پاکستان میں ڈاکٹروں کا کوئی بھی نسخہ عالمی طبی معیار پر پورا نہیں اترتا تحقیق

ڈاکٹر 89 فیصد نسخوں پر اپنا نام نہیں لکھتے جب کہ 58 فیصد ڈاکٹری نسخوں کو پڑھنا انتہائی مشکل ہوتاہے، تحقیق میں انکشاف

پاکستانی ڈاکٹرز مریضوں کو90 فیصد مہنگی برانڈڈ دوا تجویزکرتے ہیں حالانکہ سستی ادویات باآسانی دستیاب ہیں، تحقیق۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں جہاں سرکاری سطح پر صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی انتہائی ناقص ہے وہیں ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک میں ڈاکٹروں کا لکھا گیا کوئی ایک نسخہ بھی بین الاقوامی طبی معیار کو پورا نہیں کرتا۔


برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق طبی جریدے پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنس کے حالیہ شمارے میں شائع ہونے والی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طبی قواعد کے برعکس جنرل پریکٹیشنر (جی پی) ڈاکٹر 89 فیصد نسخوں پر اپنا نام نہیں لکھتے اور 78 فیصد نسخوں پر مریضوں کو لاحق مرض کی تشخیص نہیں درج کی جاتی جب کہ 58 فیصد نسخوں پر لکھی گئی ڈاکٹرز کی تحریر کو پڑھنا انتہائی مشکل ہے۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ 63 فیصد نسخوں پر ڈاکٹرز دوا کی مقدار اور 55 فیصد پر دوا لینے کا دورانیہ درج نہیں کرتے۔

تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستانی ڈاکٹرز ہر نسخے میں اوسطا تقریبا 3.32 ادویات لکھ کر دیتے ہیں حالانکہ عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق فی نسخہ ادویات کی زیادہ سے زیادہ مناسب تعداد صرف 2 ادویات ہونی چاہیے۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ غربت کے مارے مریضوں کو ڈاکٹروں کی تجویز کردہ ادویات میں سے 90 فیصد مہنگی برانڈڈ ادویات تھیں حالانکہ ان میں سے اکثر ادویات کے سستے متبادل مارکیٹ میں باآسانی سے دستیاب ہوتے ہیں۔
Load Next Story