ہوا ہے اور نہ ہی دُنیا کو اس کی اصل افادیت کا ادراک ہوا ہے۔

قوموں کی زندگی میں ترقی کے لیے کردار ادا کرنے والے افراد ہی اُس کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں۔ تہذیب اور ترقی یافتہ قوموں میں ایسے لوگ اُن کا اثاثہ ہوتے ہیں جن کی سوچ، عمل اور کردار سے قوموں کی تعمیر کا کام مکمل ہوتا ہے۔

پاکستانی تاریخ میں ایسی کئی نام ور شخصیات نے وطن کی محبت، اس کی ترقی اور بقاء کے لیے کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں جن کا ذکر نئی نسل سے ضرور کرنا چاہیے۔

اسی سلسلے میں اس مضمون میں ہم ایک ایسی ہی شخصیت سے آپ کی ملاقات کروائیں گے جنہوں نے اپنی تخلیقی، سفارتی اور علمی خدمات کی بدولت عالمی سطح پر اپنا منفرد نام اور مقام بنایا ہے۔

ڈاکٹر اکبر ایس احمد پاکستان کا ایک معتبر نام ہیں جن کے بارے میں لکھنا اور اُن سے انٹرویو کرنا میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ وہ جس خلوص اور شفقت سے مجھ سے پیش آئے وہ میرے لیے بہت حوصلہ افزاء بات تھی۔

میں نے اُن سے اس مضمون کی تکمیل کے لیے آن لائن انٹرویو کیا۔ اُنہوں نے بہت دل چسپی اور خوش اسلوبی سے میرے سوالوں کے جواب دیے اور مجھے میرے کام کی وجہ سے خوب سراہا۔ میں اس ضمن میں ڈاکٹر اکبر ایس احمد کے قریبی دوست ڈاکٹر جیمس شیرا کا نہایت مشکور ہوں جنہوں نے مجھے ڈاکٹر اکبرایس احمد سے متعارف کروایا اور مجھے اُس انٹرویو کی ترغیب دی۔ اس سلسلے میں، میں ڈاکٹر نعیم مشتاق کا بھی ممنون ہوں۔

جنہوں نے مجھے ڈاکٹر اکبر ایس احمد کا رابطہ نمبر دیا اور انٹرویو میں راہ نمائی کی۔ ان ناموں کا شکریہ ادا کرنے کا مقصد آپ کو صرف یہ بتانا ہے کہ ایک مضمون لکھنے اور انٹرویو کرنے کے لیے کتنے لوگوں کی مددومعاونت درکار ہوتی ہے اور بہت سارے لوگ مختلف طریقے سے اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔

سابق سفیرجناب ڈاکٹر اکبرایس احمد امریکن یونیورسٹی میں ابن خلدون چیئر آف اسلامک اسٹڈیز اور واشنگٹن میں ولسن سینٹر گلوبل کے فیلو ہیں۔ ڈاکٹر اکبر احمد نے اپنے کیریئر میں کئی اہم تعلیمی اور عوامی خدمت کے ممتاز عہدوں پر اپنی خدمات سرانجام دی ہیں۔ انہیں کئی اہم اعزازات ملے جن میں اسٹار آف پاکستان کا ایوارڈ نمایاں ہے۔

وہ بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں سینئر فیلو رہے ہیں۔ اناپولس، MD میں یو ایس نیول اکیڈمی میں مشرق وسطیٰ اور اسلامک اسٹڈیز کی پہلی ممتاز چیئر کے علاوہ، اقبال فیلو اور کیمبرج یونیورسٹی میں سیلوین کالج کے فیلو رہے ہیں اور ہارورڈ اور پرنسٹن یونیورسٹیوں میں تدریسی عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں۔

ڈاکٹر اکبر احمد نے تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ پاکستان کی سول سروس کے لیے بھی اپنی خدمات وقف کی ہیں، جہاں ان کے عہدوں میں بلوچستان میںبطور کمشنر، قبائلی علاقوں میں پولیٹیکل ایجنٹ اور برطانیہ اور آئرلینڈ میں بطور پاکستانی ہائی کمشنر خدمات شامل ہے۔

