22 کروڑ بھکاری
معمارانِ پاکستان کی رحلت کے بعد آنے والے حکمرانوں نے اِس ملک کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر لْوٹنا شروع کر دیا
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
وطنِ عزیز آج جس دلدل میں دھنسا ہوا ہے اور مزید دھنستا جا رہا ہے ، یہ کوئی ایک دم ہونے والا حادثہ نہیں ہے بلکہ یہ برسوں کی کشمکش کا نتیجہ ہے ، جس کے ذمے دار ماضی کے اربابِ اختیار اور موجودہ حکمراں بھی برابر کے شریک ہیں۔
معمارانِ پاکستان کی رحلت کے بعد آنے والے حکمرانوں نے اِس ملک کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر لْوٹنا شروع کر دیا۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اِس ملک کو انتہائی تاخیر کے بعد کوئی آئین میسر آیا۔
دوسری جانب ہمارے حریف بھارت میں آزادی کے تھوڑے عرصہ کے بعد ہی ایک اچھا آئین میسر آگیا جس کے نتیجہ میں ایک پارلیمانی جمہوری نظام کا آغاز ہوگیا اور جمہوریت کا یہ پودا دیکھتے ہی دیکھتے ایک تناور درخت بن گیا۔یہی وجہ ہے کہ بھارت میں عدم استحکام کے بجائے ایک تسلسل قائم رہا اور معینہ مدت کے بعد عام انتخابات ہوتے رہے۔
ایک طویل عرصہ تک ایک منظم کانگریس پارٹی نظامِ حکومت چلاتی رہی اور ملک کی ترقی کے لیے پائیدار اور کارگر منصوبہ بندی جاری رہی جس کے نتیجہ میں ملک ترقی کرتا چلا گیا۔
اگرچہ نہرو خاندان کی اجارہ داری بہت عرصہ تک جاری رہی لیکن اْس کی بعد بھی جو قیادتیں وقفہ وقفہ کے بعد راج سِنگھاسن پر بیٹھتی رہیں۔
اْنہوں نے بھی اپنی پالیسیوں میں وطن کے مفاد کو بالاتر رکھا اور سیاسی اختلافات کے باوجود مجموعی طور پر وطن کی فلاح و بہبود کو ترجیح دی جس سے ملک کے مجموعی مفاد کو اولیت حاصل رہی۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کانگریس کے علاوہ جو بھی پارٹی برسرِ اقتدار آئی اْس نے بھی سابقہ حکومت کے وطن دوست معاشی منصوبوں کو جاری و ساری رکھا۔ بھارت کی ترقی کا راز اِسی میں مضمر ہے۔
اب پاکستان کی طرف آئیے جس کا رقبہ بھارت سے بہت کم ہے اور آبادی بھی اْسی قدر کم ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہاں صرف ایک ہی مذہب کی بھاری اکثریت ہے اور یہ وطنِ عزیز دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہی معرضِ وجود میں آیا تھا اور اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا۔
قائدِ اعظم کی زیرِ قیادت برصغیر کے مسلمان ایک جھنڈے کے تلے متحد ہوئے تھے اور اْن کا نعرہ تھا '' مسلم ہے تو لیگ میں آ '' قائدِ اعظم کی بیمثال قیادت نے اِس مملکتِ اسلام کو جنم دیا۔
قائداعظم کو یہ تشویش لاحق تھی کہ اگر برصغیر آزاد ہوگیا تو ہندوؤں کی بھاری اکثریت کی وجہ سے مسلمان اقلیت کو اکثریت کی غلامی میں زندگی گزارنا پڑے گی اور یہ بات وقت اور حالات نے ثابت بھی کر دی۔
یہ پاکستان کی برکت ہی تھی کہ یہاں کے لوگ ہندوؤں کی غلامی سے بچ نکلے اور آزاد پاکستان میں اپنی زندگی اپنے مذہب اسلام کے مطابق گزارنے کے قابل ہوئے۔
اْنہیں مکمل آزادی کے ساتھ جینے اور عبادت کرنے اور معاشی ترقی اور کاروبار اور معیشت کا کھْلا میدان مل گیا جس کے پھل وہ آج تک کھا رہے ہیں ورنہ ہندو اکثریت اْنہیں ہرگز پنپنے نہ دیتی۔یہ پاکستان ہی کی برکت ہے کہ کوئی مسلمان جرنیل ہے کوئی سیکریٹری ہے کوئی صدر ہے کوئی وزیرِ اعظم ہے اور کوئی ارب پَتی یا کھرب پَتی مِل اونر ، تاجر، سیٹھ یا ساہوکار ہے۔
