دنیا کی آدھی دولت

رپورٹ کے مطابق 2010 کے بعد دنیا کے امیر کبیر افراد کی دولت میں 44 فیصد اضافہ ہوا

دنیا کی آدھی دولت صرف 62 لوگوں کے ہاتھ میں ہے، آج دنیا کی آبادی آٹھ ارب 45 کروڑ ہے۔ بین الاقوامی امدادی تنظیم اوکسفیم کی دنیا میں پائی جانے والی مالیاتی عدم مساوات اور امیر اور غریب کے درمیان پیدا خلیج پر مبنی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل آبادی کے پاس اُتنی دولت نہیں ہے، جتنی اِسی زمین کے باسٹھ افراد کے پاس ہے، جنہیں انتہائی امیر کبیر قرار دیا گیا ہے۔

ان کے پاس دنیا کی کل دولت کا نصف ہے۔ ان انتہائی امیر کبیر افراد میں سے تقریباً نصف کا تعلق امریکا سے ہے جب کہ سترہ رؤسا یورپی براعظم میں رہتے ہیں۔ بقیہ انتہائی مالدار افراد کا تعلق چین، برازیل، میکسیکو، جاپان اور سعودی عرب سے ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2010 کے بعد دنیا کے امیر کبیر افراد کی دولت میں 44 فیصد اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب دنیا بھر کی کل آبادی کی غربت میں اکتالیس فیصد بڑھی ہے۔

اوکسفیم ہی کی رپورٹ کے مطابق کورونا وبا کے نتیجے میں 2022 میں ہر 30 گھنٹے میں ایک نیا ارب پتی پیدا ہورہا تھاتو اسی عرصے میں 10 لاکھ افراد خط غربت سے نیچے گررہے تھے،چونکہ ضروری اشیا کی قیمت کئی دہائیوں کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے، خوراک اور توانائی کے شعبوں میں ارب پتی افراد ہر دو دن میں اپنی دولت میں ایک ارب ڈالر کا اضافہ کر رہے ہیں۔

کسی زمانے میں امیراورغریب ایک دوسرے کے ہمسائے میں رہتے تھے اور شاید ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک بھی ہوتے تھے۔لاہور اور دہلی کے کوچے اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔لیکن اب یہ ہوگیا ہے کہ۔

زردار گھر بناتے ہیں محروم سے الگ

حاکم کی قبر ہوتی ہے محکوم سے الگ

طبقاتی فرق کی بنیاد مال و دولت کیساتھ رہائشی علاقے بھی ہوگئے ہیں،کراچی،اسلام آباد ، لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں پوش علاقے اور شاندار ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں ۔ لیکن یہ سب اب ایک حد تک مال دار لوگوں کی نشاندہی کرتی ہیں، اب اسلام آباد لاہور اور کراچی میں فارم ہاؤسزجوایکڑوں پر پھیلے ہوئے ہوتے ہیں وہ مال داروں کو غریبوں سے مزید دور کرتے ہیں۔

ان مال داروں کے بچوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ ان سے کہا جائے کہ غریب پر مضمون لکھوتو وہ لکھتے ہیں کہ ''ایک آدمی تھا وہ بہت غریب تھا یہاں تک کہ اس کا ڈرائیور بھی غریب تھا ،اس کا کک بھی غریب تھااور اس کا گارڈ بھی غریب تھا۔''ان امراء کو ہر سہولت حاصل ہے گرمی ہے تو ایئر کنڈیشنڈ انھیں ٹھنڈا ماحول فراہم کررہا ہے،سردی ہے تو ہیٹر گرمی پہنچا رہا ہے۔

دوسری جانب گرمیوں میں غریب پسینہ پسینہ ہورہا ہے اور سردیوں میں غریب کا کیا حال ہوتا ہے وہ اس شعر میں اچھی طرح بتا دیا گیا ہے کہ

جب چلی ٹھنڈی ہوا بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا


ماں نے اپنے لال کی تختی جلا دی رات کو

(سبط علی صبا)

عالمی غربت انڈیکس میں پاکستان 116 ممالک میں 92 ویں نمبر پر ہے،شرح غربت دوبارہ بڑھ کر 35.7 فیصد ہو گئی، پاکستان میں خوراک کی قیمتوں میں 31.20 فیصد اضافہ ہوا۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کرنا چاہیے کیونکہ یہ گزشتہ چند سالوں سے ملک میں غذائی تحفظ کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے کہا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ سال سیلاب کی تباہ کاریوں سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے جس کے باعث مزید 90 لاکھ افراد کے غربت کی سطح میں جانے کا خدشہ ہے۔

