ایسا لیڈر قوم سے مخلص ہو سکتا ہے

سابق حکمران اپنے دور کی کرپشن سے لاکھ انکار کریں مگر کوئی بھی فرشتہ نہیں

m_saeedarain@hotmail.com

1988 میں جنرل ضیا الحق کا طویل دور ختم ہونے کے بعد ملک کی سیاست میں حکمرانی کے لیے دو نئے چہرے بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نمایاں ہوئے تھے۔

میاں نواز شریف کو غیر سول دور میں ہی غیر جماعتی انتخابات میں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا جو صوبائی وزیر خزانہ رہے اور صنعتی شخصیت اور امیر خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں ایک اہم شخصیت اور سندھ سے تعلق رکھنے اور اچھی شہرت کے حامل محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنایا گیا تھا جو وزیر ریلوے بھی رہے ، عوام سے مخلص سیاستدان تھے۔

محمد خان جونیجو حکومت میں جنرل ضیا الحق نے پہلی بار میاں نواز شریف کو اس وجہ سے بھی وزیر اعلیٰ پنجاب بنوایا تھا کہ وہ ایک نئے سیاستدان اور ملک کے امیر صنعتی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ان کے دور میں کرپشن نہیں ہوگی اور وہ خود بھی کرپشن سے دور رہیں گے۔

جونیجو دور میں مسلم لیگ کو ان کی قیادت میں ازسرنو منظم کیا گیا اور دیگر پارٹیوں کے رہنماؤں اور آزاد ارکان اسمبلی سرکاری مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور وزیر اعظم جونیجو نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اپنے ایک وفاقی وزیر کو کرپشن کے باعث برطرف بھی کیا تھا کیونکہ محمد خان جونیجو خود کرپشن سے دور اور ملک و قوم سے واقعی مخلص تھے۔

انھوں نے جنرل ضیا سے مارشل لا ختم کرایا اور قومی مفاد میں بعض ایسے فیصلے کیے جو جمہوریت کو مضبوط کرنے اور ملک و قوم کے مجموعی مفاد میں تھے جو صدر جنرل ضیا کو پسند نہ آئے اور صدر نے 58-2/B کے تحت ان کی حکومت برطرف کردی اور نواز شریف واحد وزیر اعلیٰ تھے۔

جنھیں پنجاب میں نگراں وزیر اعلیٰ بنایا مگر چند ماہ بعد ہی صدر جنرل ضیا الحق طیارے کے حادثے میں شہید ہوگئے مگر جنرل ضیا کے اعلان کے مطابق قائم مقام صدر بن جانے والے غلام اسحاق خان نے ملک میں عام انتخابات ہونے دیے جن میں بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور انھوں نے پہلی بار وزیر اعظم بن کر حکومت بنائی جو صدر مملکت سے اختلافات کے باعث نہ چل سکی اور اگست 1990 میں برطرف کردی گئی تھی۔

بے نظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنی تھیں جن کے دور میں ان کے شوہر آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے اور کرپشن کو بھی بے نظیر حکومت کی برطرفی کی بنیاد بنا کر غلام مصطفیٰ جتوئی کو نگراں وزیر اعظم بنایا گیا تھا جو بھٹو دور میں وفاقی وزیر اور سندھ کے وزیر اعلیٰ رہے تھے اور ان کی ذاتی شہرت بھی اچھی تھی اور محمد خان جونیجو کی طرح ان پر بھی کرپشن کا کوئی داغ نہیں تھا۔

نواز شریف اور بے نظیر بھٹو 1999 میں جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے تک دو دو بار وزیر اعظم بنے۔ دونوں نے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگائے اور دونوں کرپشن کے الزامات میں ہی اقتدار سے نکالے گئے۔


دونوں نے مقدمات کا سامنا کیا مگر دونوں کے خلاف کرپشن کے ثبوت ملے نہ دونوں کو کرپشن پر سزا ہوئی۔ بے نظیر دور میں آصف زرداری پر کرپشن کے سنگین الزامات لگے اور انھوں نے سب سے طویل جیل کاٹی مگر کرپشن ثابت نہ ہو سکی اور پھر انھیں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد صدر مملکت بھی پی پی کی تیسری حکومت میں منتخب کیا گیا۔

