پرزہ جات کی ایل سیز منظوری میں تاخیر سے بجلی پیداوار میں کمی کا خدشہ
ترجیحاً اجازت کے باوجود شعبہ توانائی کی درآمدات کی ایل سی منظور نہیں ہورہیں، ایس ای سی ایم سی کا متعلقہ حکام کو خط
پلانٹ مشینری اور پرزہ جات کی درآمد کے لیے ایل سیز منظوری میں تاخیر سے بجلی کی پیداوار میں کمی کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے اہم شعبوں بشمول پاور جنریشن کے لیے پلانٹ مشینری اور پرزہ جات کی درآمد کے لیے ایل سی کھولنے کی پابندی کے خاتمے اور ترجیحی طور پر ایل سی کھولنے کی اجازت کے باوجود توانائی کے شعبہ کے لیے درآمدات کی ایل سی کی منظوری نہیں ہورہی۔
قومی نوعیت کے منصوبے تھر کو ل مائننگ اورپاور پلانٹ کے لیے درآمد کیے جانے والے ایکوپمنٹ اور اسپیئرپارٹس کی درآمد اور کلیئرنس بھی التوا کا شکار ہے جس سے تھر میں کوئلے کی کان سے کوئلے کی پیداوار معطل ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
کوئلہ کی پیداوار بند ہونے سے مقامی کوئلہ سے بننے والی بجلی کی پیداوار بھی رک جائے گی اور مجموعی طور پر 2500میگا واٹ بجلی کی مزید کمی کا سامنا ہوگا جس سے موسم سرما میں جاری توانائی کا بحران مزید شدت اختیار کرجائے گا۔
سندھ حکومت کی شراکت سے تھر میں کوئلے کی کان ڈیولپ کرنے والی کمپنی سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کو پاور پلانٹ اور کوئلے کی کان کے لیے ایکوپمنٹ اور سپیئر پارٹس کی درآمد کے لیے ایل سی کھولنے میں مشکلات کا سامنا ہے جس سے کوئلے اور بجلی کی پیداوار بند ہونے کا خدشہ ہے۔
ایس ای سی ایم سی کی جانب سے وزارت توانائی کے حکام کو ارسال کردہ خط میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے 27دسمبر 2022کو ایچ ایس کوڈ چیپٹر84اور 85 میں شامل اشیا کی درآمد کے لیے ایل سی کی پیشگی منظوری کی شرط ختم کرتے ہوئے ا ن اشیا کو ترجیحی فہرست میں شامل کرلیا گیا، تاہم مذکورہ ایچ ایس کوڈ میں شامل تھر کوئلہ پاور پراجیکٹس کے اسپیئر پارٹس اور ایکوپمنٹ کے لیے ایل سی کی دستاویزات کی منظوری نہیں دی جارہی۔
سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی نے وزارت توانائی کے حکام کو بتایا کہ اہم پرزہ جات اور آلات کی درآمد کے لیے ایل سی نہ کھلنے کی وجہ سے کان کنی جاری رکھنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور درآمد شدہ ایکوپمنٹ جو پورٹ پر موجود ہے اس پر تاخیر کی وجہ سے بھاری ڈیمرج بھی عائد ہورہا ہے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ایس ای سی ایم سی پاکستان میں بجلی بنانے کے لیے سستا ترین 7.6ملین ٹن کوئلہ 3 پاورپلانٹس کو فراہم کرتی ہے جس سے درآمدی کوئلہ کا متبادل کی شکل میں پاکستان کو کثیر زرمبادلہ کی بچت ہوتی ہے۔ کمپنی نے حکام کو مطلع کیا ہے کہ اگر ایک ماہ تک تھر کے کوئلے کی پیداوار معطل رہی تو 3 پاور پلانٹس کو درآمدی کوئلے پر چلانے سے پاکستان کو 40ملین ڈالر کا اضافی بوجھ اٹھانا پڑے گا۔
سندھ اینگروکول مائننگ کمپنی نے وزارت توانائی کے حکام سے اپیل کی ہے کہ اسٹیٹ بینک کے ذریعے متعلقہ بینکوں کو چینی کمپنیوں چائنا مشینری انجینئرنگ کارپوریشن اور چائنا ایورسٹ ڈیولپمنٹ انٹرنیشنل لمیٹڈ سے آلات کی درآمد کے لیے اپریل 2022سے زیر التوا ایل سیز کی فی الفور منظوری کو یقینی بنایا جائے ساتھ ہی تھر کول منصوبہ کے لیے معمول کے سازوسامان کی ایل سیز کی بھی بروقت بلا تاخیر منظوری کے اقدامات کیے جائیں تاکہ کان کنی کا عمل بغیر کسی تعطل کے جاری رکھا جاسکے۔