پرویز مشرف کیس کا اختتام بھی ریمنڈ ڈیوس معاملے جیسا ہوگا خورشید شاہ
پرویز مشرف نے نوازشریف پر احسان کیا تھا لگتا ہے نوازشریف بھی احسان اتاریں گے، قائد حزب اختلاف
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے نواز شریف پر احسان کیا تھا اب لگتا ہے نواز شریف بھی ان کا احسان چکائیں گے اور ان کی رائے میں پرویز مشرف کیس کا اختتام بھی ریمنڈ ڈیوس معاملے جیسا ہوگا۔
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ عوام اور سیاسی جماعتوں نے حکومت کو مذاکرات کا مینڈیٹ دیا ہے، پیپلز پارٹی طالبان سے مذاکرات کامیاب دیکھنا چاہتی ہے لیکن طالبان نے فوج کو فریق بنایا ہے، حکومت کو چاہئے کہ وہ طالبان سے مذاکرات میں فوج کو اعتماد میں رکھے کیونکہ بداعتمادی سے نظام کو نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی بار بار وزیراعظم اور وزیر داخلہ سے ہدایات لیتی ہے حالانکہ اسے کو بااختیار کیا جانا چاہئے۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ حکومت طالبان سے بلیک میل ہونے کے بجائے برابری کی بنیاد پر مذاکرات کرے، حکومت اب تک 39 طالبان قیدی چھوڑ چکی ہے لیکن مخالف فریق کسی کو رہا نہیں کررہا، سلمان تاثیر اور یوسف رضا گیلانی کے بیٹے رہا نہ ہوئے تو پیپلزپارٹی کہے گی یہ کیسے مذاکرات ہیں، ان کی رائے میں طالبان کو چھوڑنے کا فیصلہ حکومت کا ہے جب کہ امن زون کا مطالبہ ماننا خطرناک ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ہمیں بے شک اعتماد میں نہ لیں لیکن اس سلسلے میں معلومات تو فراہم کرسکتی ہے۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ آصف زرداری نے جمہوریت بچانے کے لئے مل بیٹھنے کی پیش کش کی، چوہدری نثارعلی کو اس پیشکش کا خیر مقدم کرنا چاہئے تھا لیکن انہوں نے اس پیش کش کا خیر مقدم نہ کرکے اپنی سوچ واضح کردی کہ وہ نظام بگاڑنا چاہتے ہیں اور وہ میاں نواز شریف کو وزیر اعظم نہیں دیکھنا چاہتے۔ انہوں نے کہا ان کی جماعت خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک کی حمایت نہیں کرے گی، عوام نے مینڈیٹ پارٹی کو دیا ہے اور فیصلوں کا اختیار بھی اسے ہی ہونا چاہئے ۔
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ عوام اور سیاسی جماعتوں نے حکومت کو مذاکرات کا مینڈیٹ دیا ہے، پیپلز پارٹی طالبان سے مذاکرات کامیاب دیکھنا چاہتی ہے لیکن طالبان نے فوج کو فریق بنایا ہے، حکومت کو چاہئے کہ وہ طالبان سے مذاکرات میں فوج کو اعتماد میں رکھے کیونکہ بداعتمادی سے نظام کو نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی بار بار وزیراعظم اور وزیر داخلہ سے ہدایات لیتی ہے حالانکہ اسے کو بااختیار کیا جانا چاہئے۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ حکومت طالبان سے بلیک میل ہونے کے بجائے برابری کی بنیاد پر مذاکرات کرے، حکومت اب تک 39 طالبان قیدی چھوڑ چکی ہے لیکن مخالف فریق کسی کو رہا نہیں کررہا، سلمان تاثیر اور یوسف رضا گیلانی کے بیٹے رہا نہ ہوئے تو پیپلزپارٹی کہے گی یہ کیسے مذاکرات ہیں، ان کی رائے میں طالبان کو چھوڑنے کا فیصلہ حکومت کا ہے جب کہ امن زون کا مطالبہ ماننا خطرناک ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ہمیں بے شک اعتماد میں نہ لیں لیکن اس سلسلے میں معلومات تو فراہم کرسکتی ہے۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ آصف زرداری نے جمہوریت بچانے کے لئے مل بیٹھنے کی پیش کش کی، چوہدری نثارعلی کو اس پیشکش کا خیر مقدم کرنا چاہئے تھا لیکن انہوں نے اس پیش کش کا خیر مقدم نہ کرکے اپنی سوچ واضح کردی کہ وہ نظام بگاڑنا چاہتے ہیں اور وہ میاں نواز شریف کو وزیر اعظم نہیں دیکھنا چاہتے۔ انہوں نے کہا ان کی جماعت خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک کی حمایت نہیں کرے گی، عوام نے مینڈیٹ پارٹی کو دیا ہے اور فیصلوں کا اختیار بھی اسے ہی ہونا چاہئے ۔