ایسا پاکستان پھر کہاں سے لائیں گے

تمام مقتدر قوتوں سے ہاتھ جوڑ کے اپیل ہے کہ خدارا کسی ایک راستے کا انتخاب کرلیں چاہے پھر وہ مذاکرات کاہو یا آپریشن کا۔


فہیم پٹیل April 07, 2014
تمام مقتدر قوتوں سے ہاتھ جوڑ کے اپیل ہے کہ خدارا کسی ایک راستے کا انتخاب کرلیں چاہے پھر وہ مذاکرات کاہو یا آپریشن کا۔ گرافکس: منظرالہٰی

مجھے یہ توٹھیک سے یادنہیں کہ میں نے کب سے ہوش سنبھالا ہے لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے بزرگوں سے صرف یہی سنا ہے کہ یہ خداداد پاکستان لاتعداد قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ہے اور یہ اپنے رہنے والوں کے لیے کسی انعام سے کم نہیں ہے ۔یہ وہ ملک ہے جسے قدرت نے اپنے تمام انعامات سے نوازا ہے۔جیسے یہاں چاروں موسم موجود ہیں،زراعت کے لیے زرخیز زمین ہے ، قدرتی وسائل کی بھرمار ہے، خوبصورت وادیاں ہیں اور ایک طویل فہرست ہے جس کا ذکر کرناابھی ممکن نہیں لیکن یقینی طور پر اُن انعامات کا تذکرہ کسی بھی پاکستانی کے لیے کسی فخر سے کم نہیں ہوگا ۔

مندرجہ بالہ سطریں تو کسی کتاب کا روشن باب معلوم ہوتی ہیں ۔ اکثر یہی خواہش ہوتی ہے کہ یہ کتاب کبھی ختم نہ ہو اور زندگی انہی خوشگوار یادوں میں گزاردی جائے۔اور خود کو حقیقت کی دنیا سے الگ کرلیا جائے جہاں وہ ہر مسئلہ موجود ہے جس کی گنجائش اس کرہ عرض پر ہے ۔ میں ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ کہ 1951کے وزیراعظم خواجہ نظام الدین ہوں یا پھر 2014 کے وزیراعظم نواز شریف ۔ ان سب کے لیے ' پاکستان اپنے مشکل ترین دور سے ہی گزررہا ہے'۔ یعنی پاکستان قدرت کے تمام تر انعامات کے باوجود ہمیشہ مشکل میں ہی رہا۔اب میں نہیں جانتا کہ اس میں قصور وار ہمارے حکمراں ہیں یا پھر ان حکمرانوں کو اقتدار تک پہنچانے والی رعایا جو خاموشی سے مستقل ایک ہی کھیل کو دیکھ دیکھ کر نہ تو تنگ آرہی ہے اور نہ ہی مسلسل ایک ہی نتیجہ آنے کے باوجود انتائج کی تبدیلی کے لیے کوئی کوشش کررہی ہے۔

چلیں اس وقت ہم زیادہ دور نہیں جاتے۔بس موجودہ دور میں جاری دہشتگردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے بات کرلیتے ہیں۔میں اس وقت یہ موضوع چھیڑنے کے موڈ میں نہیں ہوں کہ کون ٹھیک ہے اور کون غلط۔ اور نہ یہ بات کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے جو بھی فیصلے کیے گئے وہ ٹھیک تھے یا نہیں۔یہ بات کسی حد تک تو ٹھیک ہے کہ ماضی کو نظر انداز کرکے مستقبل کی تعمیر نہیں ہوسکتی۔لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے سب سے بڑے مسئلے کو جس نالائقی سے حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے اُس کو دیکھتے ہوئے ماضی کا خیال کسی دردناک اور خوفناک خواب سے کم ہر گز نہیں لگتا۔ دہشتگردی کی جنگ کے حوالے سے تومیں ہمیشہ ایک مثال دیتا ہوں کہ اس کا تعلق تو پاکستان سے بس ایسا ہی ہے جیسے کسی گھرمیں کچھ ڈاکو گھسنے کا ارادہ کررہے ہوں لیکن اُس گھر کا پڑوسی ڈاکووں کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے ہوئے کہے کہ جناب آپ اتنی دور سے آئے ہیں اور بھلا صرف ایک ہی گھرکو لوٹے گیں۔یہ تو کوئی معقول بات نہیں ہوئی نا اس لیے میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ پہلے گھر کے ساتھ ساتھ میرا گھر بھی لوٹ لیں اس طرح آپ کا مقصد اچھی طرح پورا ہوجائے گا۔

