بھِیگتے دیوتا
ساری دنیا سے لوگ خاص کر ہندو ان کی خریداری میں دلچسپی دکھاتے ہیں
کچھ عرصہ قبل ایک بین الاقوامی کانفرنس میں پاکستان کی نمایندگی کرنے کے لیے انڈونیشیا کے مشہور جزیرے بالی جانے کا اتفاق ہوا۔ انڈونیشیا 17500جزائر پر مشتمل ہے۔ جاوا اور سماٹرا سب سے بڑے جزائر ہیں لیکن بالی کو خصوصی شہرت حاصل ہے۔
انڈونیشیا کے جزیرے بالی کا رقبہ 5780مربع کلو میٹر ہے اور اس کی آبادی 42 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس جزیرے کی تقریباً 83فی صد آبادی ہندو ہے۔ہندو مت یہاں پہلی صدی عیسوی میں آیا۔چودھویں صدی کے لگ بھگ یہاں اسلام پہنچا۔ عیسائیت یہاں 15ویںصدی میں متعارف ہوئی۔
میرا دو مرتبہ انڈونیشیا جانا ہوا۔پہلی مرتبہ پشاور میںنیپا کورس کے دوران سنگاپور اور انڈونیشیا کا سفر ہوا۔اس وقت نیپا پشاور کے ڈائریکٹر جناب عبداﷲ صاحب تھے جو فیڈرل سیکریٹری کے طور پر ریٹائر ہونے کے بعد خیبر پختون خوا پبلک سروس کمیشن کے سربراہ رہے۔ انڈونیشیا میں اس وقت ان کے کورس میٹ جناب طیب صاحب سفیر پاکستان تھے۔
اس لیے ہمارے فارن مطالعاتی دورے کے لیے سنگاپور اور انڈونیشیا کو چنا گیا۔ بالی کے قدرتی حسن کا ہم سب نے بہت سن رکھا تھا اور ہر شریکِ کورس یہ چاہتا تھا کہ انڈونیشیا آئے ہیں تو بالی کا بھی چکر لگنا چاہیے لیکن پروگرام میں صرف جکارتہ اور اس کے گرد و نواح کے علاقے ہی شامل تھے۔
جکارتہ سے بالی جانے کے لیے بحری جہاز پر بہت وقت درکار تھا اور ہوائی ٹکٹ کی شاید گنجائش نہیں تھی لیکن سب سے بڑھ کر جناب عبدﷲ کے مذہبی رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے کسی کو بھی یہ ہمت نہ ہوئی کہ ڈائریکٹر صاحب سے یہ موضوع چھیڑے اس لیے انڈونیشیا کے پہلے وزٹ کے دوران جزیرہ بالی دیکھنے کی حسرت دل ہی میں رہ گئی۔
اوپر جس بین الاقوامی کانفرنس کا ذکر آیا ہے اس کے لیے بنکاک سے تھائی ایئر ویز کی فلائٹ لے کر بالی کے انٹرنیشنل ہوائی اڈے نگو رائے پہنچے۔ میں نے زندگی میں دو جگہوں پر جہاز کو لینڈ کرتے ہوئے بہت انجوائے کیا ہے۔
ایک بیروت ایئرپورٹ، پچھلی دوپہر بیروت ایئر پورٹ پر اترتے ہوئے سورج کی کرنوں سے سمندر اس طرح جگمگا رہا تھا کہ بلاشبہ یہ ایک دیو مالائی منظر تھا۔
دوسری بار بالی کے جزیرے پر جہاز اتر رہا تھا تو پائلٹ نے شاید جان بوجھ کر جہاز کو سمندر سے ذرا ہی اوپر رکھا ہوا تھا لیکن جہاز کی کھڑکیوں سے باہر دیکھتے ہوئے ایسا لگتا تھا کہ جہاز سمندر کے نیلگوں پانیوں پر تیر رہا ہے۔
ایئر پورٹ پر پاسپورٹ چیک اپ کے لیے گئے تو جو چند افراد آگے تھے وہ جلد ہی فارغ ہو گئے لیکن میری باری آئی تو دیر ہوتی گئی اور پھر مجھے کہا گیا کہ آپ تھوڑی دیر کے لیے ساتھ والے کمرے میں انتظار کریں۔ میں نے وجہ پوچھی تو میرا نیلا سرکاری پاسپورٹ میرے سامنے لہرایا گیا ۔اسی فلائٹ میں ایک گرین پاسپورٹ والے پاکستانی کی جلدی ہی خلاصی ہو گئی تو سمجھ آئی کہ نیلا سرکاری پاسپورٹ میرے لیے مشکل پیدا کر رہا ہے۔
میرے ایک محترم ساتھی جناب وسیم ظفر صاحب پہلے سے بالی میں موجود تھے اور کمال مہربانی سے مجھے لینے ہوائی اڈے آئے ہوئے تھے۔جب دیر ہونے لگی تو انھوں نے بتایا کہ یہاں نیلے پاسپورٹ کی جانچ پڑتال زیادہ ہوتی ہے۔خیر آدھے گھنٹے انتظار کے بعد امیگریشن ہو گئی اور ہم عازمِ ہوٹل ہوئے۔
