عوام کی بے حسی
ہمیں بے حسی ترک کر کے خود کو احساس ذمے داری رکھنے والی قوم بنانا ہوگا
شاید ہم لوگ بحیثیت قوم اجتماعی سطح پر کام کرنے یا کچھ سوچنے سے عاری ہیں کیونکہ ہمارے ملک کی معاشی، معاشرتی اور اخلاقی صورتحال دن بہ دن کمزور ہوتی چلی جارہی ہے۔
یوں لگتا ہے کہ ہر کام سیاست کی نذر ہوتا جارہا ہے لوگ کسی مسئلہ پر بحیثیت قوم گھروں سے نکلنے پر تیار نہیں اگرچہ بعض ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ وہاں کسی بڑے اور نازک مسئلہ پر لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل آئے تو انقلاب برپا ہوگیا اور ہونا بھی یونہی چاہیے کہ اپنے ملک کی سلامتی اور بقا کی خاطر سیاست اور مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر قوم یکجا ہوجائے اور اپنے گھروں سے باہر نکل آئے لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ مسلمان قوم بجائے اس کے کہ ایک قوم ہوکر سوچے ہم گروہوں، جماعتوں اور عقیدوں میں تقسیم ہوکر رہ گئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ملک یا شہر کا مسئلہ یا مسائل کتنے ہی اہم اور نازک کیوں نہ ہوں ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہمارا تعلق کس پارٹی سے ہے کس زبان سے ہے اور کس عقیدے سے ہے، بس یہ سوچ کر ہم عملی قدم اُٹھانے سے رہ جاتے ہیں ورنہ قومی اور ملکی مسئلے کو اگر ہر بندہ اپنا مسئلہ سمجھ لے تو کوئی مسئلہ ہی نہ رہے۔
اب تو خیر بارش کا موسم ایک بہانہ بن چکا ہے لیکن ہمارے شہر کراچی کی بات کی جائے تو یہاں سال میں کتنی بار بارشیں ہوتی ہیں، دوسرے ممالک یا شہروں کے مقابلہ میں تو بارشیں بہت کم ہی ہوتی ہیں لیکن ہمارے شہر کی سڑکیں بارش کے بغیر ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتی ہیں اور اگر کسی علاقہ میں سڑک بنتی ہے تو اس کی تعمیر میں ٹھیکیدار جس طرح مال میں ملاوٹ کرتا ہے وہ بس ایک تیز بارش کی مار ثابت ہوتی ہے ادھر بوندیں ٹپکیں اور ادھر سڑکوں پر جا بجا گڑھے پڑ گئے جنھیں جھولا جھولنے کا شوق ہو بس وہ ان سڑکوں پر سفر کرلے، اسے مفت میں جھولے کا مزا آجائے گا اور تو اور بارشوں میں سڑک پرکھلے ہوئے مین ہول حادثات کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں کہیں نالے بہہ رہے ہیں تو کہیں سڑکوں پر پڑے گڑھے منہ چڑا رہے ہیں اور کہیں بارش کے نتیجہ میں جمع ہونے والا پانی اب تک پڑا ہوا ہے مجال ہے جو کوئی کہے کہ یہ ہماری ذمے داری ہے۔ ہر محکمہ ان مسائل کا ذمے دار دوسرے کو ٹھہراتا ہے اگر کسی کو فون کرو تو وہ دوسرے کا نمبر بتادیتا ہے اور اکثر ذمے دار تو فون ہی نہیں اُٹھاتے۔
ایک پروگرام میں بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر یہ وضاحتیں دے رہے تھے کہ کراچی شہر کسی ایک محکمہ کے ماتحت نہیں بلکہ بعض علاقے بلدیہ اور بعض کنٹونمنٹ کی ذمے داری ہیں یعنی ان علاقوں کے مسائل وہی حل کرسکتے ہیں جو اس کے ذمے دار ہیں لیکن عوام کو اس سے کیا لینا دینا ہے اسے تو اپنا مسئلہ حل ہوتا نظر آنا چاہیے اور فرض کرلیں شہر کراچی کے مختلف علاقے مختلف محکموں کے زیر انتظام ہیں بھی تو ان محکموں کے ذمے داران افسران کا کام ہے کہ وہ علاقے کے مسائل کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کریں۔
دوسری طرف میں انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ کسی علاقے کے رہنے والے بھی بے حس ہوچکے ہیں۔ سڑک پر دونوں جانب دکانیں قائم ہیں اور مکانات بھی بنے ہوئے ہیں مساجد اور مدارس بھی قائم ہیں، مگر دکاندار صرف اپنی دکان تک محدود ہے اگر سڑک ٹوٹی پھوٹی ہے یا دیگر مسائل ہیں تو انھیں کوئی پرواہ نہیں۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر متاثرہ علاقے کے تمام دکاندار اور تمام رہائشی افراد کچھ دیر کے لیے ہی سہی دکانیں بند کرکے سڑک پر احتجاج کرلیں اور بڑا مظاہرہ کرلیں تو کچھ ہلچل ہوسکتی ہے۔
آج کا دور میڈیا کا ہے ان کا یہ احتجاج میڈیا پر نظر آئے گا تو متعلقہ محکمے اور ذمے داران کچھ توجہ کرسکتے ہیں، چنانچہ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں بے حسی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ کچھ نہ کچھ احتجاج بھی کرنا ضروری ہے۔
قادریہ سلسلہ کے ایک معروف بزرگ حضرت سید غوث علی شاہ قادری پانی پتی علیہ الرحمہ کے ملفوظات میں ایک واقعہ منقول ہے کہ ایک بزرگ راستے سے گزررہے تھے دیکھا کہ ایک بڑا اژدھا زمین پر ساکت پڑا ہوا ہے لوگ اس کے اوپر سے پھلانگتے ہوئے جارہے ہیں وہ کچھ حرکت نہیں کررہا وہ بزرگ بھی گزر گئے اور جب واپس لوٹے تو دیکھا کہ وہ اژدھا یونہی پڑا ہوا ہے تو آپ نے اس سے فرمایا کہ'' ارے یونہی پڑا ہوا ہے کچھ پھوں پھاں بھی کرلیا کر۔ تو ہم بھی اگر یونہی پڑے رہیں تو مسائل حل نہیں ہونے کے ہمیں بھی بے حسی چھوڑنا ہوگی۔
اپنے حالات بہتر بنانے کے لیے ہمیں سب سے پہلے معاشرے میں اپنے ہونے کا احساس دلانا ہوگا اور وہ اس طرح ہوگا کہ اجتماعی سوچ اپنا کرایسے کام کرنا ہوں گے جو ہمارے معاشرے کی بہتری میں معاون ثابت ہوں، جن سے ہماری آنے والی نسلوں کو اپنا مستقبل بہتر بنانے کی راہ کا تعین ہو سکے اور جن کاموں سے ہماری معاشرتی اور معاشی صورتحال بہتر ہو سکے اور ہم خود کو دنیا کی ایک قابل ذکر قوم میں شمار کر سکیں۔
یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ صلاحیتوں کے اعتبار سے ہم بہت بہترین بلکہ اعلیٰ ترین ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم ان صلاحیتوں کا بہترین استعمال نہیں کر پاتے اگر ہم واقعی خود کو ترقی یافتہ اقوام میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بے حسی ترک کر کے خود کو احساس ذمے داری رکھنے والی قوم بنانا ہوگا جب ہی ہم ایک خود دار قوم اور ملک کے طور پر دنیا بھر میں اپنی شناخت بنا سکتے ہیں۔