افغانستان اور اس کے مسائل
افغانستان کی موجودہ طالبان عبوری حکومت 20 سال کی مسلسل جنگ اور عالمی تنہائی کے بعد اقتدار میں آئی ہے
اگست 2021میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد عالمی برادری کو امید تھی کہ اس مرتبہ طالبان کا رویہ ماضی کے برعکس ہوگا۔
دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان ہونیوالے معاہدے کے بعد طالبان نے عالمی برادری کو قومی حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات شروع کرنے اور خواتین کے حقوق کی پاسداری کی یقین دہانی کروائی۔ماضی کے برعکس اس مرتبہ طالبان حکومت کو بیرونی چیلنجز کے ساتھ ساتھ سنگین اندرونی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔
ایک طرف افغانستان میں داعش اور طالبان مخالف عسکریت پسند گروپوں کے حملے ،دوسری طرف خواتین کی تعلیم اور روزگار پر پابندی کے بعداسلامی ممالک سمیت عالمی برادری کی شدید تنقید۔ ملا عمر کی سربراہی میں بننے والی طالبان کی سابقہ حکومت کو پاکستان اور سعودی عرب نے سفارتی طور پر تسلیم کیا تھا لیکن اس مرتبہ ابھی تک ایک ملک نے بھی طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔
طالبان کی عبوری حکومت بیک وقت سفارتی اور معاشی دونوں محاذ پر شدید مشکلات کا شکار ہے۔خواتین پر تعلیم اور روزگار کی پابندی کے بعد طالبان حکومت کے لیے نرم رویہ رکھنے والے ممالک بھی تنقید کر رہے ہیں۔
اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے جدہ میں ہونے والے اجلاس میں طالبان حکومت سے خواتین کے تعلیم اور روزگار پرپابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے،جب کہ او آئی سی علمائے کرام پر مشتمل ایک وفد بھی افغانستان بھیجے گی۔او آئی سی نے عالمی برادری سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ افغان عوام کو درپیش معاشی مشکلات کو حل کرنے میں افغانستان کی مدد کرے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی طالبان کی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین کے خلاف تمام جابرانہ اقدامات کو فوری واپس لے۔ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے طالبان حکومت سے عالمی وعدوں کی پاسداری کرنے اور لڑکیوں کی تعلیم پر عائد پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا۔
بلاول بھٹو نے عالمی برادری کو بھی زور دیا کہ افغانستان سے روابط ختم کرنا مسئلے کا حل نہیں، طالبان کی عبوری حکومت سے روابط رکھنا، عالمی برادری کے لیے بھی ضروری ہے۔ پاکستان کا افغانستان کی عبوری حکومت سے متعلق یہ بیان واضح کرتا ہے کہ پاکستان ہر سفارتی محاذ پر افغانستان کے مفادات کا تحفظ کرے گا لیکن افغان عبوری حکومت کو بھی اپنے سخت گیر نظریات اور اقدامات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیرخارجہ بلاول بھٹو کے بیان سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پاکستان افغان حکومت کی جانب سے سفارتی اور سیاسی تنہائی کے خاتمے کے لیے خواتین کے حقوق کو بطور سفارتی ہتھیار استعمال کرنے کی کسی بھی کوشش کی حمایت نہیں کر سکتا۔
قطر کی حکومت نے طالبان اور امریکا کے ساتھ مذاکرات اور روابط میں اہم کردار ادا کیا۔یہ قطر کی حکومت ہی تھی جس نے دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود دوحہ میں طالبان کو سیاسی دفتر کھولنے کی اجازت دی،لیکن اب قطر کی حکومت بھی طالبان کے رویے سے نالاں نظر آتی ہے۔
