پولیس کی غلطی کی ذمہ داری عدالتوں پر نہیں ڈالی جا سکتی نقیب کیس کا فیصلہ جاری
ملزمان کو شک کے فائدے سے محروم نہیں رکھا جا سکتا، فیصلہ
انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے نقیب اللہ محسود قتل کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کریمنل جسٹس سسٹم صرف شواہد پر کام کرتا ہے، پولیس کی غلطی کی ذمہ داری عدالتوں پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ پولیس کے شواہد کو قانون اور عدالتی معیار پر خانچا جاتا ہے۔
کراچی سینٹرل جیل میں انسداد دہشتگردی کمپلیکس میں خصوصی عدالت نمبر 16 نے نقیب اللہ محسود قتل کیس کا 43 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
تحریری فیصلے کے مطابق عدالت نے سابق ایس ایس ملیر راؤ انوار، ڈی ایس پی قمر احمد سمیت 18 ملزمان کو مقدمہ سے بری کر دیا۔ دیگر بری ہونے والوں میں محمد یاسین، سپرد حسین، سید رئیس عباس، خضر حیات، اللہ یار کاکا، محمد اقبال، ارشد علی، غلام نازک، عبد العلی، شفیق احمد، محمد انار، علی اکبر، فیصل محمود، خیر محمد، سید عمران کاظمی اور شکیل فیروز شامل ہیں۔
عدالت نے 7 مفرور ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔ مفرور ملزمان میں امان اللہ مروت، گدا حسین، محسن عباس، صداقت حسین شاہ، راجہ شمیم مختار، رانا ریاض اور شیخ محمد شعیب عرف شوٹر شامل ہیں۔
تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ مقدمے میں شکوک و شہبات پائے گئے ہیں۔ اسلامی اور عالمی اصول کے تحت شکوک و شہبات کا فائدہ ملزم کے حق میں جاتا ہے۔ یہ اصول ہے کہ قاضی کی غلطی سے سزا کے بجائے بریت کا فیصلہ بہتر ہے۔
خصوصی عدالت 16 کے معزز جج نے فیصلے میں کہا ہے کہ عدالت کی نظر میں استغاثہ کیس ثابت نہیں کرسکی لہٰذا ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔
تحریری فیصلے کے مطابق راؤ انوار کے وکیل عامر منسوب نے اپنے دلائل دیے تھے کہ استغاثہ کا مقدمہ ناقص شواہد پر مبنی ہے۔ استغاثہ کے مقدمہ میں شکوک و شہبات ہیں، شکوک و شہبات کا فائدہ ملزمان کے حق میں جاتا ہے جو دنیا کا اصول ہے۔ ملزمان کیخلاف براہ راست کوئی شواہد نہیں ہیں۔ ملزمان کیخلاف سی ڈی آر گواہی کے طور پر پیش کی گئی۔ راؤ انوار کو اس مقدمہ میں پیشہ وارانہ عناد کی بنیاد پر پھنسایا گیا۔ کسی گواہ نے راؤ انوار کی شناخت نہیں کی۔
تحریری فیصلے کے مطابق ملزم شکیل فیروز کی طرف سے فاروق حیات ایڈوکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے مؤکل کیخلاف مبینہ مقام کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں۔ واقعے سے ایک دن پہلے موبائل نمبر 03062509267 سے حاصل کیا گیا سی ڈی آر کی سچائی تیار کی گئی۔ اس حوالے سے کسی سیلولر کمپنی اور نہ ہی کسی اہلکار سے تصدیق کی۔
ملزمان یاسین، سپرد حسین اور سید عمران کاظمی کی جانب سے انور شیخ ایڈوکیٹ نے دلائل دیے تھے کہ موکلین کیخلاف کوئی شواہد ہے نہ ہی انہیں کسی نے شناخت کیا۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم خضر حیات کے وکیل رانا ارشد ایڈوکیٹ نے دلائل میں کہا کہ ان کے موکل کیخلاف کوئی ریکوری ہے نہ ہی کسی گواہ نے اسے شناخت کیا۔