خیر جو ہوا سو ہوا۔اب معاملہ یہ ہے کہ آخر اس خطرناک کھیل کا خاتمہ کیسے کیا جائے۔یہی وہ سوال ہے جس نے اس دھرتی پر بسنے والے ہر انسان کے ذہن میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ تجربات تو ویسے بہت ہوچکے ہیں لیکن کوئی بھی تجربہ اب تک کامیابی کی شاہراہ تک لیجانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قوم بھی اس مسئلے کو حل کرنے کے طریقے میں کسی حد تک تقسیم ہوچکی ہے۔کہیں مذاکرات کی بازگشت ہے تو کہیں آپریشن پر زور دیا جارہا ہے۔چلیں اگر قوم منقسم ہے بھی تو کوئی عجوبہ نہیں ہے۔کیونکہ شاید اتنی بڑی تعداد کا کسی ایک موقف پر متفق ہونا ممکن بھی نہیں۔لیکن حیرانگی اور پریشانی تو ان مقتدر قوتوں پر ہوتی ہے جو تمام تر اختیارات اور وسائل کی موجودگی کے باوجود 12 برسوں میں کوئی ایسا حل پیش نہیں کرسکی جو عوام کو سکھ اور ان کی جانوں کو محفوظ بناسکے۔

اس طویل عرصے میں ہم نے آپریشن کے نظارے بھی دیکھے اور مذاکرات کی بازگشت بھی سنی۔آپریشن کے حامیوں کی جانب سے کہا جاتا رہا کہ اسی کی وجہ سے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں دہشتگرد ہلاک ہوگئے۔اس مملکت خداداد میں بسنے والوں کی متاثر کن تعداد آج بھی اسی نقطے پر منجمد ہے کہ ملک میں امن صرف اور صرف دہشتگردوں کے خلاف آپریشن سے ہی ممکن ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ اسی آپریشن کے نتیجے میں جنت نظیر وادی سوات میں بھی امن کی بانسری بجائی گئی۔لیکن کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ سوات میں امن صرف تب تک ہے جب تک وہاں فوج تعینات ہے۔اگر مستقل امن آچکا ہے تو پھر فوج کو وہاں سے ہٹایا کیوں نہیں جارہا؟۔

دوسری جانب مذاکرات کے حامیوں کی تعداد بھی ہر گز کم نہیں ہے ۔اُن کا خیال ہے کہ طاقت کا استعمال تو بھرپور طریقے سے کیا جاچکا ہے مگر نتیجہ صفر کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ بلکہ جانی اور معاشی نقصان نے اس ملک کی کمر ہی توڑ دی ہے۔مذاکرات کے حامی مخالفین کو یہی پیغام دیتے ہیں کہ مانا کہ آپ آپریشن کے ہی حمایتی ہیں تو ٹھیک ہے شوق سے کیجیے لیکن اُس کے ساتھ امن کے قیام کی بھی ضمانت دی جانی چاہیے۔

اس لیے تمام مقتدر قوتوں سے ہاتھ جوڑ کے اپیل کی جاتی ہے کہ خدارا کسی ایک راستے کا انتخاب کرلیجیے۔ چاہے پھر وہ مذاکرات کا ہو یا آپریشن کا۔ لیکن اس ریاست کے عام شہری کی حیثیت سے ایک مطالبہ ضرور کرنا چاہوں کہ اس بار آپ جو بھی قدم اُٹھائیں اُس پر قوم کو ایک چیز کا یقین ضرور دلائیے گا کہ اس بار ناکامی اور نامرادی نہیں بلکہ کامیابی اور کامرانی نصیب ہوگی ۔ ہمیں اپنی بہادر فوج پر فخر ہے لیکن ہم بھی انسان ہیں یہ فخر صرف اُسی وقت تک قائم رہ سکتا ہے جب ہم مقابلے کے میدان میں اِس کے بھاری پلڑے میں دیکھیں۔اس قوم کے لیے یہی ایک ریاست ہے۔ یہی ہمارا فخر ہے ۔ اسی پر ہمیں ناز ہے ۔ یہ ہے تو ہم ہیں۔ یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں رہے گا۔ ماضی میںملک کے دولخت ہونے والا واقعے کی وجہ سے آج بھی آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں۔ اب شاید ہمارے پاس مزید گنجائش نہیں ہے۔ ہماری آپ سے گزارش ہے عقل و دانش کی بنیاد پر فیصلہ کیجیے وگرنہ ایسا پاکستان ہم پھرکہاں سے لائیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں