معاشی حکمت عملی اور زمینی حقائق
پاکستان کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہی تیل کی درآمد پر خرچ ہونے والے بھاری زرمبادلہ کا انتظام کرنا ہے
پاکستان نے روس سے خام تیل، پٹرول اور ڈیزل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر توانائی مصدق ملک نے کہا ہے کہ ہم مارچ میں روس سے خام تیل، پٹرول اور ڈیزل درآمد کرنا شروع کر دیں گے، پاکستان روس سے اپنی کل ضرورت کا 35فیصد خام تیل درآمد کرنا چاہتا ہے، مارچ میں سارے معاملات کو حتمی شکل دی جائے گی۔
جمعہ کو دونوں ملکوں میں تین معاہدے طے پا گئے ہیں جن میں کسٹم امور،کسٹم پروٹوکول (کسٹمز ویلیو پر دستاویز اورڈیٹا کے لین دین) اور شہری ہوا بازی (ایئروناٹیکل مصنوعات کی فضائی قابلیت پرکام ) میں تعاون کے معاہدے شامل ہیں۔
روس اور پاکستان کے درمیان بین الحکومتی کمیشن کے اجلاس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ فریقین نے تجارت،سرمایہ کاری، توانائی، مواصلات، انڈسٹری، ریلویز، ہائرایجوکیشن، بینکنگ، زراعت، سائنس اورآئی ٹی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پراتفاق کیاہے۔
دونوں ملک تیل اورگیس کے تجارتی لین دین کا ایسا ڈھانچہ بنائیں گے جس سے دونوں کو فائدہ پہنچے، اجلاس میں پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن سے سستی گیس کی فراہمی کے لیے پائیدار انفرااسٹرکچر بنانے پربھی غور کیا گیا۔ اسلام آباد میں پاکستان اور روس کے مشترکہ کمیشن کا تین روزہ اجلاس 18 سے 20 جنوری 2023 تک جاری رہا۔
مذاکرات میں روسی وفد کی قیادت وزیر توانائی نیکولائی شلگینوف جب کہ پاکستان کی قیادت وفاقی وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق نے کی۔ مذاکرات میں روس کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری اور تعاون کی دعوت دی گئی۔ فریقین نے اشیا کی پیداوار کے مقام کے سرٹیفیکیٹ اور الیکٹرانک ویریفیکیشن سے متعلق باقی ماندہ مسائل کو مئی 2023 تک حل کرنے سے بھی اتفاق کیا۔
وسطی اور جنوبی ایشیا میں رابطہ کاری اور لاجسٹک کے شعبوں میں تعاون کے لیے دونوں ممالک نے فوکل پرسنز تعینات کرنے سے بھی اتفاق کیا۔ اسی طرح فریقین نے سائنس و ٹیکنالوجی، ہائر ایجوکیشن، مشترکہ منصوبوں، تربیت اور روس میں پاکستانی طلبا کے لیے تعلیمی مواقع میں دوطرفہ تعاون کو بڑھانے سے بھی اتفاق کیا۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے روسی وفد کے سربراہ نیکولائی شلگینوف نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ برآمدات اور ڈیری کی صنعت میں تعاون جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور روس نے خام تیل پر تعاون سے اتفاق کیا ہے۔ اس ضمن میں ہم نے ٹائم لائن دے دی ہے۔ تیل اورپٹرولیم مصنوعات کی فراہمی کے لیے دونوں ممالک کے مابین مذاکرات حتمی مرحلہ میں ہیں۔
وفاقی وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق نے کہا کہ پاک روس بین الحکومتی کمیشن کے اجلاس میں ٹرین سروس، فوڈ سیکیورٹی سمیت کئی شعبوں میں تعاون پرتفصیلی بات چیت ہوئی ہے ، اس اجلاس سے دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔
نجی ٹی وی سے گفتگوکرتے ہوئے ایاز صادق نے کہا روس سے سستے تیل کی خریداری پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا،ہوسکتا ہے دس دن میں چیزیں فائنل ہوں، یا مہینے میں ہوں،کٹ آف ڈیٹ مارچ ہے، روس کے ساتھ خام تیل کی سپلائی کے معاہدے کو مارچ سے آگے نہیں لے جانا چاہتے۔ ہمیں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں زیادہ نہیں مگر اچھا ڈسکاؤنٹ ملے گا۔
پاکستان اگر روس سے مناسب نرخوں پر پٹرولیم مصنوعات لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے پاکستان کو درپیش معاشی مسائل میں خاصا ریلیف ملے گا۔ پاکستان کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہی تیل کی درآمد پر خرچ ہونے والے بھاری زرمبادلہ کا انتظام کرنا ہے۔ روس کے پاس تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں اور اس وقت روس کو وسائل کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اسی لیے وہ عالمی منڈی کے نرخوں سے کم ریٹ پر تیل فروخت کر رہا ہے۔ پاکستان کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، جیسا کہ بھارت اور بنگلہ دیش نے اٹھایا ہے۔
