تین سو برس بعد بھی
بہت سے احباب کی طرح وہ مجھے بھی اپنی کاروائیوں سے آگاہ رکھتا ہے
عزیزی رنجیت سنگھ چوہان کہنے کو تو بھارت کا ایک نوجوان اُردو شاعر ہے مگر ادب کے ساتھ اُس کی کمٹ منٹ صرف مشاعرے پڑھنے تک محدود نہیں، وہ ہمہ وقت مختلف ادبی پروگراموں اور تقاریب کا اہتمام کرتا رہتا ہے جن کا تعلق اردو زبان و ادب کے ساتھ ساتھ ادبی مباحث، مذاکروں اور اس کی نامور شخصیات سے بھی ہوتاہے۔
بہت سے احباب کی طرح وہ مجھے بھی اپنی کاروائیوں سے آگاہ رکھتا ہے مگر چند دن قبل جب اس نے میر تقی میر کے تین سو ویں جنم دن کے حوالے سے ایک خصوصی تقریب کی اطلاع دی تو نہ صرف اُسے شاباش دینے کو جی چاہا بلکہ حافظے پرایک دم میرؔؔ صاحب کے بہت سے اشعار بھی دستکیں دینے لگے اور مجھے یاد آیا کہ میری تنقیدی کتاب ''نئے پرانے'' کا آغاز بھی میرؔ کے مشہور بہتر نشتروں کے حوالے سے ہی ہوا تھا کہ عام طور پر شعری انتخاب میں ان کے چند ایک اشعار کو ہی بار بار دہرایا جاتا تھا جب کہ اُن کے دیوان میں جھانکیئے تو ہر صفحے پر ایک نئی دنیا آباد نظر آتی تھی۔
اپنے اس ذاتی انتخاب کے دوران بار بار مجھے محسوس ہوا کہ ہر بڑے شاعر کی طرح میرؔ کے کلام میں بھی بے شمار شعر ایسے ہیں جو اپنے مضمون یا طرز ادا کی وجہ سے بالکل آج کے لگتے ہیں یعنی وہ اپنے زمانے سے آگے بلکہ بیشتر صورتوں میں ہر زمانے سے ہم کلام لگتے تھے، پھر یوں ہواکہ میرے انتخاب کردہ اشعارمیں اُن کے معروف نشتر نسبتاً کم سے کم ہوتے چلے گئے اور ایک ایسے میر صاحب سامنے آئے جن کی فکر کی تازگی ، تصورات کی وسعت اور جہانِ فن سے اخذ کردہ نتائج نہ صرف اپنے دور بلکہ مستقبل پر بھی اس قدر ہمہ گیر انداز میں مرتب ہورہے تھے کہ قاری کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ ان کی تفہیم اور تحسین کا مناسب حق کیسے ادا کرے کہ اس میں ماضی کا رچاؤ، حال کی خوشبو اور مستقبل کاشعور ایک ایسا منظر پیش کر رہے تھے جو اس سے پہلے نہ کسی نے اس طرح سے دیکھا تھا اور نہ دکھا یا تھا۔
جی چاہاکہ اس موقعے کی مناسبت سے میرؔ صاحب کے گلشن سے کچھ ایسے پھول چُن کر یکجا کیے جائیں جن کے رنگ اور خوشبو میں گزری ہوئی تین صدیاں نہ صرف لہریں لے رہی ہیں بلکہ وہ اَن گِنت اور بے شمار منظر بھی چہرہ کشا ہیں جن کے ایک ایک سانس میں خود زندگی دھڑک رہی ہے، میری کوشش ہوگی کہ اس انتخاب میں زیادہ جگہ اُن اشعار کو دی جائے جو اپنے زمانے سے مختلف اور آگے کے تھے ممکن ہے بعض اشعار حافظانِ میرؔ کے لیے بھی نئے نئے سے ہوں کہ یہ وصف بھی صرف بڑے شاعروں سے ہی منسوب ہے۔
جانا نہیں کچھ جزغزل آکر کے جہاں میں
کل میرے تصرف میں یہی قطعہ زمیںتھا
کہا میں نے کتنا ہے گُل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسّم کیا
منہ تکا ہی کرے ہے جس تِس کا
حیرتی ہے یہ آئینہ کس ِکا
اُگتے تھے دستِ بلبل و دامانِ گل بہم
صحنِ چمن نمونۂ یوم الحساب تھا
آخانہ خرابی اپنی مت کر
قحبہ ہے یہ اُس سے گھر نہ ہوگا
خانہ خراب کس کا کیا تیری چشم نے
تھا کون یوں جسے تو نصیب ایک دم ہوا
زمیں گیر ہو عجز سے تُو کہ اِک دن
یہ دیوار کا سایہ دیوار ہوگا
