دو مہلک بیماریاں
جن لوگوں میں خیالات اور نظریات کی گم راہیاں ہیں وہ ھوی کے مریض ہیں
حضرت جابرؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''میں اپنی امت پر جن بلاؤں کے آنے سے ڈرتا ہوں ان میں سب سے زیادہ ڈر کی چیزیں ہوٰی اور طوْلِ اَمَل ہیں۔'' (ھوی سے مراد یہاں یہ ہے کہ دین و مذہب کے بارے میں اپنے نفس کے رجحانات اور خیالات کی پیروی کی جائے اور طولِ امل یہ ہے کہ دنیوی زندگی کے بارے میں لمبی لمبی آرزوئیں دل میں پرورش کی جائیں)۔
رسول ﷲ صلیاﷲ علیہ وسلم نے ان دو بیماریوں کو بہت زیادہ خوف ناک بتلایا اور آگے اس کی وجہ یہ ارشاد فرمائی کہ ھوی تو آدمی کو قبول حق سے مانع ہوتی ہے (یعنی اپنے نفسانی خیالات و رجحانات کی پیروی کرنے والا قبول حق اور اتباع ہدایت سے محروم رہتا ہے) اور طول امل (یعنی لمبی لمبی آرزوؤں میں دل کا پھنس جانا) آخرت کو بھلا دیتا ہے اور اس کی فکر اور اس کے لیے تیاری سے غافل کر دیتا ہے۔
اس کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: یہ دنیا دم بہ دم چلی جا رہی ہے، گزر رہی ہے (کہیں اس کا ٹھہراؤ اور مقام نہیں) اور آخرت (ادھر سے) چل پڑی ہے چلی آرہی ہے اور ان دونوں میں سے ہر ایک کے کچھ بچے ہیں یعنی انسانوں میں کچھ وہ ہیں جو دنیا سے ایسی وابستگی رکھتے ہیں، جیسی وابستگی بچوں کو اپنی ماں سے ہوتی ہے اور کچھ وہ ہیں جن کی ایسی ہی وابستگی اور رغبت بہ جائے دنیا کے آخرت سے ہے۔
پس اے لوگو! اگر تم کر سکو تو ایسا کرو کہ دنیا سے چمٹنے والے اس کے بچے نہ ہو (بلکہ اس دنیا کو دارالعمل سمجھو) تم اس وقت دارالعمل میں ہو، (یہاں تمہیں صرف محنت اور کمائی کرنی ہے) اور یہاں حساب اور جزا سزا نہیں ہے اور کل تم یہاں سے کوچ کر کے دارِ آخرت میں پہنچ جانے والے ہو اور وہاں کوئی عمل نہ ہو گا (بلکہ یہاں کے اعمال کا حساب ہو گا اور ہر شخص اپنے کیے کا بدلہ پائے گا)۔''
(بیہقی فی شعب الایمان)
رسول ﷲ ﷺ نے اس حدیث میں امت کے بارے میں دو بڑی بیماریوں کا خوف اور خطرہ ظاہر فرمایا ہے اور امت کو ان سے ڈرایا اور خبردار کیا ہے۔ ایک ھوی اور دوسرا طُوْلِ اَمَلْ۔ غور سے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہی دو بیماریوں نے امت کے بہت بڑے حصے کو برباد کیا ہے۔
جن لوگوں میں خیالات اور نظریات کی گم راہیاں ہیں وہ ھوی کے مریض ہیں اور جن کے اعمال خراب ہیں وہ طول امل اور حب دنیا کے مرض میں گرفتار اور آخرت کی فکر اور تیاری سے غافل ہیں۔
جس کا علاج یہی ہے جو حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے حدیث کے آخر میں بیان فرمایا۔ یعنی ان کے دلوں میں یہ یقین پیدا ہو کہ یہ دنیوی زندگی فانی اور صرف چند روزہ ہے اور آخرت ہی کی زندگی اصل زندگی ہے اور وہی ہمارا اصل مقام ہے۔ جب یہ یقین دلوں میں پیدا ہو جائے گا تو خیالات اور اعمال دونوں کی اصلاح آسان ہو جائے گی۔
انسان کی سب سے بڑی بدبختی اور سیکڑوں قسم کی بدکاریوں کی جڑ بنیاد یہ ہے کہ وہ ﷲ تعالیٰ کے احکام اور آخرت کے انجام سے بے فکر اور بے پروا ہو کر زندگی گزارے اور اپنی نفسانی خواہشات اور اس دنیا کی فانی لذتوں کو اپنا مقصد اور مطمع نظر بنا لے۔
اور یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے وہ آنکھوں کے سامنے ہے اور ﷲ تعالیٰ اور آخرت آنکھوں سے اوجھل ہیں اس لیے انسانوں کو اس بربادی سے بچانے کا راستہ یہی ہے کہ ان کے سامنے دنیا کی بے حقیقی اور بے قیمتی کو اور آخرت کی اہمیت اور برتری کو قوت کے ساتھ پیش کیا جائے اور قیامت میں ﷲ تعالیٰ کے سامنے پیشی اور اعمال کی جزا و سزا کا اور جنت و دوزخ کے ثواب و عذاب کا یقین ان کے دلوں میں اتارنے کی کوشش کی جائے۔
حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے اس خطبہ کا حاصل اور خلاصہ یہی ہے اور جیسا کہ عرض کیا گیا آپ کے اکثر خطبات اور مواعظ میں یہی بنیادی مضمون ہوتا تھا۔
یہ بات بڑی خطرناک اور بہت تشویش ناک ہے کہ دینی دعوت اور دینی وعظ و نصیحت میں دنیا کی بے ثباتی اور بے حقیقی اور آخرت کی اہمیت کا بیان اور جنت و دوزخ کا تذکرہ جس طرح اور جس ایمان و یقین اور قوت کے ساتھ ہونا چاہیے ہمارے اس زمانے میں اس کا رواج بہت کم ہو گیا ہے۔
گویا نہیں رہا ہے اور دین کی تبلیغ و دعوت میں بھی اس طرح کی باتیں کرنے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے جس قسم کی باتیں مادی تحریکوں اور دنیوی نظاموں کی دعوت و تبلیغ میں کی جاتی ہیں۔ ﷲ رب العزت ہم سب کی ان خوف ناک بیماریوں سے حفاظت فرمائے۔ آمین