ڈی ایس پی قمر احمد کے وکیل ملک مظہر حسین ایڈوکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل کو سی ڈی آر کی بنیاد پر نامزد کیا جو کہ ان کے مطابق ہے۔ میرے موکل واقعے کے بعد جائے حادثہ پر پہنچے۔ ملزمان محمد انار، خیر محمد، فیصل محمود، ارشد علی، عبد العلی، شفیق احمد، محمد اقبال اور غلام نازک کے وکلا عابد زمان ایڈوکیٹ اور غلام حسین ایڈوکیٹ نے دلائل میں کہا تھا کہ ان کے موکلیں کیخلاف پیش کیے گئے شواہد میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
مجید کھوسو ایڈوکیٹ ملزم اللہ یار کی جانب سے پیش ہوئے اور دلائل دیئے کہ گواہ محمد قاسم اور حضرت علی ملزم کو شناخت کرنے میں ناکام رہے۔ ملزم اکبر ملاح کے وکیل پیر اسد اللہ شاہ راشدی نے کہا کہ ان کے موکل کیخلاف استغاثہ شواہد پیش کرنے میں ناکام رہے، میرے موکل کی سی ڈی آر نہیں لی گئی۔ یہ بھی ثابت نہیں ہوا کہ دو عینی شاہد نقیب اللہ کے ہمرا تھے یا نہیں۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان کے مطابق کسی بھی ملزم کے موبائل فون کی فرانزک نہیں کروائی گئی۔ ریکارڈ کے مطابق راؤ انوار کی لوکیشن واقعے کے وقت ملیر کینٹ تھی۔
تفتیشی افسر نے بیان دیا تھا کہ ہم نے لوکیشن جاننے کی تفصیل کے متعلق ان کمپنیوں سے رابط نہیں کیا۔ مقتول نقیب اللہ محسود سمیت دیگر کو سہراب گوٹھ ہوٹل سے اٹھانے سے متعلق چشم دید گواہوں کی سی ڈی آر موصول ہوئی۔
تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ پولیس ٹیم نے بہاولپور جاکر مقتول محمد اسحاق کے بھائی ودیگر کے بیانات ریکارڈ کیے۔ پولیس ٹیم کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بیانات کے مطابق محمد اسحاق کو 10 اپریل 2016 کو پنجاب پولیس نے گرفتار کیا۔ واقعے میں دوسرے مقتول صابر کے رشتے داروں نے بتایا کہ اسے 10 نومبر 2016 کو پنجاب پولیس نے گرفتار کیا۔ تحریری فیصلے میں عینی شاہد قاسم کے بیان پر جرح کا حوالہ بھی دیا گیا کہ اس نے جرح کے دوران یہ تسلیم کیا تھا کہ یہ درست ہے کہ میں نے اپنے 23 جنوری 2018 کے بیان میں اس بات کا ذکر نہیں کیا تھا کہ ہمیں 3 یا 4 جنوری کو آغا شیر ہوٹل سے اغوا کیا گیا تھا۔ اس نے تسلیم کیا تھا کہ اس کا تعلق بھی وزیرستتان سے ہے اور اس کیخلاف وہاں فوجداری مقدمہ درج ہے۔
گواہ نے کہا تھا کہ درست ہے کہ میرے پولیس بیان میں یہ ذکر نہیں ہے کہ میں نے پولیس سے پوچھا کہ ہمیں کہاں لے جایا جا رہا ہے، تو جواب دیا گیا کہ ہمیں راؤ انوار کے پاس لے جایا جا رہا ہے جہاں سے آپ کو جنت بھیجا جائے گا۔ یہی بیان حضرت علی نے بھی دیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ گواہوں کے بیانات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے اغوا سے متعلق کسی اعلیٰ افسران یا کسی فورم پر کوئی بھی درخواست نہیں دی۔ صرف گواہوں ہی نے نہیں بلکہ ان کے اہلخانہ کی جانب سے کہیں بھی کوئی شکایت درج نہیں کروائی گئی۔
تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ ایک اخبار کے آرٹیکل میں اس مقدمے کو ٹیسٹ کیس قرار دیا گیا۔ زیر سماعت مقدمہ پر ٹی وی شوز کیے گئے۔ میڈیا کی رائے پر سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن موجود ہے۔ میڈیا کو زیر سماعت مقدمات میں قانون اور اخلاقیات برقرار رکھنا چاہیے۔
تحریری فیصلے کے مطابق آزادی اظہار رائے کو مقدمات کی شفافیت پر اثر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ فیصلہ آنے کے بعد جائز تجزیاتی رپورٹ اور صحت مند تنقید میڈیا کا حق ہے۔ کریمنل جسٹس سسٹم صرف شواہد پر کام کرتا ہے، پولیس کی غلطی کی ذمہ داری عدالتوں پر نہیں ڈالی جا سکتی، پولیس کے شواہد کو قانون اور عدالتی معیار پر خانچا جاتا ہے۔ جو شواہد جمع کیے گئے وہ ناکافی تھے۔ ملزمان کو شک کے فائدے سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔
کراچی سینٹرل جیل میں انسداد دہشتگردی کمپلیکس میں خصوصی عدالت نمبر 16 نے نقیب اللہ محسود قتل کیس کا 43 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
تحریری فیصلے کے مطابق عدالت نے سابق ایس ایس ملیر راؤ انوار، ڈی ایس پی قمر احمد سمیت 18 ملزمان کو مقدمہ سے بری کر دیا۔ دیگر بری ہونے والوں میں محمد یاسین، سپرد حسین، سید رئیس عباس، خضر حیات، اللہ یار کاکا، محمد اقبال، ارشد علی، غلام نازک، عبد العلی، شفیق احمد، محمد انار، علی اکبر، فیصل محمود، خیر محمد، سید عمران کاظمی اور شکیل فیروز شامل ہیں۔
عدالت نے 7 مفرور ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔ مفرور ملزمان میں امان اللہ مروت، گدا حسین، محسن عباس، صداقت حسین شاہ، راجہ شمیم مختار، رانا ریاض اور شیخ محمد شعیب عرف شوٹر شامل ہیں۔
تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ مقدمے میں شکوک و شہبات پائے گئے ہیں۔ اسلامی اور عالمی اصول کے تحت شکوک و شہبات کا فائدہ ملزم کے حق میں جاتا ہے۔ یہ اصول ہے کہ قاضی کی غلطی سے سزا کے بجائے بریت کا فیصلہ بہتر ہے۔
خصوصی عدالت 16 کے معزز جج نے فیصلے میں کہا ہے کہ عدالت کی نظر میں استغاثہ کیس ثابت نہیں کرسکی لہٰذا ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔
تحریری فیصلے کے مطابق راؤ انوار کے وکیل عامر منسوب نے اپنے دلائل دیے تھے کہ استغاثہ کا مقدمہ ناقص شواہد پر مبنی ہے۔ استغاثہ کے مقدمہ میں شکوک و شہبات ہیں، شکوک و شہبات کا فائدہ ملزمان کے حق میں جاتا ہے جو دنیا کا اصول ہے۔ ملزمان کیخلاف براہ راست کوئی شواہد نہیں ہیں۔ ملزمان کیخلاف سی ڈی آر گواہی کے طور پر پیش کی گئی۔ راؤ انوار کو اس مقدمہ میں پیشہ وارانہ عناد کی بنیاد پر پھنسایا گیا۔ کسی گواہ نے راؤ انوار کی شناخت نہیں کی۔
تحریری فیصلے کے مطابق ملزم شکیل فیروز کی طرف سے فاروق حیات ایڈوکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے مؤکل کیخلاف مبینہ مقام کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں۔ واقعے سے ایک دن پہلے موبائل نمبر 03062509267 سے حاصل کیا گیا سی ڈی آر کی سچائی تیار کی گئی۔ اس حوالے سے کسی سیلولر کمپنی اور نہ ہی کسی اہلکار سے تصدیق کی۔
ملزمان یاسین، سپرد حسین اور سید عمران کاظمی کی جانب سے انور شیخ ایڈوکیٹ نے دلائل دیے تھے کہ موکلین کیخلاف کوئی شواہد ہے نہ ہی انہیں کسی نے شناخت کیا۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم خضر حیات کے وکیل رانا ارشد ایڈوکیٹ نے دلائل میں کہا کہ ان کے موکل کیخلاف کوئی ریکوری ہے نہ ہی کسی گواہ نے اسے شناخت کیا۔
ڈی ایس پی قمر احمد کے وکیل ملک مظہر حسین ایڈوکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل کو سی ڈی آر کی بنیاد پر نامزد کیا جو کہ ان کے مطابق ہے۔ میرے موکل واقعے کے بعد جائے حادثہ پر پہنچے۔ ملزمان محمد انار، خیر محمد، فیصل محمود، ارشد علی، عبد العلی، شفیق احمد، محمد اقبال اور غلام نازک کے وکلا عابد زمان ایڈوکیٹ اور غلام حسین ایڈوکیٹ نے دلائل میں کہا تھا کہ ان کے موکلیں کیخلاف پیش کیے گئے شواہد میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