بے قاعدگیاں، اقربا پروری دونوں کے ادوار میں ہوئیں اور دونوں کو پرویز مشرف دور میں جلاوطنی میں میثاق جمہوریت کرنا پڑا۔ مشرف دور میں دونوں سابق وزرائے اعظم پر کرپشن اور بیرون ملک جائیدادیں بنانے کے الزامات لگے۔

دونوں کی حکومتوں میں بیرونی قرضے لیے گئے مگر ترقیاتی کام بھی ہوئے۔ مشہور ہے کہ کوئی اور کرپشن نہ بھی کرے تو اسے گھر بیٹھے منصوبوں کو کمیشن مل جاتا ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ نواز شریف کے دور میں ملک میں پہلی بار موٹروے بنی، ایٹمی دھماکے کیے گئے، شہباز شریف کی پنجاب حکومت میں لاہور، پنڈی، اسلام آباد اور ملتان میں میٹرو اور اورنج ٹرین کے منصوبے بنے جن سے عوام کو سفری سہولتیں حاصل ہوئیں۔

پنجاب اور سندھ میں سڑکیں بنیں اور بیرونی قرضوں کے ذریعے ہونے والے کام نظر آئے کیونکہ دونوں عوامی رہنما تھے اور عوام سے مخلص تھے اور دونوں کے دور میں میگا منصوبے مکمل ہوئے۔

عمران خان نے 1996 میں پی ٹی آئی بنائی اور انھوں نے دونوں سابق حکمرانوں پر کرپشن کے الزامات لگانے شروع کیے اور 26 سال بعد بھی عمران خان نواز شریف اور آصف زرداری پر اب بھی الزامات لگا رہے ہیں جب کہ ملک کی کسی عدالت نے دونوں کو کرپٹ قرار نہیں دیا اور پی ٹی آئی حکومت میں ان کو عمران خان سزا نہ دلا سکے۔

دونوں کو سزا دلانے میں ناکامی کے بعد اب وہ الزامات کی سیاست کر رہے ہیں۔عمران پروجیکٹ پر 2011 میں کام شروع ہوا، عوام کو بھی یقین تھا کہ وہ قوم سے مخلص ثابت ہوں گے۔ ملک و قوم کی حالت بدلے گی۔ سب کو انصاف ملے گا ملک ترقی کرے گا مگر دونوں سابق حکمرانوں سے زیادہ بیرونی قرضے عمران حکومت میں لیے گئے مگر کوئی ایک میگا منصوبہ نہ بنایا جاسکا۔

سابق حکمران اپنے دور کی کرپشن سے لاکھ انکار کریں مگر کوئی بھی فرشتہ نہیں مگر صرف اپنے سے پہلے والوں کو کرپٹ اور خود کو صادق و امین سمجھنا قوم سے مخلص ہونا نہیں ہے۔ توشہ خانہ کو پہلے بخشا گیا نہ اب بلکہ عمران دور میں توشہ خانہ کو آمدنی کا ذریعہ بنایا گیا۔

ہر دور میں توشہ خانہ کا قیمتی مال کوڑیوں کے مول خریدا گیا مگر سابق حکمرانوں نے عمران خان کی طرح مال خرید کر فروخت نہیں کرایا۔ عمران خان سے توقعات تھیں کہ وہ پہلے والوں سے مختلف ثابت ہوں گے مگر اس کے برعکس ہوا۔

سیاست میں جھوٹوں کا ریکارڈ بنایا گیا اپنی غلطی پر کسی کو ندامت نہیں مگر عمران خان نے تو ڈھٹائی کا بھی ریکارڈ بنا ڈالا۔ قوم سے مخلص لیڈر تو بتاتا ہے کہ اس کے دور میں یہ یہ منصوبے بنے جس سے عوام کو یہ فائدہ ہوا مگر پرائے مال پر بھی اپنا نام بنانا کسی طرح بھی قوم سے مخلص ہونے کا ثبوت نہیں ہے۔
Load Next Story