سارا قصور آئی ایم ایف کا ہے

آئی ایم ایف سے اس قدر"بے تکلفی" سے قرض کا تقاضا کرنے میں سبھی سیاسی اور غیر سیاسی حکومتوں کا ریکارڈ ملتا جلتا رہا ہے

فرض کریں آج ہی کوئی اجنبی پاکستان میں وارد ہوتا ہے تو اسے میڈیا سے پاکستان کے معاشی حالات کا پتہ چلتا ہے کہ اس ملک پر آئی ایم ایف نام کی کسی بلا کا سایہ ہے جس کے سبب ملک میں حرکت تو تیز تر ہے مگر برکت ندارد ہے، ملک میں معیشت معیشت کی مالا تو بہت جپی جا رہی ہے لیکن اکنامک گروتھ کا سفر ہے کہ منفی اشاریوں کی طرف لڑھکنے سے باز ہی نہیں آتا۔

اسے معلوم ہوتا ہے کہ "پچھلی حکومت" نے آئی ایم ایف کے حضور کچھ وعدے وعید کیے تھے لیکن واپس آ کر مملکت اور سیاست کے بکھیڑوں میں الجھ کر وہ وعدے یاد نہ رہے اور جو یاد رہے ان پر عمل درآمد کا حساب کتاب لگایا تو سیاسی خسارہ ہی حاصل حساب ٹھہرا۔ اسی ادھیڑ بن میں معیشت مزید ادھڑتی رہی۔

آئی ایم ایف ایک عالمی مہاجن ادارہ ہے۔ دارالمقام جس کا واشنگٹن میں پایا جاتا ہے۔ سلسلہ نسب اس کا ورلڈ آرڈر سے جا ملتا ہے جس پر اس کے امریکی اور یورپی برادران کی کامل گرفت ہے۔ دہشت اور اثرو رسوخ اس قدر کہ بڑے بڑے ملک اور مالی ادارے کسی بھی ملک کو امداد دینے سے قبل اس کی جبیں کے ناز دیکھتے ہیں۔

جبیں شکن آلود ہو تو دوستانے کے باوجود پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور ضرورت مند دوست ملک سے ان کی جبین ناز کو آسودہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

اجنبی اگر یہ کھوج لگانے کی کوشش کرے کہ آئی ایم ایف کی بزم ناز میں پاکستان کے ساتھ یہ سلوک کیوں؟ بائیس کروڑ کی آبادی ہے، ایٹمی طاقت رکھتا ہے، دنیا داری میں بڑی طاقتوں کے ہمیشہ ساتھ کھڑا ہوا گو اس میں اکثر اپنا ہی نقصان ہوا، بلکہ تعاون پر اس قدر کشادہ دل اور مستعد کہ پرائی لڑائیاں بھی گھر لانے سے گریز نہیں کرتا۔ بڑی طاقتیں کوئی ایک بھی واقعہ بتائیں کہ انھوں نے آواز دی اور اس پر لبیک کہنے میں کوتاہی کی ہو۔ غرض ایک ایسا ملک جس کے بارے میں شاعر بھی حلفیہ کہہ چکا کہ؛

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

اس عالمی مہاجن کی پاکستان کے ساتھ بے اعتنائی بلکہ ترش رویہ کیوں؟ دنیا میں تین ممالک ہی ایسے ہیں جنھوں نے آئی ایم ایف کا راستہ یوں یاد رکھا ہے کہ آنکھ بند کرکے بھی چلیں تو سیدھا اس کے دفتر پہنچتے ہیں۔

1958 سے لے کر اب تک 23 بار آئی ایم ایف سے قرض پروگرام منظور کروا چکے ہیں جس میں صرف ایک پروگرام اپنی طبعی تکمیل کو پہنچا، باقی سب پروگرام راستے میں خجل خوار ہو کر رزق راہ ہوئے۔ معروف اکونومسٹ ثاقب شیرانی کے حساب کتاب کے مطابق پاکستان اوسطا" ہر تیسرے سال ایک قرض پروگرام کا طالب ہوا۔

آئی ایم ایف سے اس قدر"بے تکلفی" سے قرض کا تقاضا کرنے میں سبھی سیاسی اور غیر سیاسی حکومتوں کا ریکارڈ ملتا جلتا رہا ہے۔ ن لیگ چار بار، پی پی پی چھ بار، پرویز مشرف دو بار اور پی ٹی آئی حکومت ایک بار اس کوچے کے مسافر ہوئے۔

