وہی کام کرتا ہوں جس سے خود مطمئن ہوں وقارعلی خان
ماڈلنگ، رائٹنگ، ڈائریکشن، میزبانی اوراداکاری میں نمایاں مقام رکھنے والے وقارعلی خان کا ’’ایکسپریس ‘‘کوخصوصی انٹرویو
KARACHI:
شوبزکی دنیا اوراس کی چکاچوند ہمیشہ ہی لوگوں کی توجہ کا مرکزرہتی ہے۔ بہت سے لوگ اس دنیا میں رہنے اورکام کرنے کے خواب دیکھتے ہیں لیکن یہ خواب صرف انہی لوگوں کے پورے کرتی ہے جن میں کچھ منفرد کام کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔
ایسے باصلاحیت لوگوں میں منفرد مقام پانے والے پاکستانی نژاد برطانوی ماڈل، میزبان ، ڈائریکٹر، رائٹر اور اداکار وقارعلی خان بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے دوران تعلیم ہی اس شعبے میں کامیابی حاصل کی اوراب تک کامیابیوں کی ایک لمبی فہرست اپنے نام کر چکے ہیں۔ وقارعلی خان کا تعلق برطانیہ کے شہرلندن سے ہے لیکن ان کی پیدائش پاکستان کی خوبصورت وادی سوات میں ہوئی۔ جب وہ صرف دو برس کے تھے توان کے والدین 1960ء میں برطانیہ منتقل ہوگئے تھے۔
وقارعلی خان شوبزسرگرمیوں میں حصہ لینے کیلئے اکثر پاکستان آتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں وہ ایک پروگرام کے سلسلہ میں جب لاہور پہنچے توانہوں نے ''نمائندہ ایکسپریس'' کوخصوصی انٹرویودیا ، جوقارئین کی نذر ہے۔
وقارعلی خان نے بتایا کہ میں نے اپنی ابتدائی اوراعلیٰ تعلیم لندن میں حاصل کی۔ میں نے بی ایس سی ان میڈیا اینڈ سوسائٹی کی ڈگری حاصل کی۔ چارسال تک جاری رہنے والی اس تعلیم کے دوران مجھے میڈیا کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ اس کورس میں ، میں نے پریکٹیکل سائیڈ آف ٹیلی ویژن میکنگ، کیمرہ، ایڈیٹنگ، لائیوسٹوڈیو، لوکیشن شوٹنگ، گرافک ڈیزائن، اکنامکس آف دی میڈیا، سائیکالوجی آف دی میڈیاسمیت دیگرشعبوں کے بارے میں پڑھایا گیا۔ ان چارسالوں میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
اس دوران یونیورسٹی کی جانب سے تمام سٹوڈنٹس کو ٹاسک دیا جاتاتھا کہ وہ میڈیا ہاؤسزمیں ملازمت بھی تلاش کریں۔ مجھ سمیت ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے سب لوگوں نے میڈیا ہاؤسزمیں ملازمت کیلئے اپنی درخواست بھجوائیں ۔ میں اورایک فرنچ لڑکا چارسالوں میں ہمیشہ کامیاب رہے۔ ہم کوچاروں برس اچھے اداروں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ فرسٹ ائیر کے دوران مجھے پہلی ملازمت '' سیلے ڈور پروڈکشنزکمپنی '' میں ملی جوبرطانیہ ہی نہیں بلکہ دنیا کی مشہورترین کمپنی ہے۔ اگلے برس مجھے بی بی سی اورپھر زی ٹی وی میں کام ملا۔ فائنل ائیرمیں، میں نے اپنی کمپنی بنالی۔
جس کا نام '' اوپن ڈور پروموشن '' رکھاگیا۔ اس طرح میں مستقل طورپرمیڈیا کے ساتھ وابستہ ہوگیا۔ 1996 ء میں، میں نے سُپرماڈل کا خطاب اپنے نام کیا۔ اس مقابلے میں دنیا بھرسے پرکشش نوجوانوں نے حصہ لیا تھا۔ دھیرے دھیرے میں کام کرتا رہااور مجھے بہترمواقع ملتے رہے۔ دنیا کی ایک معروف ترین ایڈ ایجنسی نے دنیا کے مقبول ترین برانڈزکی تشہیرکیلئے مجھے ماڈلنگ کا موقع ملا۔ اس طرح سے بہت سے انٹرنیشنل پراجیکٹس میرے نام کے ساتھ جڑگئے۔
انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ میرے تعلقات بڑھ رہے تھے اورکام کرتے ہوئے تجربہ بھی حاصل ہورہا تھا۔ اس دوران مجھے ایک انٹرٹینمنٹ چینل بنانے کی پیشکش ہوئی جس کے لئے مجھے بطوروائس پریذیڈنٹ سائن کیا گیا۔ یہ بہت چینلجنگ کام تھا لیکن میںنے ہمیشہ چینلجنگ کام کرنے کوترجیح دی ہے۔ مجھے وائس پریذیڈنٹ کا عہدہ سونپا گیا لیکن اس کے ساتھ میں نے میزبانی کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اس کے بعدمیں نے ایک میوزک چینل لانچ کردیا۔
پانچ سال بعد میں نے ایک اورچینل بنایا جس کیلئے میڈیا سے تعلق رکھنے والی ایک معروف پاکستانی شخصیت کا تعاون حاصل رہا۔ اس طرح سے ملازمت سے چینلزبنانے کا سفربہت تیزی کے ساتھ پورا ہوا۔ مجھے اپنی صلاحیتوں پربھروسہ ہے اس لئے مختصر عرصہ میں بے شمارکامیابیاں ملیں۔ میں خود کوبہت خوش نصیب سمجھتاہوں کہ میں نے اس شعبے کواپنایا حالانکہ میری فیملی میں تمام لوگ پیشے کے اعتبارسے ڈاکٹراوروکیل ہیں۔ اسلئے میرے والدین بھی مجھے ڈاکٹربنانا چاہتے تھے اورایک سال تک میں نے میڈیکل کی تعلیم بھی حاصل کی لیکن پھرمیں نے اپنے والد سے بات کی اوربتایاکہ میں ڈاکٹر نہیں بننا چاہتا جس پرانہوں نے میری بات سنی اورمجھے اس شرط پراجازت دی کہ اگرمیں میڈیا میں کامیاب نہ ہوسکاتوپھرمجھے ڈاکٹربننے کیلئے تعلیم شروع کرنا ہوگی۔
ایک سوال کے جواب میں وقارعلی خان نے کہا کہ میں ہالی وڈ سٹارکلنٹ ایسٹ ووڈ سے بہت متاثرہوں۔ میں نے اس کے بارے میں پڑھا کہ وہ کس طرح شوبزمیں آئے اورکس کس طرح کی دشواری کا سامنا کرنا کیا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اورایک دن قسمت کی دیوی ان پرایسی مہربان ہوئی کہ پھر انہوں نے پہلے بہترین اداکارکی حیثیت سے کامیابیاں سمیٹیں جبکہ بطور ڈائریکٹر بہت سے آسکرایوارڈزاپنے نام کئے۔ اسی طرح ہالی وڈ سٹارمارلن برانڈو کی شخصیت سے بھی بہت متاثر ہوں ۔ اس عظیم فنکارکا کہنا تھا کہ دنیا میں بہترین اداکاروہی ہے جواداکاری کرے لیکن دیکھنے والے کویہ محسوس نہ ہوکہ وہ اداکاری کررہا ہے۔ اس کیلئے بہت محنت درکارہوتی ہے ۔ اسی طرح باکسنگ کنگ محمد علی نے بھی مجھے بہت متاثرکیا۔ میں سات سال کی عمرمیں ان سے ملا تھا۔ اس موقع پر انہوںنے مجھے صلاح دی تھی کہ '' زندگی میں مرنے سے پہلے کچھ ایسا کام ضرورکرنا کہ لوگ تمہیں ہمیشہ یادرکھیں''۔ انکے اس مشورے نے مجھے اپنی زندگی میں منفرد کام کرنے میں بہت مدد کی۔ یہی وہ عظیم شخصیات ہیں جن کی کاوشوں نے مجھے کامیابی کی سیڑھی پرآگے بڑھنے کی ہمت دی۔