ترکیہ نے بھی سستی ڈیل کر کے فائدہ اٹھایا ہے۔ بہرحال پاکستان کے لیے خاصے مسائل بھی ہیں۔ روس کی اس وقت یوکرائن ایشو پر امریکا اور یورپی یونین کے ساتھ کشیدگی عروج پر ہے۔ پاکستان کو امریکا اور یورپی یونین کے ساتھ بھی اپنے تعلقات نہ صرف قائم رکھنے ہیں بلکہ خوشگوار بھی بنانے ہیں اس لیے پاکستان کو اس حوالے سے بڑی متوازن حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
ادھر وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کسان پیکیج پر عملدرآمد حکومت کی اوّلین ترجیح ہے، زرعی ٹیوب ویلز کی شمسی توانائی پر جلد منتقلی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کر ر ہے، ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے سے نہ صرف کسانوں کی فی ایکڑ لاگت میں کمی آئے گی بلکہ ڈیزل اور درآمدی ایندھن پر انحصار کم ہونے سے قیمتی زرِ مبادلہ کی بچت ہوگی۔
جمعہ کو وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت کسان پیکیج پر عملدرآمد اور ملک بھر میں زرعی ٹیوب ویلز کی سولرائیزیشن کے حوالے سے جائزہ اجلاس ہوا۔ اجلاس میں پاور ڈویژن کی طرف سے بتایا گیا کہ زرعی ٹیوب ویلز کی سولرائیزیشن سے ملک کو ڈیزل اور درآمدی ایندھن کی مد میں سالانہ 3.61 ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔
اجلاس میں وزیر اعظم کو کسان پیکیج، گندم کی بوائی اور پیداوار، کپاس میں جدید بیج کے تعارف اور خوردنی تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔ پاکستان کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت زرعی شعبے کی بحالی ہے۔ ماضی کی کسی حکومت نے زرعی شعبے پر پوری توجہ نہیں دی، اس نااہلی اور کوتاہی کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان زرعی اجناس درآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔
پاکستان کی زرخیز زرعی اراضی کو رئیل اسٹیٹ سیکٹر نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ شہروں کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہوا ہے اور شہروں کے نزدیک گاؤں دیہات کی زرعی زمینوں کو رہائشی منصوبوں نے ختم کر دیا ہے۔ اس وجہ سے زیرزمین پانی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ کنسٹرکشن میں بھی پانی کا استعمال ہوتا ہے اور آبادی کے بڑھنے سے بھی زیرزمین پانی کا استعمال بڑھا ہے۔ اس وجہ سے شہروں میں سبزیوں وغیرہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف موٹروہیکلز کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ موٹروہیکلز کو چلانے کے لیے پٹرول کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے بھی پاکستان میں پٹرول کی کھپت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ موٹروہیکلز کی وجہ سے جہاں شہروں میں ٹریفک کا اژدھام ہو گیا ہے وہاں فضائی آلودگی میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ شہروں میں گرم موسم مزید گرم ہو گیا ہے جب کہ سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی سموگ پھیلنا بھی اسی وجہ سے ہے۔
ادھر یہ خبر بھی ہے کہ پٹرولیم ڈویژن نے مرکزی بینک کو کہا ہے کہ ملک میں پٹرولیم مصنوعات کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوگئے ہیں کیونکہ بینکوں نے پٹرولیم منصوعات کی درآمدات کے لیے لیٹر آف کریڈٹ کھولنے سے انکار کردیا ہے، دیگر صنعتوں کی طرح آئل انڈسٹری کو بھی ڈالرز کی کمی اور مرکزی بینک کے اقدامات کے باعث لیٹر آف کریڈٹ کھولنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