اب تو یہ عالم ہے کہ پاکستان کی معاشی ٹیم میں سلیکشن کی بنیادی اہلیت یہ سمجھی جاتی ہے کہ موصوف ملک کے مسائل سے شناسا ہوں نہ ہوں آئی ایم ایف کی غلام گردشوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔اجنبی کو یہ کھوج لگانے میں زیادہ دقت نہیں ہو گی کہ پاکستان اپنی لاپرواہی اور تن آسانی کے سبب اپنی معیشت درست کرنے کے مشکل راستے سے گریزاں ہے کہ بقول شاعر ؛

اس میں لگتی ہے محنت زیادہ


جب کہ قرض پروگرام اور اسے شاہانہ خرچ کرنے میں ایسی مشکلات نہیں۔

حالیہ چار دہائیوں میں ملکوں نے بذریعہ ایکسپورٹ غیر معمولی ترقی کی لیکن پاکستان نے یہ مشکل اور مسابقتی راستہ چھوڑ یا یا شاید دل کو یہ طریقہ بھایا نہیں۔

بیس سال قبل پاکستان کی ایکسپورٹس جی ڈی پی کا تناسب 14 فی صد تھا جو گرتے گرتے دو سال قبل آدھا رہ گیا یعنی فقط 7فی صد رہ گیا۔ پچھلے دو سال کے دوران البتہ اس تناسب میں قدرے بہتری ہوئی مگر دس فیصد سے ابھی بھی نیچے ہے۔ دنیا سے موازنہ کریں تو عالم ہی کچھ اور ہے، بھارت میں یہ تناسب 21 فی صد ، ملائیشیا میں 69 فی صد اور ترکی میں 35 فی صد ہے۔

دنیا کے برعکس پاکستان درآمدات بڑھانے کے لیے پریشان ہیں۔ کہاں بیس سال قبل ایک سو ڈالر ایکسپورٹ کے مقابلے میں درآمدات 150 کے لگ بھگ تھیں جو اب 250 سے بھی زائد ہیں۔

اجنبی کو کچھ ہی پرکھ پرچول پر پتہ چل جائے گا کہ شہروں کی بڑی شاپنگ مالز میں صابن شیمپو سے لے کتوں کی خوراک تک امپورٹڈ بہ آسانی دستیاب ہے۔ خریداروں کا رش کم ہونے کا نام نہیں لیتا، اسی لیے نئی سے نئی اور بڑی شاپنگ مالز کھل رہی ہیں لیکن دوسری طرف خزانے میں انکم ٹیکس دینے والوں کی تعداد وہیں کی وہیں ہے۔

اس قدر ٹیکس فری کلچر ہے کہ ٹیکس جی ڈی تناسب بمشکل دس فیصد بھی نہیں۔ بلیک اکونومی کا حجم دستاویزی اکونومی سے کہیں زائد ہے۔ ایک تخمینہ ہے کہ جی ڈی پی کا ساٹھ فی صد سے زائد بلیک اکونومی پر مشتمل ہے۔

اجنبی کو زیادہ تردد نہیں کرنا پڑے گا یہ معلوم کرنے کے لیے کہ پورا معاشی نظام اشرافیہ کی سہولت اور مفاد پرستی پر استوار ہے۔ رئیل اسٹیٹ ، سٹے بازی اور غیرپیداواری ذرایع سے منافع بھی چوکھا ہے اور سرمایہ بھی محفوظ رہتا ہے۔

ملک میں پچھلے پندرہ سال سے ڈی انڈسٹریالائئشن کا عمل جاری ہے۔ زرعی ملک پر اب فوڈ سیکیورٹی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ سیاسی اشرافیہ اپنے ووٹ بینک کو آسودہ رکھنے کے چکر میں پبلک سیکٹر اداروں میں سالانہ سات سو ارب سے زائد کے نقصانات کو نظر انداز کرتے ہیں، بجلی کا سرکلر ڈیٹ تین ہزار روپیہ تک پہنچنے کو ہے۔

تھوڑی سے پرکھ پرچول کے بعد اگر اجنبی کے ذہن میں یہ گمان گزرے کہ حکومتیں ، معاشی نظام اور سیاست دان اس مایوس کن معاشی منظر کے ذمے دار ہیں تو اس کے خیال کو کوئی ہم خیال سیاسی اشرافیہ میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔

اسے یہی سننا پڑے گا کہ آئی ایم ایف کی شرائط بڑی سخت ہیں ,پچھلی حکومت نے بڑی زیادتی کی یعنی قصور پھر بھی آئی ایم ایف کا ہی ہے۔ خود پسندی وہاں لے آئی ہے کہ نوشتہ دیوار نہیں پڑھا جا رہا ہے... نوشتہ دیوار کیا شاید دیوار ہی نظر نہیں آ رہی۔

فلک کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
Load Next Story