انہوں نے کہا کہ ویسے تومیں سولہ سال کی عمرسے ہی پارٹ ٹائم ماڈلنگ کرنے لگا تھا لیکن جب پہلی بار ریمپ پرچلنا جتنا مشکل لگا تھا ، آج بھی میں ریمپ پرچلتے ہوئے پریشان رہتا ہوں۔ حقیقت میں بہت شرمیلا ہوں، لیکن مجھے تجربہ کرنا اچھا لگتا ہے۔ میراخواب ہے کہ میں ایک دن بہترین ڈائریکٹربن سکوں۔ بطورڈائریکٹرمیں نے ڈاکومنٹری فلم، ویڈیو سانگزبنائے ہیں ۔ ڈائریکشن کے علاوہ پروڈکشن، رائٹنگ، میزبانی اورماڈلنگ کرنا بھی مجھے اچھا لگتا ہے۔ جہاں تک بات کسی کوکاپی کرنے کی ہے تومجھے کسی کوکاپی کرنا پسند نہیں ہے، مجھے جوکام اچھا لگتا ہے میں وہ ہی کام کرتاہوں۔ میرا ہیئرسٹائل ہمیشہ سے مختلف رہا ہے۔ جس پرلوگ اکثرتنقید کرتے تھے لیکن میں سمجھتاہوں کہ جوکام کرکے میں خود مطمئن محسوس کرتاہوں وہ ٹھیک ہے۔شادی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وقار علی خان نے بتایاکہ شادی میں نے اس لڑکی سے کی جس کومیں نے پہلی باردیکھا تھا۔ میری لومیرج ہے جس کووالدین نے ارینج کیا۔ میری بیوی کا تعلق ایران سے ہے اورمیرے دو بیٹے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ''مجھے بھارتی فلم ''ڈھائی اکشرپریم کے'' میں کام کرنے کیلئے سائن کیا گیاتھا لیکن میں نے شوٹنگ پرپہنچنے کے بعد کام کرنے سے انکارکردیاتھا کیونکہ ایک قریبی دوست نے مشورہ دیا کہ یہ فلم تمہارے لئے ٹھیک نہیں ہے ۔ پاکستان میں فلم ''جلیبی''سائن کی ہے اس فلم کے ڈائریکٹریاسرجسوال اورپروڈیوسرمرتضٰی شاہ ہیں۔ دونوں بہت پروفیشنل ہیں اوران کومعلوم ہے کہ کس طرح سے بین الاقوامی معیار کے مطابق کام کیا جا سکتا ہے۔ اس فلم کو اکتوبر میں نمائش کیلئے پیش کیا جائے گا۔ میرے ساتھی فنکاروںمیں اداکاردانش تیمور، علی سفینا، ژالے، اصل دین خان، عدنان جعفر، سمیت دیگرشامل ہیں۔
پاکستان کے حوالے سے انہوں نے بتایاکہ یہاں کا موسم مجھے بہت پسند ہے۔ کھانے میں بریانی، چکن کڑاھی ، گول گپے ، پراٹھا، میٹھاپان، لسی اوردال چاول بہت زیادہ پسند ہیں۔ جہاں تک بات دہشتگردی کی ہے توصرف پاکستان میں نہیں بلکہ امریکہ، برطانیہ ، کیوبا، مصر، فلسطین، ایران، اعراق میں دہشتگردی ہے۔ اس وقت ہر جگہ پردہشتگردی ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ پاکستان کے پاس بہترین فوج، نیوی اورائیرفورس ہے ۔ پاکستان کے پاس دنیا کے قابل ترین لوگ ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کے حالات خراب کرنے کیلئے کچھ انٹرنیشنل قوتیں کام کررہی ہیں۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود یہاں پربجلی نہیں ہے۔ انرجی نہ ہوتو پاکستان ایٹمی طاقت نہیں بن سکتا تھا۔ اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ انرجی کرائسسزہے۔ میرے نزدیک انرجی بھی ہے لیکن کچھ ڈائریکشن درست نہیں جس کی وجہ سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ دوسری جانب میرا تعلق سوات سے ہے جو دنیا کے خوبصورت ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہونگے کہ کوئین الزبتھ کئی برس قبل سوات آچکی ہے جبکہ محمدعلی باکسر، مارلن برانڈو، لینارڈوکیپریو، انجلینا جولی، براڈ پٹ، سمیت بہت سے ہالی وڈسٹارسوات آتے ہیں۔