ڈیوس میں قطرکے وزیر خارجہ شیخ محمدبن عبدالرحمان الثانی کا کہنا تھا کہ طالبان انتظامیہ کے حالیہ اقدامات انتہائی مایوس کن رہے ہیں، طالبان کے مایوس کن اقدامات کے باوجود طالبان سے روابط رکھنے کی ضرورت ہے، طالبان سے روابط جاری رکھنے سے ہی مطلوبہ مقاصدکا حصول ممکن ہے۔
قطری وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ طالبان سے بات چیت کے لیے دیگر مسلم ممالک سے بھی مشاورت کی جا رہی ہے، یہ آسان کام نہیں لیکن کوشش جاری رکھنا ضروری ہے۔
بلاشبہ کھیل ہر طرح کی سیاست سے بالاتر ہوتے ہیں اور کرکٹ افغانستان میں کھیلے جانے والا وہ کھیل ہے جو افغانستان کے قوم پرست اور سخت گیر نظریات کے تمام عناصر کو ایک لڑی میں پروتا ہے،لیکن لگتا یہ ہے کہ افغان طالبان کے خواتین کی تعلیم اور ملازمتوں پر پابندی کے سیاسی اور سفارتی اثرات افغان کرکٹ بورڈ کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے لگے ہیں۔
آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر پابندی کے خلاف دوطرفہ کرکٹ سیریز سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے او آئی سی اور عالمی برادری کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی ملازمت پر پابندی ہٹانے کے مطالبے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغان حکومت خواتین کی تعلیم پر عائد پابندی اٹھانے پر کام کررہی ہے۔
ترجمان افغان حکومت ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ عالمی برادری کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور افغانستان سے تعاون جاری رکھنا چاہیے۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی افغانستان میں خواتین کی تعلیم کے معاملے پر تشویش سمجھ سے باہر ہے۔ ہم او آئی سی سمیت تمام عالمی اداروں سے قریبی اور اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔
افغان حکومت کے ترجمان کی یقین دہانی اپنی جگہ لیکن اب دنیا طالبان کی عبوری حکومت کی تسلیوں اور وعدوں پر یقین کرتی نظر نہیں آرہی۔ طالبان حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ یہ 1990 کی دہائی نہیں بلکہ 21 ویں صدی کی ایک ایسی گلوبل ورلڈ ہے جو ڈیجیٹل میڈیا کی بدولت عالمی ثقافت سے باہم مربوط ہوچکی ہے۔
پاکستان سمیت طالبان حکومت کے دوست ممالک بھی اپنی سفارتی مجبوریوں کی وجہ سے اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کھل کر طالبان حکومت کے ہر اچھے برے عمل کا ساتھ دے۔جب تک طالبان اپنے سخت گیر نظریات اور اقدامات پر نظر ثانی نہیں کرتے اس وقت تک سیاسی اور سفارتی تنہائی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ جب تک طالبان کی عبوری حکومت کو عالمی برادری کی سفارتی حمایت حاصل نہیں ہوتی، اس وقت معاشی پابندیوں اور مشکلات کا خاتمہ بھی ممکن نہیں۔
دوسری جانب عالمی برادری کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ افغانستان کی موجودہ طالبان عبوری حکومت 20 سال کی مسلسل جنگ اور عالمی تنہائی کے بعد اقتدار میں آئی ہے۔ طالبان عبوری حکومت میں موجود عناصر کی اکثریت کا آج کی جدید دنیا کے حوالے سے وہ ایکسپوزر نہیں جو طالبان کے دوحہ دفتر کے اکابرین کا ہے۔
خواتین کے حقوق کے حوالے سے افغانستان کے ثقافتی معاملات کو بھی افغانستان کی تاریخ اور ثقافت کے نکتہ نظر سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ طالبان کی عبوری حکومت کو سیاسی اور سفارتی طور پر تنہا کرنا ، کسی صورت مسئلے کا درست حل نہیں بلکہ طالبان کو انگیج رکھنا اور افغانستان سے باہر کی دنیا سے متعارف کروانے سے معاملات بتدریج بہتری کی طرف آسکتے ہیں۔