مجید کھوسو ایڈوکیٹ ملزم اللہ یار کی جانب سے پیش ہوئے اور دلائل دیئے کہ گواہ محمد قاسم اور حضرت علی ملزم کو شناخت کرنے میں ناکام رہے۔ ملزم اکبر ملاح کے وکیل پیر اسد اللہ شاہ راشدی نے کہا کہ ان کے موکل کیخلاف استغاثہ شواہد پیش کرنے میں ناکام رہے، میرے موکل کی سی ڈی آر نہیں لی گئی۔ یہ بھی ثابت نہیں ہوا کہ دو عینی شاہد نقیب اللہ کے ہمرا تھے یا نہیں۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان کے مطابق کسی بھی ملزم کے موبائل فون کی فرانزک نہیں کروائی گئی۔ ریکارڈ کے مطابق راؤ انوار کی لوکیشن واقعے کے وقت ملیر کینٹ تھی۔
تفتیشی افسر نے بیان دیا تھا کہ ہم نے لوکیشن جاننے کی تفصیل کے متعلق ان کمپنیوں سے رابط نہیں کیا۔ مقتول نقیب اللہ محسود سمیت دیگر کو سہراب گوٹھ ہوٹل سے اٹھانے سے متعلق چشم دید گواہوں کی سی ڈی آر موصول ہوئی۔
تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ پولیس ٹیم نے بہاولپور جاکر مقتول محمد اسحاق کے بھائی ودیگر کے بیانات ریکارڈ کیے۔ پولیس ٹیم کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بیانات کے مطابق محمد اسحاق کو 10 اپریل 2016 کو پنجاب پولیس نے گرفتار کیا۔ واقعے میں دوسرے مقتول صابر کے رشتے داروں نے بتایا کہ اسے 10 نومبر 2016 کو پنجاب پولیس نے گرفتار کیا۔ تحریری فیصلے میں عینی شاہد قاسم کے بیان پر جرح کا حوالہ بھی دیا گیا کہ اس نے جرح کے دوران یہ تسلیم کیا تھا کہ یہ درست ہے کہ میں نے اپنے 23 جنوری 2018 کے بیان میں اس بات کا ذکر نہیں کیا تھا کہ ہمیں 3 یا 4 جنوری کو آغا شیر ہوٹل سے اغوا کیا گیا تھا۔ اس نے تسلیم کیا تھا کہ اس کا تعلق بھی وزیرستتان سے ہے اور اس کیخلاف وہاں فوجداری مقدمہ درج ہے۔
گواہ نے کہا تھا کہ درست ہے کہ میرے پولیس بیان میں یہ ذکر نہیں ہے کہ میں نے پولیس سے پوچھا کہ ہمیں کہاں لے جایا جا رہا ہے، تو جواب دیا گیا کہ ہمیں راؤ انوار کے پاس لے جایا جا رہا ہے جہاں سے آپ کو جنت بھیجا جائے گا۔ یہی بیان حضرت علی نے بھی دیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ گواہوں کے بیانات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے اغوا سے متعلق کسی اعلیٰ افسران یا کسی فورم پر کوئی بھی درخواست نہیں دی۔ صرف گواہوں ہی نے نہیں بلکہ ان کے اہلخانہ کی جانب سے کہیں بھی کوئی شکایت درج نہیں کروائی گئی۔
تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ ایک اخبار کے آرٹیکل میں اس مقدمے کو ٹیسٹ کیس قرار دیا گیا۔ زیر سماعت مقدمہ پر ٹی وی شوز کیے گئے۔ میڈیا کی رائے پر سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن موجود ہے۔ میڈیا کو زیر سماعت مقدمات میں قانون اور اخلاقیات برقرار رکھنا چاہیے۔
تحریری فیصلے کے مطابق آزادی اظہار رائے کو مقدمات کی شفافیت پر اثر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ فیصلہ آنے کے بعد جائز تجزیاتی رپورٹ اور صحت مند تنقید میڈیا کا حق ہے۔ کریمنل جسٹس سسٹم صرف شواہد پر کام کرتا ہے، پولیس کی غلطی کی ذمہ داری عدالتوں پر نہیں ڈالی جا سکتی، پولیس کے شواہد کو قانون اور عدالتی معیار پر خانچا جاتا ہے۔ جو شواہد جمع کیے گئے وہ ناکافی تھے۔ ملزمان کو شک کے فائدے سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