ان کی اعلیٰ خدمات، علمی اور فکری دانش وحکمت کی دُنیا بھر کے نام ور ادارے تعریف کرتے ہیں۔

بی بی سی نے انہیں ''عصرحاضر میں اسلام پر دُنیا کی سرکردہ اتھارٹی'' کا لقب دیا جب کہ سعودی گزٹ نے ان کی یوں تعریف کی،''عصری مسلم معاشروں پر سب سے زیادہ بااثر بقیدحیات اتھارٹی۔'' شیخ حمزہ یوسف نے انہیں ''سیلف میڈ مسلمانوں کا خزانہ'' قرار دیا ہے۔ کینٹربری کے سابق آرچ بشپ ڈاکٹر لارڈ روون ولیمز نے انہیں ''موجودہ دور کے انگریزی بولنے والی دُنیا میں سب سے ممتاز اور ورسٹائل مسلم اسکالر'' کے طور پر بیان کیا۔

مشہور امریکی مورخ اور جناح آف پاکستان کے مصنف پروفیسر اسٹینلے وولپرٹ نے ڈاکٹر اکبراحمد کا تعارف اس طرح کرایا''ڈاکٹراکبر احمد امریکا میں اسلام کے سب سے بڑے عالم ہیں۔ اس دُنیا میں ان کے علاوہ اتنا بلند قدو افکار کوئی اور نہیں ہے۔ وہ جدید اسلامی راہ نماؤں کے دارا شکوہ ہیں۔''

ڈاکٹر اکبر احمد1943 الہ آباد، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد اُس وقت ریلوے میں ڈی ایس تھے اور قائداعظم کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا ذکر کرتے تھے۔ ڈاکٹر اکبر احمد کے خاندان نے قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرکے کراچی میں سکونت اختیار کی۔

اُنہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ایبٹ آباد کے برن ہال اسکول (موجودہ آرمی برن ہال کالج) میں 1954 سے 1959 تک حاصل کی، جہاں کے مشنری اساتذہ، خصوصی طور پر پریسٹ نے اُنہیں بہت متاثر کیا۔ یہاں سے ہی اُنہوں نے نظم وضبط، مطالعہ اور چیزوں کو مختلف نظر سے دیکھنے کی صلاحیت کا سبق سیکھا اور خود کو نکھارنا شروع کیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ مشنری اساتذہ ہمارے حقیقی رول ماڈل تھے جنہوں نے ہمیں پڑھنے اور سوچنے کا شعور دیا۔ اس کے بعد اُنہوں نے ایف سی کالج لاہور اور بعدازاں پنجاب یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف برمنگھم سے گریجویشن کیا اور بعد میں کیمبرج یونیورسٹی میں ایم اے کیا۔ 1978 میں، ڈاکٹر اکبراحمد نے لندن یونیورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز میں بشریات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

ڈاکٹر اکبر ایس احمد کی زندگی کے مختلف پہلو ہیں جنہیں اس ایک مضمون میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ وہ اپنی تخلیقی، تعلیمی، سفارتی، بین المذاہب ہم آہنگی، عالمی مسائل پر ڈائیلاگ اور پاکستان اور عالمی امور پر دسترس کی وجہ سے اہم نقطہ نظر رکھتے ہیں، ہم اُن کی شخصیت کے چند پہلوؤں کو اس مضمون میں شامل کررہے ہیں۔

بین المذاہب ہم آہنگی اور مکالمے کے لیے خدمات:

11ستمبر2001 کے سانحے کے بعد ڈاکٹر اکبر احمد نے مکالمے کا ایک سلسلہ شروع کیا جسے بروکنگز انسٹی ٹیوشن پریس نے شائع کیا تھا جس میں اسلام اور مغرب کے درمیان تعلقات سے متعلق مسائل کا احاطہ کیا گیا تھا۔


ڈاکٹر اکبراحمد نے امریکا اور دیگر ممالک میں عوامی بین المذاہب مکالموں کی ایک سیریز میں بھی مصروف رہے ہیں۔