ذرا ایک نظر بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار پر ڈالیے تو حقیقت واضح ہوجائے گی اور چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ ہماری نااہلی اور وطن فراموشی کی انتہا کی وجہ سے 1971 میں ملک دو لخت ہوگیا لیکن افسوس کہ ہم نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور اب بھی اِس عظیم سانحہ سے آج بھی کوئی سبق حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ملکی مفاد اور قومی یکجہتی کے بجائے ہم آج بھی اپنی پرانی رَوِش پر گامزن ہیں اور لسانی، علاقائی مسلکی، گروہی اور مصلحتی مفادات کے زیرِ اثر ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔یہ مملکتِ خداداد اللہ کے فضل و کرم سے وسائل اور افرادی قوت سے مالامال ہے لیکن اْس کے باوجود ہم بھکاری بن کر کشکول اٹھائے ہوئے ہیں۔
در در کی خاک چھانتے ہوئے پھِر رہے ہیں جب کہ ہم سے بعد آزاد ہونے والے ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ معاشی، معاشرتی اور سب سے بڑھ کر سیاسی بدنظمی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا اور ہمارا حال یہ ہے کہ دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔ ہم نے اپنی قومی حمیت اور غیرت کو فراموش کردیا ہے اور ہمیں اِس کا احساس تک نہیں ہے۔
ہمیں تقسیم سے قبل لکھی جانے والی عظیم صحافی ابراہیم جلیس کی وہ کتاب یاد آرہی ہے جس کا عنوان تھا '' چالیس کروڑ بھکاری '' یہ کتاب اْس وقت لکھی گئی تھی جب تقسیم سے قبل ہندوستان کی کْل آبادی 40 کروڑ کے لگ بھگ تھی ، اگر ابراہیم جلیس آج حیات ہوتے اور پاکستان کے شہری ہوتے ہوئے کوئی کتاب تحریر کرتے تو اْس کا عنوان ہوتا '' 22 کروڑ بھکاری ''
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
وطنِ عزیز آج جس دلدل میں دھنسا ہوا ہے اور مزید دھنستا جا رہا ہے ، یہ کوئی ایک دم ہونے والا حادثہ نہیں ہے بلکہ یہ برسوں کی کشمکش کا نتیجہ ہے ، جس کے ذمے دار ماضی کے اربابِ اختیار اور موجودہ حکمراں بھی برابر کے شریک ہیں۔
معمارانِ پاکستان کی رحلت کے بعد آنے والے حکمرانوں نے اِس ملک کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر لْوٹنا شروع کر دیا۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اِس ملک کو انتہائی تاخیر کے بعد کوئی آئین میسر آیا۔
دوسری جانب ہمارے حریف بھارت میں آزادی کے تھوڑے عرصہ کے بعد ہی ایک اچھا آئین میسر آگیا جس کے نتیجہ میں ایک پارلیمانی جمہوری نظام کا آغاز ہوگیا اور جمہوریت کا یہ پودا دیکھتے ہی دیکھتے ایک تناور درخت بن گیا۔یہی وجہ ہے کہ بھارت میں عدم استحکام کے بجائے ایک تسلسل قائم رہا اور معینہ مدت کے بعد عام انتخابات ہوتے رہے۔
ایک طویل عرصہ تک ایک منظم کانگریس پارٹی نظامِ حکومت چلاتی رہی اور ملک کی ترقی کے لیے پائیدار اور کارگر منصوبہ بندی جاری رہی جس کے نتیجہ میں ملک ترقی کرتا چلا گیا۔
اگرچہ نہرو خاندان کی اجارہ داری بہت عرصہ تک جاری رہی لیکن اْس کی بعد بھی جو قیادتیں وقفہ وقفہ کے بعد راج سِنگھاسن پر بیٹھتی رہیں۔
اْنہوں نے بھی اپنی پالیسیوں میں وطن کے مفاد کو بالاتر رکھا اور سیاسی اختلافات کے باوجود مجموعی طور پر وطن کی فلاح و بہبود کو ترجیح دی جس سے ملک کے مجموعی مفاد کو اولیت حاصل رہی۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کانگریس کے علاوہ جو بھی پارٹی برسرِ اقتدار آئی اْس نے بھی سابقہ حکومت کے وطن دوست معاشی منصوبوں کو جاری و ساری رکھا۔ بھارت کی ترقی کا راز اِسی میں مضمر ہے۔