جنیوا میں اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کے مستقل نمایندہ خلیل ہاشمی نے کہا کہ سیلاب کے باعث 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے جن میں سے تقریباً 80 لاکھ اب تک بے گھر ہیں کیونکہ بعض علاقوں میں سیلاب کا پانی اب بھی کم نہیں ہوا، اس وقت متاثرین کی سب سے اہم ضرورت رہائش، زراعت اور ذریعہ معاش ہے۔

عالمی بینک کی چھ اکتوبر 2022کو جاری کی گئی اس رپورٹ کا عنوان ''پاکستان ڈویلپمنٹ اپڈیٹ 2022 ''ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022 ء میں پاکستان میں شرح نمودو فیصد رہے گی، جو سال 2024 میں3.2 فیصد ہو جائے گی جب کہ مہنگائی کی شرح میں ممکنہ طور پر23 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سالانہ بنیادوں پر 2022 میں تجارتی خسارہ اپنی بلند ترین سطح پر تقریباً 44.8 بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔

کئی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ خسارہ مزید بڑھے گا کیونکہ پاکستان میں نو ملین ایکٹرز سے زیادہ زرعی رقبہ سیلابوں کی وجہ سے برباد ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے چاول، گندم، کپاس اور کئی دوسری فصلوں کی درآمدات بڑھیں گی۔پاکستان میں متمول طبقہ ایک اندازے کیمطابق اپنی آمدن کا تقریباً 20 سے 30 فیصد حصہ خوراک پر خرچ کرتا ہے لیکن نچلے متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی آمدن کا 70 سے 80 فیصد حصہ خوراک پر ہی خرچ کرتی ہے۔

2018 میں پاکستان کی آبادی کی 31.3 فیصد تعداد یعنی تقریباً سات کروڑ غربت کی لکیر کے نیچے رہنے پر مجبور تھی۔

2020 میں یہ تعداد بڑھ کر 40 فیصد یعنی آٹھ کروڑ 70 لاکھ کے قریب پہنچ گئی۔کورونا وبا کی وجہ سے بے روزگاری اور غربت میں مزید اضافہ ہوا ہے اور 2021 کے اعداد وشمار مزید تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔ ان مایوس کن اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں غربت کی شرح 31.4 فیصد، سندھ میں 45 فیصد، خیبر پختونخوا میں 49 فیصد اور بلوچستان میں خوفناک 71 فیصد ہے۔ عالمی بینک کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کی 80 فیصد غریب آبادی دیہاتوں میں بستی ہے۔

پاکستان میں متمول طبقہ ایک اندازے کیمطابق اپنی آمدن کا تقریباً 20 سے 30 فیصد حصہ خوراک پر خرچ کرتا ہے لیکن نچلے متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی آمدن کا 70 سے 80 فیصد حصہ خوراک پر ہی خرچ کرتی ہے۔اس لیے اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافے نے اس طبقے کو بری طرح متاثر کیا ہے اور بیشتر کو مزید غربت کی طرف دھکیل دیا ہے۔

ماہرین معاشیات کے خیال میں صرف پچھلے دو سالوں کی افراط زر کی وجہ سے تقریباً 40 لاکھ نئے افرادغربت کا شکار بنے ہیں۔ ہمارا ٹیکس کا نظام غریبوں پر ٹیکس کا بوجھ امیروں سے زیادہ ڈالتا ہے۔ ایک تحقیق کیمطابق ہمارے 80 فیصد سے زیادہ ٹیکسوں کی وصولی درمیانے اور غریب طبقے سے بجلی، گیس، موبائل فون، پیٹرول اور عام استعمال کی دیگر اشیا پر عائد ٹیکسوں سے حاصل کی جاتی ہے جب کہ امیر ترین طبقہ صرف 5 فیصد کے قریب ٹیکسوں کی صورت میں ادائیگی کرتا ہے۔

اس غیر منصفانہ نظام میں اصلاحات، جن میں غریبوں پر ٹیکسوں میں کمی شامل ہو، سے غربت میں کمی لائی جاسکتی ہے اور کم آمدنی والے لوگوں کے لیے زندگی بہتر بنانے کے لیے مالی وسائل مہیا کیے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story