شہنشاہِ رُباعی راغب مُراد آبادی
بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان سے آپ نے فارسی پڑھی
راغب مراد آبادی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کا شمار دنیائے سخن کے اُستاد الشعراء کی صفِ اول میں ہوتا ہے۔
ان کی فنی پختگی، شعری ہمہ جہتی، علمی فہم و فراست اور جذبہ خدمت الناس کو ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ ان کا پیدائشی نام اصغر حسین جب کہ قلمی نام راغب مُرادآبادی تھا۔ ان کو شہنشاہِ رُباعی کہنا غلط نہ ہو گا۔
راغب مُراد آبادی کی پہچان ان کی رباعیات ہیں۔ ان کی شاعری کے حوالے سے اُستاد الشعراء سیماب اکبر آبادی لکھتے ہیں کہ ''راغب نے اپنے عقائد ملی کے اظہار میں جس دلیری، جرات اور بے خوفی سے کام لیا وہ یقینا قابلِ داد ہے۔
مجھے یقین ہے کہ ''عزم و ایثار'' میں ماندہ اور معرض فنا میں آ جانے والی قوم کے آبِ حیات کا کام دے گا اور ان نظموں کے مطالعے سے مردہ احساسات میں نئی روح پیدا ہو جائے گی۔''
راغب مراد آبادی کے تقریباً چالیس مجموعہ کلام شائع ہو چکے ہیں جس میں حمدو نعت، غزلیں، نظمیں اور پنجابی شاعری کے علاوہ نثر کی کتب بھی شامل ہیں۔
ان کی شاعری پر لاتعداد مقالہ جات لکھے جا سکتے ہیں۔ ان کی ایک مکمل کتاب '' مدحتِ خیرالبشر '' کے نام سے غالب کی زمینوں پر ہے جب کہ ان کے شعری سفر کی مکمل جان کاری کے لیے '' رگِ گفتار'' کا مطالعہ انتہائی ضروری ہو گا۔
انھوں نے اپنی کتب ، اپنے اشعار اور تحریروں کو عبادت سمجھا، انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے سماجی، معاشی مسائل اور عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور کراچی کے غمگیر حالات کو اس طرح بیان کیا۔
کش مکش حیات نے عصمت خاک لوٹ لی
نوعِ بشر کے خون میں کب سے ہے تر مری زمین
راغب مُراد آبادی ایک احساس دل اور خوش گوار ذہن کے مالک ہونے کیساتھ ساتھ اخلاص و محبت، انکساری و عاجزی کا نمونہ تھے۔ انھوں نے ادب میں جن شخصیات سے استفادہ کیا اُن میں مولانا صفیؔ لکھنوی، سید علی اخترؔ اور یگانہؔ چنگیزی کے نام نمایاں ہیں۔
بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان سے آپ نے فارسی پڑھی۔ اس طرح وہ فارسی میں آپ کے اُستاد ہوئے۔ عروضی قواعد کے حوالے سے جس شخصیت نے ان کی رہنمائی کی اُن میں مرزا خادمؔ ہوشیار پوری تھے اور اسی فہرست میں سیماب اکبر آبادی کا نام بھی شامل ہیں۔
راغب صاحب اپنی ذات میں ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے۔ رباعی پر راغب صاحب کی گرفت جس قدر ہے اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔
چار مصرعوں میں بات کہہ کے ماحول کو حیرت زدہ کرنے کا فن خوب جانتے تھے۔ ان کی رباعیات میں ان کے عہد کی تاریخ رقم ہے۔
انھوں نے اپنی شاعری میں تاریخ نویسی اور شواہد و واقعات کو تحریر کیا۔ وہ انسانی شعور، ادب دوستی، تہذیب و تمدن اور سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھتے۔ رباعی کا اعتراف کرتے ہوئے کسی نے ان کی شاعری کی بابت کیا خوب کہا ہے کہ:
راغب کے یہاں عام نظر آتی ہیں
ترکیبیں نہیں ہوتیں جو سیدھی سادھی
یوں کہیے کہ راغب کی غزل میں اکثر
آتے ہیں نظر جوش ملیح آبادی
راغب مراد آبادی نے اُردو ادب کی خدمت کے لیے بھرپور کام کیا اور اس دوران انھوں نے لاتعداد بڑے شعراء کی تربیت بھی کی جن میں حبیب جالب اور ان ہی کے بھائی مشتاق مبارک ، جگدیشؔ بھٹناگر حیات ، ع س مسلم، نجمہ خان ، چوہدری خلیق الزماں کی بیگم زاہدہ خلیق الزماں، خارجہ سیکریٹری اکرم ذکی ، مامون ایمن ، عطاء الحق قاسمی کے بھائی مزاح نگار ضیاء الحق قاسمی، عارف شفیق، اکرمؔ کنجاہی ، ڈاکٹر سردار سوز ودیگرشامل ہیں۔