تاہم اس حوالے سے وزارت پٹرولیم نے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قلت کی سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ملک میں تیل کے مطلوبہ ذخائر موجود ہیں اور کسی قسم کی قلت کا کوئی امکان نہیں لہٰذا عوام افواہوں، قیاس آرائیوں اور گمراہ کن اطلاعات پر کان نہ دھریں، وزارت پٹرولیم نے میڈیا سے درخواست کی ہے کہ ایسے حساس عوامی معاملات سے متلعق افواہوں کو خبر نہ بنائے۔
پاکستان کو معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کثیرالجہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ زراعت کی ترقی کے لیے گراس روٹ لیول پر جا کر پالیسی بنانی پڑے گی۔ اسی طرح پٹرول کی بچت کے لیے بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نیٹ ورک کو فعال اور متحرک بنانے کی ضرورت ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ پوری طرح فعال ہو تو سڑکوں پر کاروں اور موٹرسائیکلوں کی تعداد میں خودبخود کمی آ جائے گی۔ اس سے ماحولیاتی آلودگی بھی کم ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ صنعتی ترقی کے لیے بھی زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔
پاکستان کو کسی بھی صنعت کے قیام سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ آیا عوام کو اس صنعت کی ضرورت ہے بھی کہ نہیں۔ اگر ہے تو صنعت کس علاقے میں لگنی چاہیے اور کتنے یونٹ لگنی چاہیے۔ حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی لانے کی بھی ضرورت ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے غیر ضروری سرکاری اخراجات میں کمی لانے کے لیے 15 رکنی کمیٹی قائم کردی ہے، جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے ۔ کمیٹی سرکاری اخراجات میں کمی اور مالی ڈسپلن کے لیے تجاویز دے گی۔ کمیٹی کا پہلا اجلاس اگلے ہفتے بلایا گیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کمیٹی کیا کرتی ہے کیونکہ عام طور پر سرکاری کمیٹیوں کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ یہ کام کم کرتی ہیں یا جس مقصد کے لیے بنائی جاتی ہیں وہ مقصد تو پورا نہیں ہوتا البتہ ان کمیٹیوں کے ارکان کی مراعات اور ان کے اجلاسوں کے خرچے زیادہ ہو جاتے ہیں۔
وزیر توانائی مصدق ملک نے کہا ہے کہ ہم مارچ میں روس سے خام تیل، پٹرول اور ڈیزل درآمد کرنا شروع کر دیں گے، پاکستان روس سے اپنی کل ضرورت کا 35فیصد خام تیل درآمد کرنا چاہتا ہے، مارچ میں سارے معاملات کو حتمی شکل دی جائے گی۔
جمعہ کو دونوں ملکوں میں تین معاہدے طے پا گئے ہیں جن میں کسٹم امور،کسٹم پروٹوکول (کسٹمز ویلیو پر دستاویز اورڈیٹا کے لین دین) اور شہری ہوا بازی (ایئروناٹیکل مصنوعات کی فضائی قابلیت پرکام ) میں تعاون کے معاہدے شامل ہیں۔
روس اور پاکستان کے درمیان بین الحکومتی کمیشن کے اجلاس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ فریقین نے تجارت،سرمایہ کاری، توانائی، مواصلات، انڈسٹری، ریلویز، ہائرایجوکیشن، بینکنگ، زراعت، سائنس اورآئی ٹی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پراتفاق کیاہے۔
دونوں ملک تیل اورگیس کے تجارتی لین دین کا ایسا ڈھانچہ بنائیں گے جس سے دونوں کو فائدہ پہنچے، اجلاس میں پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن سے سستی گیس کی فراہمی کے لیے پائیدار انفرااسٹرکچر بنانے پربھی غور کیا گیا۔ اسلام آباد میں پاکستان اور روس کے مشترکہ کمیشن کا تین روزہ اجلاس 18 سے 20 جنوری 2023 تک جاری رہا۔
مذاکرات میں روسی وفد کی قیادت وزیر توانائی نیکولائی شلگینوف جب کہ پاکستان کی قیادت وفاقی وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق نے کی۔ مذاکرات میں روس کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری اور تعاون کی دعوت دی گئی۔ فریقین نے اشیا کی پیداوار کے مقام کے سرٹیفیکیٹ اور الیکٹرانک ویریفیکیشن سے متعلق باقی ماندہ مسائل کو مئی 2023 تک حل کرنے سے بھی اتفاق کیا۔