ان کے ساتھ پروفیسر جوڈیا پرل، (صحافی ڈینیئل پرل) کے والد بھی تھے، جو مسلمانوں اور مغرب اور یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم اور دُوری کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کرتے رہے ہیں۔ ان کی انہی کوششوں کے لیے، انہیں اور پروفیسر جوڈیا پرل کو نیشنل کیتھیڈرل میں میٹروپولیٹن واشنگٹن کی انٹرفیتھ کانفرنس کے ذریعے ''فرسٹ پرپز پرائز'' دیا گیا۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر اکبر احمد کو بین المذاہب سرگرمیوں کے لیے ہرشل کنگ ایوارڈ بھی ملا۔ انہیں کینٹربری کے آرچ بشپ کی جانب سے ورلڈ فیتھز ڈیولپمنٹ ڈائیلاگ کے ٹرسٹی کے طور پر بھی مقرر کیا گیا ہے۔

اُنہوں نے واشنگٹن ڈی سی میں واقع مسلم پبلک افیئرز کونسل سے 2002 کا فری اسپیچ ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ ڈاکٹر اکبر احمد کہتے ہیں کہ ''مکالمہ، ہم آہنگی، رابطہ اور ڈائیلاگ'' اسلام اور مغرب کے لیے اہم ہیں۔

اس ضمن میں ایڈیٹر، پری پورڈ اسلامک میگزین، اور مصنف، دی سیج آف اسلام، میرنیس کوواک، ڈاکٹر اکبر ایس احمد کے بارے میں یوں کہتے ہیں،''میں نے جتنے بھی اسکالرز کا مطالعہ کیا ہے، ان میں سے کسی کا کام اکبر احمد جیسا منفرد نہیں ہے جسے روایتی اسلامی اسکالرز 'دو آنکھوں' کے ذریعے دُنیا کو دیکھنے کی صلاحیت کہتے ہیں۔

اندرونی، روحانی اور جسمانی، جذباتی اور سائنسی، جو مختلف نقطۂ نظر کی درست اور منصفانہ تفہیم کے قابل بناتی ہے۔ وہ یورپ میں مسلمانوں کے بارے میں اپنے پروجیکٹ میں وہی معیار رکھتے ہیں اور اُن کے یورپی مسلمان ہونے پر مجھے خاص طور پر فخر محسوس ہوتا ہے۔''

اُن کے دیرینہ دوست اور کئی اہم پروجیکٹس کے کلیدی ساتھی ، رگبئی کے سابق مئیر ڈاکٹر جیمس شیرا کہتے ہیں کہ ''اُن کی اکبر ایس احمد سے دوستی کی واحد اور بنیادی وجہ پاکستان سے محبت ہے۔ ہم دونوں کا دل پاکستان کے لیے دھڑکتا ہے۔

اس لیے ہم نے ہمیشہ پاکستانی پرچم کی سربلندی اور بیرون ملک پاکستان کا سافٹ امیج بہتر بنانے کے لیے کام کیا ہے۔ ڈاکٹراکبر ایس احمد بلاشبہہ پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں بلکہ وہ موجودہ دُور کے اکبراعظم ہیں جنہوں نے عالمی سطح پر اپنی علمی اور پیشہ ورانہ خدمات سے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔

ڈاکٹر جیمس شیرا نے مزید کہا کہ اُنہیں اس بات پر بھی فخر ہے کہ بے شک ہم دونوں کا مذہب الگ الگ ہے اور ہم دونوں پاکستان سے باہر کی عالمی دُنیا میں اپنے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق ہمیشہ پاکستانیت کو فروغ دیتے رہے ہیں۔ ہم نے کبھی ایک دوسرے کو یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ ہمارے مذہب الگ الگ ہیں۔ بلکہ دُنیا ہمیں دو بھائی ہی سمجھتی ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہم دونوں نے مل کر عالمی سطح پر پاکستان کا پرچم ہمیشہ بلند رکھا ہے اور اپنے افکار، کردار اور اخلاق سے پاکستان کی حقیقی نمائندگی کی ہے۔ میرا اور اکبر کا دل ہمیشہ پاکستان کے لیے دھڑکتا رہا ہے اور رہے گا، جس پر ہمیں ہمیشہ فخر رہے گا۔''