جزیرہ بالی سیاحوں کی جنت اور ایک پسندیدہ منزل ہے۔یہاں کا موسم ٹراپیکل ہے اس لیے سارا سال گہما گہمی رہتی ہے۔ جزیرے پر فائیو اسٹار ہوٹل سے لے کر چھوٹے بڑے ہر قسم کے ہوٹلز ہیں۔ جناب وسیم ظفر صاحب نے بتایا کہ انھوں نے عین ساحل پر ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں میری بکنگ کی ہوئی ہے ۔ہوٹل کے اخراجات ہر شریکِ کانفرنس کو خود ادا کرنے تھے۔خیر ہوٹل پہنچے تو تو پتہ چلا کہ مطلوبہ کمرہ خالی ہونے پر چار گھنٹے بعد ملے گا۔
سامان ہوٹل میں رکھوا کر کانفرنس ہال پہنچے اور پاکستان کی نمایندگی کی۔ ہوٹل واپس آ کر کمرہ لیا۔ کانفرنس میں بتایا گیا تھا کہ اگلے دن وہ تمام شرکاء جو جزیرہ بالی کی سیر کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے کوسٹرز کانفرنس ہال سے صبح 9بجے چلیں گی ۔لمبے سفر کے بعد خوب سوئے اور صبح صبح تازہ دم ہو کر کانفرنس ہال پہنچ گئے۔
کوسٹرز پہلے سے لگی ہوئی تھیں۔چالیس منٹ کی مسافت طے کر کے جزیرہ بالی کی شاید سب سے بڑی جھیل Kintamani پہنچ گئے۔ شرکائے کانفرنس گاڑیوں سے اتر کر کشتیوں میں بیٹھنے لگے۔ہر کشتی میں آٹھ سے دس افراد سوار ہوئے۔سب کو لائف جیکٹس مہیا کی گئیں۔کشتی میں سوار ہو کر ہمیں جھیل کنارے Temple of deadلے جایا گیا۔
وہاں کی آبادی اپنے مُردوں کو اس جگہ چھوڑ جاتی ہے اور مردہ جسم آہستہ آہستہ گل سڑ کر مٹی میں مل جاتا ہے۔
کتنامانی جھیل دو پہاڑیوں کے درمیان واقع ہے۔ ایک طرف آتش فشاں پہاڑی باتور ہے جس کا لاوہ جھیل کے کنارے دیکھا جا سکتا ہے۔دوسری پہاڑ ی ابانگ کہلاتی ہے۔ ماہرینِ ارضیات کا خیال ہے کہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان اس جگہ پر شہابِ ثاقب گرا جس سے یہ گہری جھیل بن گئی۔
کشتی میں جھیل کی چار ساڑھے چار گھنٹے سیر کے بعد واپسی کے لیے دوبارہ کوسٹرز میں بیٹھ گئے۔ پروگرام تو سیدھا واپسی کا تھا لیکن راستے میں پروگرام میں ذرا سی تبدیلی ہوئی اور اب ہم ایک ایسے اسٹور پر جا رہے تھے جہاں لکڑی سے بنی اشیاء سیل کے لیے خوبصورتی سے سجائی گئی تھیں۔
ابھی ہم اسٹور کے باہر پہنچے ہی تھے کہ زور دار بارش شروع ہو گئی۔ہم کوسٹر سے دیکھ رہے تھے کہ اسٹور کا سارا عملہ بھاگم بھاگ باہر نکل کر ہندو دیوتاؤں کے تراشیدہ بتوں کو اُٹھا کر ایک شیڈ کے نیچے پہنچا رہا تھا۔یہ بت تو لکڑی کے بنے ہوئے تھے لیکن ان پر کی ہوئی بہت بڑھیا پالش،کاریگروں کی کاریگری اور نقش و نگار نے انھیں بہت قیمتی بنا دیا تھا۔
ساری دنیا سے لوگ خاص کر ہندو ان کی خریداری میں دلچسپی دکھاتے ہیں اسی لیے ان کو بارش میں خراب ہونے سے بچانے کے لیے شیڈ کے نیچے پہنچایا جا رہا تھا۔کئی بڑے بُت تو خاصے بھیگ گئے تھے۔
اس افراتفری کو دیکھ کر پہلے تو بہت ہنسی آئی کہ یہ بت جو اپنے آپ کو بارش سے نہیں بچا سکتے اور بکنے کے لیے پڑے ہیں ، کل کلاں کسی مندر کی زینت بنیں گے اور پجاری ان کے آگے سجدہ ریز ہو کر ان سے اپنی حاجتیں پوری ہونے کی تمنا کریں گے۔
تراشیدہ دیوتاؤں کی اس بے بسی کو دیکھ کر پہلے تو بہت ہنسی آئی لیکن فوراً ہی خیال آیا کہ عقل اور وحی کی روشنی کے بغیر انسان کتنا گر جاتا ہے۔اپنے ہاتھوں سے اپنے دیوتا تراشتا ہے اور پھر ان بے بس بتوں کے سامنے سربسجود ہوتا ہے۔عقل والوں کے لیے اس میں بڑی نشانیاں ہیں۔