کِن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگان تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
خداکو کام تو سونپے ہیں میں نے سب لیکن
رہے ہے خوف مجھے واں کی بے نیازی کا
کچھ نہیں بحرِجہاں کی موج پرمت بُھول میرؔ
دُور سے دریا نظر آتا ہے لیکن ہے سراب
چشم ہوتو آئنہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروںکے بیچ
خاک بھی سرپہ ڈالنے کو نہیں
کس خرابے میں ہم ہوئے آباد
میرؔ صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامیئے دستار
مجنوںکا دل ہُوںمحملِ لیلیٰ سے ہُوں جدا
تنہاپھروں ہُوں دشت میں جُوں نالۂ جرس
سبزہ نورُستہ رہگزر کا ہُوں
سر اُٹھایا کہ ہوگیا پامال
گو طاقت و آرام و خور و خواب سب گئے
بارے یہ غنیمت ہے کہ جیتا تو رہا ہوں
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
مہمان میرؔ مت ہو خوانِ فلک پہ ہرگز
خالی یہ مہر و ماہ کی دونوںرکابیاں ہیں
شہاں کے کُحل جواہر تھی خاکِ پا جن کی
انھیں کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
شاہد لُوں میرؔ کس کو اہلِ محلہ سے میں
محضر پہ خُوں کے میرے سب کی گواہیاں ہیں
ازخویش رفتہ ہردم رہتے ہیںہم جو اُس بِن
کہتے ہیں لوگ اکثر اس وقت تم کہاں ہو
رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگاوے کوئی دیوار کے ساتھ
لڑگئیںآنکھیں اُٹھائی دل نے چوٹ
یہ تماشائی عبث گھائل ہوا
بُت چیز کیا ہے کس کو خدا مانتے ہیں سب
خوش اعتقاد کتنے ہیں ہندوستاںکے لوگ
افسردگی سوختہ جاناں ہے قہر میرؔ
دامن کو ٹک ہلا کہ دنوں کی بجھی ہے آگ
یہی جانا کہ کچھ نہ جانا ہائے
سو بھی اک عمر میں ہوا معلوم
کس طرح آہ خاکِ مذّلت سے میںاُٹھوں
افتادہ تر جو مجھ سے مرا دستگیر ہو
امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انھی کی دولت سے
بہت سے احباب کی طرح وہ مجھے بھی اپنی کاروائیوں سے آگاہ رکھتا ہے مگر چند دن قبل جب اس نے میر تقی میر کے تین سو ویں جنم دن کے حوالے سے ایک خصوصی تقریب کی اطلاع دی تو نہ صرف اُسے شاباش دینے کو جی چاہا بلکہ حافظے پرایک دم میرؔؔ صاحب کے بہت سے اشعار بھی دستکیں دینے لگے اور مجھے یاد آیا کہ میری تنقیدی کتاب ''نئے پرانے'' کا آغاز بھی میرؔ کے مشہور بہتر نشتروں کے حوالے سے ہی ہوا تھا کہ عام طور پر شعری انتخاب میں ان کے چند ایک اشعار کو ہی بار بار دہرایا جاتا تھا جب کہ اُن کے دیوان میں جھانکیئے تو ہر صفحے پر ایک نئی دنیا آباد نظر آتی تھی۔
اپنے اس ذاتی انتخاب کے دوران بار بار مجھے محسوس ہوا کہ ہر بڑے شاعر کی طرح میرؔ کے کلام میں بھی بے شمار شعر ایسے ہیں جو اپنے مضمون یا طرز ادا کی وجہ سے بالکل آج کے لگتے ہیں یعنی وہ اپنے زمانے سے آگے بلکہ بیشتر صورتوں میں ہر زمانے سے ہم کلام لگتے تھے، پھر یوں ہواکہ میرے انتخاب کردہ اشعارمیں اُن کے معروف نشتر نسبتاً کم سے کم ہوتے چلے گئے اور ایک ایسے میر صاحب سامنے آئے جن کی فکر کی تازگی ، تصورات کی وسعت اور جہانِ فن سے اخذ کردہ نتائج نہ صرف اپنے دور بلکہ مستقبل پر بھی اس قدر ہمہ گیر انداز میں مرتب ہورہے تھے کہ قاری کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ ان کی تفہیم اور تحسین کا مناسب حق کیسے ادا کرے کہ اس میں ماضی کا رچاؤ، حال کی خوشبو اور مستقبل کاشعور ایک ایسا منظر پیش کر رہے تھے جو اس سے پہلے نہ کسی نے اس طرح سے دیکھا تھا اور نہ دکھا یا تھا۔