ڈاکٹر اکبر ایس احمد کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ کئی اہم اور منفرد ڈاکیو منٹری فلم اور پروجیکٹس پر کام کرچکے ہیں۔ بانی ِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناج کی زندگی پر مبنی فلم ''جناح '' میں اسکرین پلے بھی اُنہوں نے لکھا۔ یہ فلم بنانا بھی ایک دل چسپ اور منفرد کام تھا، جس کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے کئی باتیں بتائیں جو کبھی پھر کسی اور حوالے سے بیان کی جائیں گی۔

اُن کی اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں انھیں 30ستمبر 2022 کو امریکا میں پاکستانی سفیر اور ڈائریکٹر اسٹیٹ ڈپارنمنٹ کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔

ڈاکٹر اکبر ایس احمد پاکستان کے ایسے روشن ستارے ہیں جن کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اُن کا علمی، فکری، ادبی اور تخلیقی کام ایک بیش قیمت خرانہ ہیں۔ ڈاکٹر اکبر ایس احمد پاکستان کے لیے جیتے ہیں، ان کی زندگی کا مقصد پاکستانی کی ترقی اور بہتری ہے۔

ڈاکٹر اکبر ایس احمد جیسے لوگ ہی ہمارا حقیقی سرمایہ ہیں جن پر نہ صرف ہمیں بلکہ دُنیا کو فخر ہے۔ ڈاکٹر اکبر ایس احمد کا کہنا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے تو ہمیں عوام کو حقوق دینے ہوں گے، معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا ہوگا، علم اور تعلیم کو عام کرنا ہوگا اور اپنے لوگوں سے احسن سلوک کرنا اور پیار سے پیش آنا ہوگا۔

میرے ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان جن مسائل کا شکار ہے اُنہیں دُکھ ہوتا ہے کہ ہمارے اجداد نے کس قدر محنت اور قربانیوں سے اس ملک کو حاصل کیا تھا اور ہم اپنی انا، نااہلی اور خودغرضی کی وجہ سے ملک کو اس مقام پر لے آئے ہیں۔

آج بھی اگر ہم اپنے معاشرے میں عوام کو وہ عزت نہیں دیتے جو بانیِ پاکستان قائداعظم کا خواب تھا، تو ہم کبھی بھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکیں گے۔

ہمیں مذہبی اقلیتوں کے حقوق، تحفظ اور وقار کے لیے بھی عملی اور ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے کیوںکہ مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسیحی کیمونیٹی نے تعلیم کے میدان میں پاکستان کی بہت خدمت کی ہے جس کے لیے پوری قوم مسیحی کیمونیٹی کی مشکور ہے۔

میں نے سوال کیا ڈاکٹر صاحب! آپ پاکستان کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا، ایازمورس صاحب! جب میں ملکی حالات دیکھتا ہوں تو مجھے یقینی طور پر مایوسی اور دُکھ ہوتا ہے لیکن جب میں آپ جیسے نوجوانوں کو دیکھتا ہوں جو نامساعد حالات کے باوجود معاشرے کی بہتری کے لیے کام کررہے ہیں تو مجھے خوشی اور یقین ہوتا ہے کہ نوجوان اس ملک کا اصلی چہرہ اور سرمایہ ہیں، اُنہیں اعتماد اور راہ نمائی کی ضرورت ہے۔

یہ پاکستان کو اس بلندی پر لے کر جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کا پاکستان اہل ہے۔ بس ہمیں مل کر باہمی اتفاق کے ساتھ پاکستان کے لیے کام کرنا ہے۔

پاکستان ہمارے بزرگوں کا سرمایہ ہے جنہوں نے اسے ہمیں ایک امانت کے طور پر سونپا ہے۔ ہمیں اس کی ہر لحاظ سے حفاظت کرنی ہے۔
Load Next Story