وسطی اور جنوبی ایشیا میں رابطہ کاری اور لاجسٹک کے شعبوں میں تعاون کے لیے دونوں ممالک نے فوکل پرسنز تعینات کرنے سے بھی اتفاق کیا۔ اسی طرح فریقین نے سائنس و ٹیکنالوجی، ہائر ایجوکیشن، مشترکہ منصوبوں، تربیت اور روس میں پاکستانی طلبا کے لیے تعلیمی مواقع میں دوطرفہ تعاون کو بڑھانے سے بھی اتفاق کیا۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے روسی وفد کے سربراہ نیکولائی شلگینوف نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ برآمدات اور ڈیری کی صنعت میں تعاون جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور روس نے خام تیل پر تعاون سے اتفاق کیا ہے۔ اس ضمن میں ہم نے ٹائم لائن دے دی ہے۔ تیل اورپٹرولیم مصنوعات کی فراہمی کے لیے دونوں ممالک کے مابین مذاکرات حتمی مرحلہ میں ہیں۔
وفاقی وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق نے کہا کہ پاک روس بین الحکومتی کمیشن کے اجلاس میں ٹرین سروس، فوڈ سیکیورٹی سمیت کئی شعبوں میں تعاون پرتفصیلی بات چیت ہوئی ہے ، اس اجلاس سے دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔
نجی ٹی وی سے گفتگوکرتے ہوئے ایاز صادق نے کہا روس سے سستے تیل کی خریداری پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا،ہوسکتا ہے دس دن میں چیزیں فائنل ہوں، یا مہینے میں ہوں،کٹ آف ڈیٹ مارچ ہے، روس کے ساتھ خام تیل کی سپلائی کے معاہدے کو مارچ سے آگے نہیں لے جانا چاہتے۔ ہمیں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں زیادہ نہیں مگر اچھا ڈسکاؤنٹ ملے گا۔
پاکستان اگر روس سے مناسب نرخوں پر پٹرولیم مصنوعات لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے پاکستان کو درپیش معاشی مسائل میں خاصا ریلیف ملے گا۔ پاکستان کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہی تیل کی درآمد پر خرچ ہونے والے بھاری زرمبادلہ کا انتظام کرنا ہے۔ روس کے پاس تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں اور اس وقت روس کو وسائل کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اسی لیے وہ عالمی منڈی کے نرخوں سے کم ریٹ پر تیل فروخت کر رہا ہے۔ پاکستان کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، جیسا کہ بھارت اور بنگلہ دیش نے اٹھایا ہے۔
ترکیہ نے بھی سستی ڈیل کر کے فائدہ اٹھایا ہے۔ بہرحال پاکستان کے لیے خاصے مسائل بھی ہیں۔ روس کی اس وقت یوکرائن ایشو پر امریکا اور یورپی یونین کے ساتھ کشیدگی عروج پر ہے۔ پاکستان کو امریکا اور یورپی یونین کے ساتھ بھی اپنے تعلقات نہ صرف قائم رکھنے ہیں بلکہ خوشگوار بھی بنانے ہیں اس لیے پاکستان کو اس حوالے سے بڑی متوازن حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
ادھر وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کسان پیکیج پر عملدرآمد حکومت کی اوّلین ترجیح ہے، زرعی ٹیوب ویلز کی شمسی توانائی پر جلد منتقلی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کر ر ہے، ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے سے نہ صرف کسانوں کی فی ایکڑ لاگت میں کمی آئے گی بلکہ ڈیزل اور درآمدی ایندھن پر انحصار کم ہونے سے قیمتی زرِ مبادلہ کی بچت ہوگی۔
جمعہ کو وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت کسان پیکیج پر عملدرآمد اور ملک بھر میں زرعی ٹیوب ویلز کی سولرائیزیشن کے حوالے سے جائزہ اجلاس ہوا۔ اجلاس میں پاور ڈویژن کی طرف سے بتایا گیا کہ زرعی ٹیوب ویلز کی سولرائیزیشن سے ملک کو ڈیزل اور درآمدی ایندھن کی مد میں سالانہ 3.61 ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔
اجلاس میں وزیر اعظم کو کسان پیکیج، گندم کی بوائی اور پیداوار، کپاس میں جدید بیج کے تعارف اور خوردنی تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔ پاکستان کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت زرعی شعبے کی بحالی ہے۔ ماضی کی کسی حکومت نے زرعی شعبے پر پوری توجہ نہیں دی، اس نااہلی اور کوتاہی کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان زرعی اجناس درآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔
پاکستان کی زرخیز زرعی اراضی کو رئیل اسٹیٹ سیکٹر نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ شہروں کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہوا ہے اور شہروں کے نزدیک گاؤں دیہات کی زرعی زمینوں کو رہائشی منصوبوں نے ختم کر دیا ہے۔ اس وجہ سے زیرزمین پانی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ کنسٹرکشن میں بھی پانی کا استعمال ہوتا ہے اور آبادی کے بڑھنے سے بھی زیرزمین پانی کا استعمال بڑھا ہے۔ اس وجہ سے شہروں میں سبزیوں وغیرہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف موٹروہیکلز کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ موٹروہیکلز کو چلانے کے لیے پٹرول کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے بھی پاکستان میں پٹرول کی کھپت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ موٹروہیکلز کی وجہ سے جہاں شہروں میں ٹریفک کا اژدھام ہو گیا ہے وہاں فضائی آلودگی میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ شہروں میں گرم موسم مزید گرم ہو گیا ہے جب کہ سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی سموگ پھیلنا بھی اسی وجہ سے ہے۔
ادھر یہ خبر بھی ہے کہ پٹرولیم ڈویژن نے مرکزی بینک کو کہا ہے کہ ملک میں پٹرولیم مصنوعات کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوگئے ہیں کیونکہ بینکوں نے پٹرولیم منصوعات کی درآمدات کے لیے لیٹر آف کریڈٹ کھولنے سے انکار کردیا ہے، دیگر صنعتوں کی طرح آئل انڈسٹری کو بھی ڈالرز کی کمی اور مرکزی بینک کے اقدامات کے باعث لیٹر آف کریڈٹ کھولنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
تاہم اس حوالے سے وزارت پٹرولیم نے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قلت کی سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ملک میں تیل کے مطلوبہ ذخائر موجود ہیں اور کسی قسم کی قلت کا کوئی امکان نہیں لہٰذا عوام افواہوں، قیاس آرائیوں اور گمراہ کن اطلاعات پر کان نہ دھریں، وزارت پٹرولیم نے میڈیا سے درخواست کی ہے کہ ایسے حساس عوامی معاملات سے متلعق افواہوں کو خبر نہ بنائے۔
پاکستان کو معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کثیرالجہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ زراعت کی ترقی کے لیے گراس روٹ لیول پر جا کر پالیسی بنانی پڑے گی۔ اسی طرح پٹرول کی بچت کے لیے بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نیٹ ورک کو فعال اور متحرک بنانے کی ضرورت ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ پوری طرح فعال ہو تو سڑکوں پر کاروں اور موٹرسائیکلوں کی تعداد میں خودبخود کمی آ جائے گی۔ اس سے ماحولیاتی آلودگی بھی کم ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ صنعتی ترقی کے لیے بھی زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔
پاکستان کو کسی بھی صنعت کے قیام سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ آیا عوام کو اس صنعت کی ضرورت ہے بھی کہ نہیں۔ اگر ہے تو صنعت کس علاقے میں لگنی چاہیے اور کتنے یونٹ لگنی چاہیے۔ حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی لانے کی بھی ضرورت ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے غیر ضروری سرکاری اخراجات میں کمی لانے کے لیے 15 رکنی کمیٹی قائم کردی ہے، جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے ۔ کمیٹی سرکاری اخراجات میں کمی اور مالی ڈسپلن کے لیے تجاویز دے گی۔ کمیٹی کا پہلا اجلاس اگلے ہفتے بلایا گیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کمیٹی کیا کرتی ہے کیونکہ عام طور پر سرکاری کمیٹیوں کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ یہ کام کم کرتی ہیں یا جس مقصد کے لیے بنائی جاتی ہیں وہ مقصد تو پورا نہیں ہوتا البتہ ان کمیٹیوں کے ارکان کی مراعات اور ان کے اجلاسوں کے خرچے زیادہ ہو جاتے ہیں۔