اب پاکستان کی طرف آئیے جس کا رقبہ بھارت سے بہت کم ہے اور آبادی بھی اْسی قدر کم ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہاں صرف ایک ہی مذہب کی بھاری اکثریت ہے اور یہ وطنِ عزیز دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہی معرضِ وجود میں آیا تھا اور اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا۔
قائدِ اعظم کی زیرِ قیادت برصغیر کے مسلمان ایک جھنڈے کے تلے متحد ہوئے تھے اور اْن کا نعرہ تھا '' مسلم ہے تو لیگ میں آ '' قائدِ اعظم کی بیمثال قیادت نے اِس مملکتِ اسلام کو جنم دیا۔
قائداعظم کو یہ تشویش لاحق تھی کہ اگر برصغیر آزاد ہوگیا تو ہندوؤں کی بھاری اکثریت کی وجہ سے مسلمان اقلیت کو اکثریت کی غلامی میں زندگی گزارنا پڑے گی اور یہ بات وقت اور حالات نے ثابت بھی کر دی۔
یہ پاکستان کی برکت ہی تھی کہ یہاں کے لوگ ہندوؤں کی غلامی سے بچ نکلے اور آزاد پاکستان میں اپنی زندگی اپنے مذہب اسلام کے مطابق گزارنے کے قابل ہوئے۔
اْنہیں مکمل آزادی کے ساتھ جینے اور عبادت کرنے اور معاشی ترقی اور کاروبار اور معیشت کا کھْلا میدان مل گیا جس کے پھل وہ آج تک کھا رہے ہیں ورنہ ہندو اکثریت اْنہیں ہرگز پنپنے نہ دیتی۔یہ پاکستان ہی کی برکت ہے کہ کوئی مسلمان جرنیل ہے کوئی سیکریٹری ہے کوئی صدر ہے کوئی وزیرِ اعظم ہے اور کوئی ارب پَتی یا کھرب پَتی مِل اونر ، تاجر، سیٹھ یا ساہوکار ہے۔
ذرا ایک نظر بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار پر ڈالیے تو حقیقت واضح ہوجائے گی اور چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ ہماری نااہلی اور وطن فراموشی کی انتہا کی وجہ سے 1971 میں ملک دو لخت ہوگیا لیکن افسوس کہ ہم نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور اب بھی اِس عظیم سانحہ سے آج بھی کوئی سبق حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ملکی مفاد اور قومی یکجہتی کے بجائے ہم آج بھی اپنی پرانی رَوِش پر گامزن ہیں اور لسانی، علاقائی مسلکی، گروہی اور مصلحتی مفادات کے زیرِ اثر ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔یہ مملکتِ خداداد اللہ کے فضل و کرم سے وسائل اور افرادی قوت سے مالامال ہے لیکن اْس کے باوجود ہم بھکاری بن کر کشکول اٹھائے ہوئے ہیں۔
در در کی خاک چھانتے ہوئے پھِر رہے ہیں جب کہ ہم سے بعد آزاد ہونے والے ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ معاشی، معاشرتی اور سب سے بڑھ کر سیاسی بدنظمی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا اور ہمارا حال یہ ہے کہ دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔ ہم نے اپنی قومی حمیت اور غیرت کو فراموش کردیا ہے اور ہمیں اِس کا احساس تک نہیں ہے۔
ہمیں تقسیم سے قبل لکھی جانے والی عظیم صحافی ابراہیم جلیس کی وہ کتاب یاد آرہی ہے جس کا عنوان تھا '' چالیس کروڑ بھکاری '' یہ کتاب اْس وقت لکھی گئی تھی جب تقسیم سے قبل ہندوستان کی کْل آبادی 40 کروڑ کے لگ بھگ تھی ، اگر ابراہیم جلیس آج حیات ہوتے اور پاکستان کے شہری ہوتے ہوئے کوئی کتاب تحریر کرتے تو اْس کا عنوان ہوتا '' 22 کروڑ بھکاری ''