سُنو کہانی پچیس سال کی جدائی کے بعد ملاپ
بچھڑی ماں بیٹی کو فیس بُک نے ملادیا
ڈینور کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کھڑی امیرہ علی کی نگاہیں اس راستے پر مرکوز تھیں جہاں سے بین الاقوامی پروازوں کے ذریعے پہنچنے والے مسافر ایئرپورٹ سے باہر آتے ہیں۔
کچھ ہی دیر قبل یہ اعلان ہوا تھا کہ سوڈان سے آنے والی فلائٹ لینڈ کرگئی ہے۔ ادھیڑ عمر سوڈانی خاتون کی نگاہوں میں بے چینی، اشتیاق اور خوشی کی ملی جلی کیفیت صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔ اس کی باڈؑی لینگویج سے بھی ظاہر ہوتا تھا کہ وہ شدت سے کسی کی آمد کی منتظر ہے۔ بالآخر اس کا انتظار ختم ہوا اور ایک چہرے پر نظر پڑتے ہی وہ اس کی طرف لپکی۔ اگلے ہی لمحے وہاں موجود مسافر اور ان کے استقبال کے لیے آنے والے لوگ ان دو خواتین کو حیرت سے دیکھ رہے تھے جو ایک دوسرے کے گلے لگ کر زاروقطار رو رہی تھیں۔
سوڈان سے آنے والی فلائٹ سے ڈینور پہنچنے والی عورت کا نام ٹینا ڈینگ تھا اور وہ امیرہ علی کی بیٹی تھی جو 25 سال پہلے اپنی ماں سے بچھڑ گئی تھی۔ رُبع صدی کے بعد ماں اور بیٹی کا یہ ملن فیس بُک کا مرہون منت تھا۔
25 سال پہلے امیرہ علی اپنی ماں، بہن اور اپنے بچوں کے ساتھ جنوبی سوڈان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتی تھی۔ افریقی ملک میں اس وقت خانہ جنگی عروج پر تھی۔ ایک رات سوڈانی جنگجوؤں نے اس گاؤں پر حملہ کردیا۔ ہر طرف افراتفری مچ گئی اور گاؤں کے باسی اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگنے لگے۔ اس دوران امیرہ اپنی ماں، بہن اور 6 سالہ ٹینا سے بچھڑگئی۔ چار روز تک صحرا میں بھٹکنے کے بعد وہ اپنے بیٹے کے ساتھ بالآخر ایک ریفیوجی کیمپ تک پہنچنے میں کام یاب ہوگئی۔
کچھ عرصے تک دونوں ماں بیٹے اس کیمپ میں رہے۔ پھر کئی مہینے انھوں نے سوڈان کے دو پڑوسی ممالک میں بے سروسامانی کے عالم میں گزارے۔ آخرکار اقوام متحدہ کے ذریعے اسے امریکا میں سیاسی پناہ مل گئی۔ یہاں ریاست کولوراڈو کے سب سے بڑے شہر ڈینور میں امیرہ نے رہائش اختیار کی۔ انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اسے امریکی شہرت بھی مل گئی۔ تعلیم سے بے بہرہ ہونے کی بناپر اسے کسی دفتر میں ملازمت نہیں مل سکتی تھی، لہٰذا گزراوقات کے لیے اسے مختلف چھوٹے موٹے کام کرنے پڑے۔ اس سلسلے میں ''کولوراڈو افریقن ایسوسی ایشن'' نے بھی اس سے تعاون کیا۔ بعد میں امیرہ نے اسی تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی۔ یہاں ایک دوست نے امیرہ کو فیس بُک جوائن کرنے کا مشورہ دیا۔
امیرہ علی نے فرض کرلیا تھا کہ اُس رات جنگجوؤں کے حملے میں اس کے اہل خانہ جان کی بازی ہار گئے تھے، کیوں کہ بعد میں تمام تر کوششوں کے باوجود وہ ان کے بارے میں کچھ نہیں جان پائی تھی۔ چند ہفتے قبل جب ایک تیس سالہ عورت نے فیس بُک کے ذریعے رابطہ کرکے خود کو اپنی بیٹی کے طور پر امیرہ سے متعارف کروایا تو وہ حیران رہ گئی۔ مزید گفتگو کے بعد جب امیرہ کو یقین ہوگیا کہ یہ اس کی بیٹی ٹینا ہی ہے تو بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ ٹینا نے اپنی ماں کو بتایا کہ جنگجوؤں کے حملے میں اس کی نانی اور خالہ بھی محفوظ رہی تھیں اور اب بھی وہ انھی کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ ٹینا نے شادی کرلی تھی اور تین بچوں کی ماں بھی بن گئی تھی۔