اُنہیں دولت کبھی خود اعتمادی کی نہیں ملتی
جو آنکھیں بند کر کے راہ بر کے ساتھ چلتے ہیں
ان کے اشعار میں مستقبل کے حوالے سے ایک خوشگوار رجائیت ملتی ہیں۔ ان کی دیگر تخلیقات میں ''آزادی''، اور ''ہمارا کشمیر'' بھی ایسے دور میں سامنے آئیں۔
راغب صاحب کشمیر میں ہونے والے مظالم کو کھلی آنکھوں سے انسانیت کو پامال ، کشتہ غم دیکھتے ہیں تو کہہ اُٹھتے ہیں۔
ہم مرد مجاہد کہیں خاموش رہیں گے
سینے پہ حریفوں کا ہر اک وار سہیں گے
کراچی کے ممتاز مرثیہ گو شعراء میں راغب مراد آبادی کا نام بھی نمایاں تھا، ان کے مرثیوں میں جوشؔ ملیح آبادی کے جدید مرثیوں کا رنگ غالب تھا۔
راغب صاحب نے مرثیے سے زیادہ سلام کہے جب کہ ان کی نعت گوئی پر نظر ڈالیں تو ڈاکٹر انور سدید ان کی نعت نگاری کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ '' راغب مراد آبادی کا شمار ان شعراء میں ہوتا ہے۔
جنہوں نے تازہ لہجے کی غزلیں کہنے میں انفرادیت پیدا کی ہے، لیکن جب نعت کہنے کا فریضہ سرانجام دیا تو نعت کے محبوبِ ربانی پر غزل کے خیالی محبوب کا پر تو نہیں پڑنے دیا۔ یوں نعت نگاری راغبؔ کے فنی سفر کا ایک پڑاؤ نہیں بلکہ یہ ان کے جنون شوق اور عشق و مستی کی آخری منزل ہے اور اُن کے اظہار فن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کے آگے ادب کی ساری حدوں کو سرنگوں سمجھتے ہیں۔''
راغب مراد آبادی کے ادبی کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے جن سے اہلِ علم و دانش بخوبی واقف ہیں۔ ان کے تمام ادبی کارناموں سے آگاہی کے لیے ان کے شاگردِ رشید اکرم کنجاہی کی کتاب ''راغب مراد آبادی ( چند جہتیں) کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ان کی سخن گوئی کی رفتار بہت تیز تھی وہ چائے کی پیالی ختم ہوتے ہی نظم تیار ہو جاتی۔ '' راغب مراد آبادی کی چند جہتیں'' جس میں اکرم کنجاہی لکھتے ہیں کہ '' راغب مراد آبادی شاعری کا شالا مار باغ ہیں۔ جس کے کئی تختے ہیں۔
کسی پر رباعیات کے گل ہائے رنگ رنگ ذوق ِ سلیم کی تسکین کا سامان کرتے ہیں، کسی پر بدیہہ گوئی کے فوارے پھوٹتے دکھائی دیتے ہیں۔
زود گو طبیعت کی جولانی اور روانی کا سبزہ نورُستہ ہر سمت بچھا ہوا ہے کہیں فن کی پختہ راہداریاں تو کہیں غزلیات کی بارہ دریاں حسن تعمیر کا نمونہ بنی ہوئی ہیں۔ کسی پر اشجار نعت کی برکتیں سایہ کیے ہوئے ہیں اور شیریں ثمر اشعار کی صورت میں بانٹ رہی ہیں۔''
بے شمار ادبی کارنامے سر انجام دینے والے راغب مرادآبادی 27 مارچ 1918 کو بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کے شہر کراچی میں سکونت اختیار کی۔
ادب کے علاوہ دیگر صحافتی اداروں سے بھی منسلک رہے جن میں برصغیر کی تقسیم سے قبل اردو روزنامہ ''منشور'' دہلی میں ممتاز صحافی سید حسن ریاض مرحوم کی سرپرستی میں کام کیا۔ تحدید آبادی کے مسئلے پر 1967 سے 1969 تک ایک روزنامہ میں کالم لکھتے رہے۔
ماہنامہ ''سفینہ'' کے آٹھ سال تک نگران و قلم کار رہے۔ جس کے جوشؔ ملیح آبادی سرپرست تھے۔ اس کے علاوہ بھی وہ دیگر رسائل کے مدیر و سرپرست رہے۔
ادبی ، صحافتی خدمات پر انھیں صدرِ پاکستان رفیق تارڑ مرحوم کے ہاتھوں ''پرائیڈآف پرفارمنس'' کے اعزاز سے نوازا گیا۔ شعروادب میں نئی راہیں نکالنے والے ، کئی دلوں میں علم کے چراغ روشن کرنے والے راغب مراد آبادی طویل جدوجہد کے بعد 18 جنوری 2011 کو خالقِ حقیقی سے جاملے۔ ان کے اس شعر کے بقول اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ:
یہ میری خدمت فن رائیگاں نہ جائے گی
زمانہ یاد کرے گا مرے ہنر سے مجھے