فیشن کا نیا ٹرینڈ
بہت دنوں بعد یہ رازکھلا کہ وہ دونوں کمپلیکس کا شکار تھے اور یہی احساس ان کے ملن کاسبب بنا تھا
بزرگوں نے زوردے کر کہا ہے کہ جہاں کھجلی نہ ہو وہاں مت کھجائو اور پشتو کہاوت ہے کہ جہاں ''بس'' نہ چلے زبان مت چلاؤ ، لیکن ہمارے ساتھ پرابلم یہ ہے کہ ہم پکے وٹے پاکستانی ہیں جو وہاں بعد میں کھجاتے ہیں جہاں کھجلی ہوتی ہے اوراس سے پہلے وہاں کھجاتے ہیں جہاں کھجلی نہیں ہوتی۔ چنانچہ آج کل ہمارا دھیان جدید ترین اور ماڈرن ترین ''فیشن'' پر ہے۔
ہمارے معاشرے میں داڑھی ایک نہایت ہی محترم ہے، ہمارے ہاں علماء و مشائخ باریش ہوتے ہیں، گاؤں دیہات میں عمررسیدہ لوگ داڑھی رکھ لیتے ہیں اور نماز روزے کی پابندی کرتے ہیں لیکن لیکن آج کل ماڈلنگ کی دنیا میں داڑھی ٹاپ ٹرینڈ ہے۔ ہمارے ہاں ممی ڈیڈی طبقے کے ادھیڑ عمر ماڈل گھنی داڑھی رکھ کر ماڈلنگ کرتے نظر آتے ہیں۔
ہمارے پڑوسی ملک کی شوبز انڈسٹری میں تو ایسے ایسے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ انسانی ذہن کی ایجاد واختراع پر حیرت ہوتی ہے بلکہ فلموں، ڈراموں اور دوسرے پروگراموں میں جہاں کلین شیو اور نازک مزاج ہیروز کا راج اتنا وسیع تھا کہ اکثر اوقات ہیرو اور ہیروئن میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا تھا، وہاں آج کل مخصوص شیپ کی داڑھی والے ہیروز سپر ہٹ جارہے ہیں، یہ ٹرینڈ اتنا زوروں پر ہے کہ اگر کاروباری ضرورت نہ ہوتی تو پرڈیوسرز اور ڈائریکٹرز فلم کی ہیروئن کو بھی باریش بنا کر پیش کردیتے۔
نقل کفر، کفر نہ باشد، اس سلسلے میں قہرخداوندی چشم گل چشم عرف کورونا وائرس نے جو ''قول زرین'' لانچ کیا ہوا ہے ،وہ بھی قابل توجہ ہے، ظاہرہے کہ اس کا اصل ٹارگٹ تو علامہ بریانی عرف برڈ فلو ہے لیکن اس کی زد میں ہم بھی آجاتے ہیں ،اس کاکہنا ہے کہ علامہ بریانی عرف برڈ فلو ان دنوں جس قسم کا حلیہ بنائے پھرتے ہیں وہ، گویا جناب شیخ کا نقش قدم''یوں'' بھی ہے اور یوں بھی ،رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔
فیشن انڈسڑی میں ماڈل حضرات اور فلم اداکاروں میں جو مخصوص فیشن ایبل داڑھیکا رجحان ہے ، اس کے لیے قہرخداوندی تو سیدھا سیدھا کہتے ہیں، فلم بین بھی باریش ہیرو کو پسند کرتے ہیں۔ویسے تو اس فیشن ایبل داڑھی کی ایجاد کا سہرہ پڑوسی ملک کے سر ہے لیکن اڑوس پڑوس میں بھی کورونا کی طرح سرایت کرچکی ہے ،اپنے ہاں اس فیشن کی درآمد کا سہرا نجی ٹی وی چینلز کے پروگرامز ہیں،خصوصاً رمضان ٹرانسمیشنز نے اس ٹرینڈ کو تیز کیا ہے۔
پڑوسی ملک میں تو سنا ہے ہر بڑے شہرکے ہیرکٹنگ سیلون میں ایک کمپیوٹر بھی نصب ہوتا ہے جس سے مخصوص فیشن ایبل داڑھی بنائی جاتی ہے ، انھیں بس یہ کہناہوتا ہے کہ بال کی قدوقامت کتنے ملی میٹر رکھنی چاہیے۔ زیادہ آرڈراعشاریہ صفر کے ہوتے ہیں لیکن مسئلے کی اصل جڑ کو نہ تو قہر خداوندی جان سکا ہے، نہ پڑوسی ملک کے ماہرین اور محقیقین کیوں کہ اس کے پیچھے ایک بہت بڑا نفسیاتی کمپلیکس ہے، ہم آپ کو ایک حقیقہ سناتے ہیں۔
ہمارے پشاورکی ادبی، ثقافتی اور معاشرتی دنیا میں ایک خاتون کا شہرہ ہوگیا،چنانچہ اس کے امیدواروں اورطلب گاروں کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا ۔
اللہ رے چشم یار کی معجزبیانیاں
ہر اک کویہ گماں کے مخاطب ہمیں تو ہیں
اس کے حصول کی اس دوڑ میں بڑے نامی گرامی تیزرفتار شامل تھے بلکہ اس کے اپنے خاندان میں بھی بہت سارے نوجوان اس لمبی قطار میں بیٹھے یاکھڑے تھے لیکن سب دل تھام کر رہ گئے کہ اس نے ایک بہت ہی معمولی شخص سے شادی کرلی ،سب حیران پریشان ،انگشت بدندان اورناطقہ سر بگریباں۔