جی چاہاکہ اس موقعے کی مناسبت سے میرؔ صاحب کے گلشن سے کچھ ایسے پھول چُن کر یکجا کیے جائیں جن کے رنگ اور خوشبو میں گزری ہوئی تین صدیاں نہ صرف لہریں لے رہی ہیں بلکہ وہ اَن گِنت اور بے شمار منظر بھی چہرہ کشا ہیں جن کے ایک ایک سانس میں خود زندگی دھڑک رہی ہے، میری کوشش ہوگی کہ اس انتخاب میں زیادہ جگہ اُن اشعار کو دی جائے جو اپنے زمانے سے مختلف اور آگے کے تھے ممکن ہے بعض اشعار حافظانِ میرؔ کے لیے بھی نئے نئے سے ہوں کہ یہ وصف بھی صرف بڑے شاعروں سے ہی منسوب ہے۔
جانا نہیں کچھ جزغزل آکر کے جہاں میں
کل میرے تصرف میں یہی قطعہ زمیںتھا
کہا میں نے کتنا ہے گُل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسّم کیا
منہ تکا ہی کرے ہے جس تِس کا
حیرتی ہے یہ آئینہ کس ِکا
اُگتے تھے دستِ بلبل و دامانِ گل بہم
صحنِ چمن نمونۂ یوم الحساب تھا
آخانہ خرابی اپنی مت کر
قحبہ ہے یہ اُس سے گھر نہ ہوگا
خانہ خراب کس کا کیا تیری چشم نے
تھا کون یوں جسے تو نصیب ایک دم ہوا
زمیں گیر ہو عجز سے تُو کہ اِک دن
یہ دیوار کا سایہ دیوار ہوگا
کِن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگان تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
خداکو کام تو سونپے ہیں میں نے سب لیکن
رہے ہے خوف مجھے واں کی بے نیازی کا
کچھ نہیں بحرِجہاں کی موج پرمت بُھول میرؔ
دُور سے دریا نظر آتا ہے لیکن ہے سراب
چشم ہوتو آئنہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروںکے بیچ
خاک بھی سرپہ ڈالنے کو نہیں
کس خرابے میں ہم ہوئے آباد
میرؔ صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامیئے دستار
مجنوںکا دل ہُوںمحملِ لیلیٰ سے ہُوں جدا
تنہاپھروں ہُوں دشت میں جُوں نالۂ جرس
سبزہ نورُستہ رہگزر کا ہُوں
سر اُٹھایا کہ ہوگیا پامال
گو طاقت و آرام و خور و خواب سب گئے
بارے یہ غنیمت ہے کہ جیتا تو رہا ہوں
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
مہمان میرؔ مت ہو خوانِ فلک پہ ہرگز
خالی یہ مہر و ماہ کی دونوںرکابیاں ہیں
شہاں کے کُحل جواہر تھی خاکِ پا جن کی
انھیں کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
شاہد لُوں میرؔ کس کو اہلِ محلہ سے میں
محضر پہ خُوں کے میرے سب کی گواہیاں ہیں
ازخویش رفتہ ہردم رہتے ہیںہم جو اُس بِن
کہتے ہیں لوگ اکثر اس وقت تم کہاں ہو
رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگاوے کوئی دیوار کے ساتھ
لڑگئیںآنکھیں اُٹھائی دل نے چوٹ
یہ تماشائی عبث گھائل ہوا
بُت چیز کیا ہے کس کو خدا مانتے ہیں سب
خوش اعتقاد کتنے ہیں ہندوستاںکے لوگ
افسردگی سوختہ جاناں ہے قہر میرؔ
دامن کو ٹک ہلا کہ دنوں کی بجھی ہے آگ
یہی جانا کہ کچھ نہ جانا ہائے
سو بھی اک عمر میں ہوا معلوم
کس طرح آہ خاکِ مذّلت سے میںاُٹھوں
افتادہ تر جو مجھ سے مرا دستگیر ہو
امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انھی کی دولت سے