گذشتہ ہفتے اپنی بیٹی سے ملاقات کو امیرہ اپنی زندگی کا یادگارترین لمحہ قرار دیتی ہے۔ امیرہ کا کہنا ہے کہ اس کے لیے وہ فیس بُک کی شکرگزار ہے جس کی بہ دولت وہ اپنی بچھڑی ہوئی بیٹی سے مل پائی۔ امیرہ اب اپنی والدہ اور بہن سے ملنے کے لیے سوڈان جانے کی تیاری کررہی ہے۔
کچھ ہی دیر قبل یہ اعلان ہوا تھا کہ سوڈان سے آنے والی فلائٹ لینڈ کرگئی ہے۔ ادھیڑ عمر سوڈانی خاتون کی نگاہوں میں بے چینی، اشتیاق اور خوشی کی ملی جلی کیفیت صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔ اس کی باڈؑی لینگویج سے بھی ظاہر ہوتا تھا کہ وہ شدت سے کسی کی آمد کی منتظر ہے۔ بالآخر اس کا انتظار ختم ہوا اور ایک چہرے پر نظر پڑتے ہی وہ اس کی طرف لپکی۔ اگلے ہی لمحے وہاں موجود مسافر اور ان کے استقبال کے لیے آنے والے لوگ ان دو خواتین کو حیرت سے دیکھ رہے تھے جو ایک دوسرے کے گلے لگ کر زاروقطار رو رہی تھیں۔
سوڈان سے آنے والی فلائٹ سے ڈینور پہنچنے والی عورت کا نام ٹینا ڈینگ تھا اور وہ امیرہ علی کی بیٹی تھی جو 25 سال پہلے اپنی ماں سے بچھڑ گئی تھی۔ رُبع صدی کے بعد ماں اور بیٹی کا یہ ملن فیس بُک کا مرہون منت تھا۔
25 سال پہلے امیرہ علی اپنی ماں، بہن اور اپنے بچوں کے ساتھ جنوبی سوڈان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتی تھی۔ افریقی ملک میں اس وقت خانہ جنگی عروج پر تھی۔ ایک رات سوڈانی جنگجوؤں نے اس گاؤں پر حملہ کردیا۔ ہر طرف افراتفری مچ گئی اور گاؤں کے باسی اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگنے لگے۔ اس دوران امیرہ اپنی ماں، بہن اور 6 سالہ ٹینا سے بچھڑگئی۔ چار روز تک صحرا میں بھٹکنے کے بعد وہ اپنے بیٹے کے ساتھ بالآخر ایک ریفیوجی کیمپ تک پہنچنے میں کام یاب ہوگئی۔
کچھ عرصے تک دونوں ماں بیٹے اس کیمپ میں رہے۔ پھر کئی مہینے انھوں نے سوڈان کے دو پڑوسی ممالک میں بے سروسامانی کے عالم میں گزارے۔ آخرکار اقوام متحدہ کے ذریعے اسے امریکا میں سیاسی پناہ مل گئی۔ یہاں ریاست کولوراڈو کے سب سے بڑے شہر ڈینور میں امیرہ نے رہائش اختیار کی۔ انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اسے امریکی شہرت بھی مل گئی۔ تعلیم سے بے بہرہ ہونے کی بناپر اسے کسی دفتر میں ملازمت نہیں مل سکتی تھی، لہٰذا گزراوقات کے لیے اسے مختلف چھوٹے موٹے کام کرنے پڑے۔ اس سلسلے میں ''کولوراڈو افریقن ایسوسی ایشن'' نے بھی اس سے تعاون کیا۔ بعد میں امیرہ نے اسی تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی۔ یہاں ایک دوست نے امیرہ کو فیس بُک جوائن کرنے کا مشورہ دیا۔
امیرہ علی نے فرض کرلیا تھا کہ اُس رات جنگجوؤں کے حملے میں اس کے اہل خانہ جان کی بازی ہار گئے تھے، کیوں کہ بعد میں تمام تر کوششوں کے باوجود وہ ان کے بارے میں کچھ نہیں جان پائی تھی۔ چند ہفتے قبل جب ایک تیس سالہ عورت نے فیس بُک کے ذریعے رابطہ کرکے خود کو اپنی بیٹی کے طور پر امیرہ سے متعارف کروایا تو وہ حیران رہ گئی۔ مزید گفتگو کے بعد جب امیرہ کو یقین ہوگیا کہ یہ اس کی بیٹی ٹینا ہی ہے تو بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ ٹینا نے اپنی ماں کو بتایا کہ جنگجوؤں کے حملے میں اس کی نانی اور خالہ بھی محفوظ رہی تھیں اور اب بھی وہ انھی کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ ٹینا نے شادی کرلی تھی اور تین بچوں کی ماں بھی بن گئی تھی۔
گذشتہ ہفتے اپنی بیٹی سے ملاقات کو امیرہ اپنی زندگی کا یادگارترین لمحہ قرار دیتی ہے۔ امیرہ کا کہنا ہے کہ اس کے لیے وہ فیس بُک کی شکرگزار ہے جس کی بہ دولت وہ اپنی بچھڑی ہوئی بیٹی سے مل پائی۔ امیرہ اب اپنی والدہ اور بہن سے ملنے کے لیے سوڈان جانے کی تیاری کررہی ہے۔