کراچی کی قسمت کا فیصلہ کب ہوگا
شہر قائد اب کسی نفرت، لڑائی جھگڑے یا فساد کا متحمل نہیں، شہر کی ترقی و خوشحالی کےلیے سب مل کر کام کریں
کراچی میں بلدیاتی انتخابات کو ایک ہفتے سے زیادہ وقت گزر چکا ہے لیکن تاحال صورتحال واضح نہیں ہوئی کہ کراچی کا میئر کس جماعت کا ہوگا؟ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی دونوں ہی اس بات کی دعویدار ہیں کہ میئر ان کی جماعت کا ہوگا۔ سادہ اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے جوڑ توڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
نئے بلدیاتی نظام کے تحت شہر میں 246 یونین کمیٹیاں ہیں، جبکہ نوجوانوں، مزدوروں، خواجہ سراؤں، خواتین اور اقلیت کی مخصوص 121 سیٹوں کے بعد نشستوں کی تعداد 367 ہے۔ تاحال جاری شدہ نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی 91 سیٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر، جماعت اسلامی 89 نشستوں کے ساتھ دوسرے اور تحریک انصاف 40 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی نے 6 اور تحریک انصاف نے 4 نشستوں پر دعوی' کر رکھا ہے اور نتائج میں مبینہ ردوبدل کے خلاف درخواست دے رکھی ہے۔
موجودہ صورتحال میں کوئی بھی جماعت تنہا میئر نہیں بناسکتی۔ پیپلز پارٹی کے وفد نے جماعت اسلامی کے مرکز کا دورہ کیا اور مشروط اتحاد کی پیشکش بھی کی، جس پر تاحال پیش رفت نہیں ہوئی۔ اسی طرح امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان نے بھی تحریک انصاف سے بات چیت کےلیے ان کے مرکز کا دورہ کیا۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ میئر کے انتخاب کا فیصلہ بھی عوام کے ہی ہاتھ میں ہوتا، پھر سیاسی جماعتوں کو جوڑ توڑ کی ضرورت نہ ہوتی اور سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی بھی برپا نہ ہوتا۔ اس وقت کراچی کی تقدیر کے فیصلے کا وقت ہے اور یہ فیصلہ جتنا جلدی ہوجائے اتنا ہی بہتر ہے۔ ایم کیو ایم نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا جو کہ انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔
ماضی میں کراچی کے ناظمین کا جائزہ لیا جائے تو نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال اس شہر کےلیے اچھے میئر ثابت ہوئے۔ جماعت اسلامی چونکہ پہلے ہی فلاحی کاموں میں بھرپور انداز سے شامل رہتی ہے لہٰذا اسے میئرشپ کے بعد زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں ہوگا۔ اگرچہ اب ملک بھر میں سیاسی جماعتوں کی تعداد اور نئی جماعتوں کی پیدائش میں اضافے کے بعد پالیسی یہ نظر آتی ہے کہ سادہ اکثریت کسی کو نہیں ملے گی۔ شہری حکومت ہو، صوبائی یا مرکزی، مخلوط طرز حکومت ہی کا انتخاب کرنا ہوگا۔ لہٰذا اگر شہر کی تینوں بڑی جماعتیں شہر کے ساتھ مخلص ہیں تو اپنی انا کا خاتمہ کرکے ساتھ چلنا ہوگا۔
تحریک انصاف اور جماعت اسلامی ماضی میں بھی مثالی اتحادی رہے ہیں اور ان کے اتحاد کے ختم ہونے کا انداز بھی بہترین تھا۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کبھی بھی کھل کر ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہوئے۔ قیادت کی جانب سے کبھی بھی ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ نہیں ہوئی جبکہ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی نے ووٹ ایک دوسرے کی مخالفت کرکے ہی حاصل کیے ہیں۔ لہٰذا پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا اتحاد غیر فطری ہوگا اور زیادہ دن چل بھی نہیں سکے گا۔ جماعت اسلامی سوشل میڈیا سے وابستہ افراد کا مختلف پلیٹ فارمز پر کہنا ہے کہ حافظ نعیم الرحمان کو مشورے نہ دیے جائیں وہ خود فیصلہ کرلیں گے۔ اس طرح کی باتیں آمرانہ سوچ کی عکاس ہیں۔ جماعت اسلامی کی مہم چلانے والا اور ووٹ دینے والا ہر شہری حافظ نعیم الرحمان اور جماعت اسلامی کو مشورہ دینے اور اپنی چاہت بتانے کا پورا حقدار ہے۔
جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحاد کی صورت میں شہر میں باآسانی جماعت اسلامی کا میئر منتخب ہوجائے گا۔ یہاں عوام کے دماغ میں یہ بات بھی ڈالی جارہی ہے کہ اگر ایسا ہوا تو سندھ حکومت فنڈز ہی جاری نہیں کرے گی، تو کام کیسے ہوں گے؟ یہ سوچ بھی محض غلامانہ ذہنیت کی عکاس ہے۔ شہری حکومت کا فنڈ کسی صورت نہیں روکا جاسکتا۔ مخصوص فنڈ صوبائی حکومت کو ہر حال میں ادا کرنا ہی ہوگا۔ اب رہی بات آخری مراحل کی، فرض کیجیے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا اتحاد ہوجائے، جماعت اسلامی اپنا میئر بھی لے آئے اور شہری حکومت اپنے فنڈز سے کراچی میں بہترین کام کرانے کی پوزیشن میں ہو تو کیا پیپلز پارٹی کے خلاف مہم کو جاری رکھا جائے؟ انہیں الگ کردیا جائے؟ بالکل نہیں شہر کی بہتری کےلیے انتہائی ضروری ہے کہ شہر کے تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر کام کریں۔ جماعت اسلامی کو ماضی کے تجربات کے تحت میئرشپ دی جائے لیکن پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دونوں ہی اس کے اتحادی ہوں اور شہر کی بہتری کےلیے مل کر آگے بڑھا جائے۔ یہ شہر اب کسی نفرت، لڑائی جھگڑے یا فساد کا متحمل نہیں۔ اس شہر میں اب ترقی، کامیابی، خوشحالی اور امن کےلیے سب مل کر کام کریں۔
تینوں جماعتوں کی نشستیں ہونے کے باعث یونین کمیٹیوں میں مثبت مقابلے کا رجحان بھی پیدا کیا جائے اور منتخب اراکین اپنی یونین کمیٹیوں کو ماڈل ایریا بنانے کےلیے کوشاں ہوں۔ کراچی اب ترقی چاہتا ہے، کراچی اب امن چاہتا ہے، کراچی اب اتحاد چاہتا ہے۔ اگر اب بھی کوئی کراچی کی بحالی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے تو اہل شہر جان لیں کہ وہ اپنا نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
نئے بلدیاتی نظام کے تحت شہر میں 246 یونین کمیٹیاں ہیں، جبکہ نوجوانوں، مزدوروں، خواجہ سراؤں، خواتین اور اقلیت کی مخصوص 121 سیٹوں کے بعد نشستوں کی تعداد 367 ہے۔ تاحال جاری شدہ نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی 91 سیٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر، جماعت اسلامی 89 نشستوں کے ساتھ دوسرے اور تحریک انصاف 40 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی نے 6 اور تحریک انصاف نے 4 نشستوں پر دعوی' کر رکھا ہے اور نتائج میں مبینہ ردوبدل کے خلاف درخواست دے رکھی ہے۔
موجودہ صورتحال میں کوئی بھی جماعت تنہا میئر نہیں بناسکتی۔ پیپلز پارٹی کے وفد نے جماعت اسلامی کے مرکز کا دورہ کیا اور مشروط اتحاد کی پیشکش بھی کی، جس پر تاحال پیش رفت نہیں ہوئی۔ اسی طرح امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان نے بھی تحریک انصاف سے بات چیت کےلیے ان کے مرکز کا دورہ کیا۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ میئر کے انتخاب کا فیصلہ بھی عوام کے ہی ہاتھ میں ہوتا، پھر سیاسی جماعتوں کو جوڑ توڑ کی ضرورت نہ ہوتی اور سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی بھی برپا نہ ہوتا۔ اس وقت کراچی کی تقدیر کے فیصلے کا وقت ہے اور یہ فیصلہ جتنا جلدی ہوجائے اتنا ہی بہتر ہے۔ ایم کیو ایم نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا جو کہ انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔
ماضی میں کراچی کے ناظمین کا جائزہ لیا جائے تو نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال اس شہر کےلیے اچھے میئر ثابت ہوئے۔ جماعت اسلامی چونکہ پہلے ہی فلاحی کاموں میں بھرپور انداز سے شامل رہتی ہے لہٰذا اسے میئرشپ کے بعد زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں ہوگا۔ اگرچہ اب ملک بھر میں سیاسی جماعتوں کی تعداد اور نئی جماعتوں کی پیدائش میں اضافے کے بعد پالیسی یہ نظر آتی ہے کہ سادہ اکثریت کسی کو نہیں ملے گی۔ شہری حکومت ہو، صوبائی یا مرکزی، مخلوط طرز حکومت ہی کا انتخاب کرنا ہوگا۔ لہٰذا اگر شہر کی تینوں بڑی جماعتیں شہر کے ساتھ مخلص ہیں تو اپنی انا کا خاتمہ کرکے ساتھ چلنا ہوگا۔
تحریک انصاف اور جماعت اسلامی ماضی میں بھی مثالی اتحادی رہے ہیں اور ان کے اتحاد کے ختم ہونے کا انداز بھی بہترین تھا۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کبھی بھی کھل کر ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہوئے۔ قیادت کی جانب سے کبھی بھی ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ نہیں ہوئی جبکہ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی نے ووٹ ایک دوسرے کی مخالفت کرکے ہی حاصل کیے ہیں۔ لہٰذا پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا اتحاد غیر فطری ہوگا اور زیادہ دن چل بھی نہیں سکے گا۔ جماعت اسلامی سوشل میڈیا سے وابستہ افراد کا مختلف پلیٹ فارمز پر کہنا ہے کہ حافظ نعیم الرحمان کو مشورے نہ دیے جائیں وہ خود فیصلہ کرلیں گے۔ اس طرح کی باتیں آمرانہ سوچ کی عکاس ہیں۔ جماعت اسلامی کی مہم چلانے والا اور ووٹ دینے والا ہر شہری حافظ نعیم الرحمان اور جماعت اسلامی کو مشورہ دینے اور اپنی چاہت بتانے کا پورا حقدار ہے۔
جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحاد کی صورت میں شہر میں باآسانی جماعت اسلامی کا میئر منتخب ہوجائے گا۔ یہاں عوام کے دماغ میں یہ بات بھی ڈالی جارہی ہے کہ اگر ایسا ہوا تو سندھ حکومت فنڈز ہی جاری نہیں کرے گی، تو کام کیسے ہوں گے؟ یہ سوچ بھی محض غلامانہ ذہنیت کی عکاس ہے۔ شہری حکومت کا فنڈ کسی صورت نہیں روکا جاسکتا۔ مخصوص فنڈ صوبائی حکومت کو ہر حال میں ادا کرنا ہی ہوگا۔ اب رہی بات آخری مراحل کی، فرض کیجیے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا اتحاد ہوجائے، جماعت اسلامی اپنا میئر بھی لے آئے اور شہری حکومت اپنے فنڈز سے کراچی میں بہترین کام کرانے کی پوزیشن میں ہو تو کیا پیپلز پارٹی کے خلاف مہم کو جاری رکھا جائے؟ انہیں الگ کردیا جائے؟ بالکل نہیں شہر کی بہتری کےلیے انتہائی ضروری ہے کہ شہر کے تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر کام کریں۔ جماعت اسلامی کو ماضی کے تجربات کے تحت میئرشپ دی جائے لیکن پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دونوں ہی اس کے اتحادی ہوں اور شہر کی بہتری کےلیے مل کر آگے بڑھا جائے۔ یہ شہر اب کسی نفرت، لڑائی جھگڑے یا فساد کا متحمل نہیں۔ اس شہر میں اب ترقی، کامیابی، خوشحالی اور امن کےلیے سب مل کر کام کریں۔
تینوں جماعتوں کی نشستیں ہونے کے باعث یونین کمیٹیوں میں مثبت مقابلے کا رجحان بھی پیدا کیا جائے اور منتخب اراکین اپنی یونین کمیٹیوں کو ماڈل ایریا بنانے کےلیے کوشاں ہوں۔ کراچی اب ترقی چاہتا ہے، کراچی اب امن چاہتا ہے، کراچی اب اتحاد چاہتا ہے۔ اگر اب بھی کوئی کراچی کی بحالی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے تو اہل شہر جان لیں کہ وہ اپنا نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