بہت دنوں بعد یہ رازکھلا کہ وہ دونوں کمپلیکس کا شکار تھے اور یہی احساس ان کے ملن کاسبب بنا تھا۔کافی عرصے سے شو بز میں ''کلین شیو'' مردوں کی بہتات رہی بلکہ میک اپ، لپ اسٹک اور بہت سارے لوازمات خود کو خوبصورت بنانے کا رحجان چل رہا تھا اور یہ کسی کو پتہ نہیں تھا کہ شائقین تبدیلی چاہتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں داڑھی ایک نہایت ہی محترم ہے، ہمارے ہاں علماء و مشائخ باریش ہوتے ہیں، گاؤں دیہات میں عمررسیدہ لوگ داڑھی رکھ لیتے ہیں اور نماز روزے کی پابندی کرتے ہیں لیکن لیکن آج کل ماڈلنگ کی دنیا میں داڑھی ٹاپ ٹرینڈ ہے۔ ہمارے ہاں ممی ڈیڈی طبقے کے ادھیڑ عمر ماڈل گھنی داڑھی رکھ کر ماڈلنگ کرتے نظر آتے ہیں۔
ہمارے پڑوسی ملک کی شوبز انڈسٹری میں تو ایسے ایسے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ انسانی ذہن کی ایجاد واختراع پر حیرت ہوتی ہے بلکہ فلموں، ڈراموں اور دوسرے پروگراموں میں جہاں کلین شیو اور نازک مزاج ہیروز کا راج اتنا وسیع تھا کہ اکثر اوقات ہیرو اور ہیروئن میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا تھا، وہاں آج کل مخصوص شیپ کی داڑھی والے ہیروز سپر ہٹ جارہے ہیں، یہ ٹرینڈ اتنا زوروں پر ہے کہ اگر کاروباری ضرورت نہ ہوتی تو پرڈیوسرز اور ڈائریکٹرز فلم کی ہیروئن کو بھی باریش بنا کر پیش کردیتے۔
نقل کفر، کفر نہ باشد، اس سلسلے میں قہرخداوندی چشم گل چشم عرف کورونا وائرس نے جو ''قول زرین'' لانچ کیا ہوا ہے ،وہ بھی قابل توجہ ہے، ظاہرہے کہ اس کا اصل ٹارگٹ تو علامہ بریانی عرف برڈ فلو ہے لیکن اس کی زد میں ہم بھی آجاتے ہیں ،اس کاکہنا ہے کہ علامہ بریانی عرف برڈ فلو ان دنوں جس قسم کا حلیہ بنائے پھرتے ہیں وہ، گویا جناب شیخ کا نقش قدم''یوں'' بھی ہے اور یوں بھی ،رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔
فیشن انڈسڑی میں ماڈل حضرات اور فلم اداکاروں میں جو مخصوص فیشن ایبل داڑھیکا رجحان ہے ، اس کے لیے قہرخداوندی تو سیدھا سیدھا کہتے ہیں، فلم بین بھی باریش ہیرو کو پسند کرتے ہیں۔ویسے تو اس فیشن ایبل داڑھی کی ایجاد کا سہرہ پڑوسی ملک کے سر ہے لیکن اڑوس پڑوس میں بھی کورونا کی طرح سرایت کرچکی ہے ،اپنے ہاں اس فیشن کی درآمد کا سہرا نجی ٹی وی چینلز کے پروگرامز ہیں،خصوصاً رمضان ٹرانسمیشنز نے اس ٹرینڈ کو تیز کیا ہے۔
پڑوسی ملک میں تو سنا ہے ہر بڑے شہرکے ہیرکٹنگ سیلون میں ایک کمپیوٹر بھی نصب ہوتا ہے جس سے مخصوص فیشن ایبل داڑھی بنائی جاتی ہے ، انھیں بس یہ کہناہوتا ہے کہ بال کی قدوقامت کتنے ملی میٹر رکھنی چاہیے۔ زیادہ آرڈراعشاریہ صفر کے ہوتے ہیں لیکن مسئلے کی اصل جڑ کو نہ تو قہر خداوندی جان سکا ہے، نہ پڑوسی ملک کے ماہرین اور محقیقین کیوں کہ اس کے پیچھے ایک بہت بڑا نفسیاتی کمپلیکس ہے، ہم آپ کو ایک حقیقہ سناتے ہیں۔
ہمارے پشاورکی ادبی، ثقافتی اور معاشرتی دنیا میں ایک خاتون کا شہرہ ہوگیا،چنانچہ اس کے امیدواروں اورطلب گاروں کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا ۔
اللہ رے چشم یار کی معجزبیانیاں
ہر اک کویہ گماں کے مخاطب ہمیں تو ہیں
اس کے حصول کی اس دوڑ میں بڑے نامی گرامی تیزرفتار شامل تھے بلکہ اس کے اپنے خاندان میں بھی بہت سارے نوجوان اس لمبی قطار میں بیٹھے یاکھڑے تھے لیکن سب دل تھام کر رہ گئے کہ اس نے ایک بہت ہی معمولی شخص سے شادی کرلی ،سب حیران پریشان ،انگشت بدندان اورناطقہ سر بگریباں۔
بہت دنوں بعد یہ رازکھلا کہ وہ دونوں کمپلیکس کا شکار تھے اور یہی احساس ان کے ملن کاسبب بنا تھا۔کافی عرصے سے شو بز میں ''کلین شیو'' مردوں کی بہتات رہی بلکہ میک اپ، لپ اسٹک اور بہت سارے لوازمات خود کو خوبصورت بنانے کا رحجان چل رہا تھا اور یہ کسی کو پتہ نہیں تھا کہ شائقین تبدیلی چاہتے ہیں۔