انٹرویوکے آخرمیں وقارعلی خان نے اپنے پیغام میں کہا کہ نوجوان بسم اللہ پڑھ کرشروع کریں، اپنے کام کو ایمانداری سے کیا جائے توہر کام اچھاہوتاہے۔ نوجوان اس پرتوجہ دیں تو کامیابی ان کے قدم چومے گی۔
شوبزکی دنیا اوراس کی چکاچوند ہمیشہ ہی لوگوں کی توجہ کا مرکزرہتی ہے۔ بہت سے لوگ اس دنیا میں رہنے اورکام کرنے کے خواب دیکھتے ہیں لیکن یہ خواب صرف انہی لوگوں کے پورے کرتی ہے جن میں کچھ منفرد کام کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔
ایسے باصلاحیت لوگوں میں منفرد مقام پانے والے پاکستانی نژاد برطانوی ماڈل، میزبان ، ڈائریکٹر، رائٹر اور اداکار وقارعلی خان بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے دوران تعلیم ہی اس شعبے میں کامیابی حاصل کی اوراب تک کامیابیوں کی ایک لمبی فہرست اپنے نام کر چکے ہیں۔ وقارعلی خان کا تعلق برطانیہ کے شہرلندن سے ہے لیکن ان کی پیدائش پاکستان کی خوبصورت وادی سوات میں ہوئی۔ جب وہ صرف دو برس کے تھے توان کے والدین 1960ء میں برطانیہ منتقل ہوگئے تھے۔
وقارعلی خان شوبزسرگرمیوں میں حصہ لینے کیلئے اکثر پاکستان آتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں وہ ایک پروگرام کے سلسلہ میں جب لاہور پہنچے توانہوں نے ''نمائندہ ایکسپریس'' کوخصوصی انٹرویودیا ، جوقارئین کی نذر ہے۔
وقارعلی خان نے بتایا کہ میں نے اپنی ابتدائی اوراعلیٰ تعلیم لندن میں حاصل کی۔ میں نے بی ایس سی ان میڈیا اینڈ سوسائٹی کی ڈگری حاصل کی۔ چارسال تک جاری رہنے والی اس تعلیم کے دوران مجھے میڈیا کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ اس کورس میں ، میں نے پریکٹیکل سائیڈ آف ٹیلی ویژن میکنگ، کیمرہ، ایڈیٹنگ، لائیوسٹوڈیو، لوکیشن شوٹنگ، گرافک ڈیزائن، اکنامکس آف دی میڈیا، سائیکالوجی آف دی میڈیاسمیت دیگرشعبوں کے بارے میں پڑھایا گیا۔ ان چارسالوں میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
اس دوران یونیورسٹی کی جانب سے تمام سٹوڈنٹس کو ٹاسک دیا جاتاتھا کہ وہ میڈیا ہاؤسزمیں ملازمت بھی تلاش کریں۔ مجھ سمیت ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے سب لوگوں نے میڈیا ہاؤسزمیں ملازمت کیلئے اپنی درخواست بھجوائیں ۔ میں اورایک فرنچ لڑکا چارسالوں میں ہمیشہ کامیاب رہے۔ ہم کوچاروں برس اچھے اداروں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ فرسٹ ائیر کے دوران مجھے پہلی ملازمت '' سیلے ڈور پروڈکشنزکمپنی '' میں ملی جوبرطانیہ ہی نہیں بلکہ دنیا کی مشہورترین کمپنی ہے۔ اگلے برس مجھے بی بی سی اورپھر زی ٹی وی میں کام ملا۔ فائنل ائیرمیں، میں نے اپنی کمپنی بنالی۔
جس کا نام '' اوپن ڈور پروموشن '' رکھاگیا۔ اس طرح میں مستقل طورپرمیڈیا کے ساتھ وابستہ ہوگیا۔ 1996 ء میں، میں نے سُپرماڈل کا خطاب اپنے نام کیا۔ اس مقابلے میں دنیا بھرسے پرکشش نوجوانوں نے حصہ لیا تھا۔ دھیرے دھیرے میں کام کرتا رہااور مجھے بہترمواقع ملتے رہے۔ دنیا کی ایک معروف ترین ایڈ ایجنسی نے دنیا کے مقبول ترین برانڈزکی تشہیرکیلئے مجھے ماڈلنگ کا موقع ملا۔ اس طرح سے بہت سے انٹرنیشنل پراجیکٹس میرے نام کے ساتھ جڑگئے۔
انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ میرے تعلقات بڑھ رہے تھے اورکام کرتے ہوئے تجربہ بھی حاصل ہورہا تھا۔ اس دوران مجھے ایک انٹرٹینمنٹ چینل بنانے کی پیشکش ہوئی جس کے لئے مجھے بطوروائس پریذیڈنٹ سائن کیا گیا۔ یہ بہت چینلجنگ کام تھا لیکن میںنے ہمیشہ چینلجنگ کام کرنے کوترجیح دی ہے۔ مجھے وائس پریذیڈنٹ کا عہدہ سونپا گیا لیکن اس کے ساتھ میں نے میزبانی کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اس کے بعدمیں نے ایک میوزک چینل لانچ کردیا۔
پانچ سال بعد میں نے ایک اورچینل بنایا جس کیلئے میڈیا سے تعلق رکھنے والی ایک معروف پاکستانی شخصیت کا تعاون حاصل رہا۔ اس طرح سے ملازمت سے چینلزبنانے کا سفربہت تیزی کے ساتھ پورا ہوا۔ مجھے اپنی صلاحیتوں پربھروسہ ہے اس لئے مختصر عرصہ میں بے شمارکامیابیاں ملیں۔ میں خود کوبہت خوش نصیب سمجھتاہوں کہ میں نے اس شعبے کواپنایا حالانکہ میری فیملی میں تمام لوگ پیشے کے اعتبارسے ڈاکٹراوروکیل ہیں۔ اسلئے میرے والدین بھی مجھے ڈاکٹربنانا چاہتے تھے اورایک سال تک میں نے میڈیکل کی تعلیم بھی حاصل کی لیکن پھرمیں نے اپنے والد سے بات کی اوربتایاکہ میں ڈاکٹر نہیں بننا چاہتا جس پرانہوں نے میری بات سنی اورمجھے اس شرط پراجازت دی کہ اگرمیں میڈیا میں کامیاب نہ ہوسکاتوپھرمجھے ڈاکٹربننے کیلئے تعلیم شروع کرنا ہوگی۔
ایک سوال کے جواب میں وقارعلی خان نے کہا کہ میں ہالی وڈ سٹارکلنٹ ایسٹ ووڈ سے بہت متاثرہوں۔ میں نے اس کے بارے میں پڑھا کہ وہ کس طرح شوبزمیں آئے اورکس کس طرح کی دشواری کا سامنا کرنا کیا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اورایک دن قسمت کی دیوی ان پرایسی مہربان ہوئی کہ پھر انہوں نے پہلے بہترین اداکارکی حیثیت سے کامیابیاں سمیٹیں جبکہ بطور ڈائریکٹر بہت سے آسکرایوارڈزاپنے نام کئے۔ اسی طرح ہالی وڈ سٹارمارلن برانڈو کی شخصیت سے بھی بہت متاثر ہوں ۔ اس عظیم فنکارکا کہنا تھا کہ دنیا میں بہترین اداکاروہی ہے جواداکاری کرے لیکن دیکھنے والے کویہ محسوس نہ ہوکہ وہ اداکاری کررہا ہے۔ اس کیلئے بہت محنت درکارہوتی ہے ۔ اسی طرح باکسنگ کنگ محمد علی نے بھی مجھے بہت متاثرکیا۔ میں سات سال کی عمرمیں ان سے ملا تھا۔ اس موقع پر انہوںنے مجھے صلاح دی تھی کہ '' زندگی میں مرنے سے پہلے کچھ ایسا کام ضرورکرنا کہ لوگ تمہیں ہمیشہ یادرکھیں''۔ انکے اس مشورے نے مجھے اپنی زندگی میں منفرد کام کرنے میں بہت مدد کی۔ یہی وہ عظیم شخصیات ہیں جن کی کاوشوں نے مجھے کامیابی کی سیڑھی پرآگے بڑھنے کی ہمت دی۔
انہوں نے کہا کہ ویسے تومیں سولہ سال کی عمرسے ہی پارٹ ٹائم ماڈلنگ کرنے لگا تھا لیکن جب پہلی بار ریمپ پرچلنا جتنا مشکل لگا تھا ، آج بھی میں ریمپ پرچلتے ہوئے پریشان رہتا ہوں۔ حقیقت میں بہت شرمیلا ہوں، لیکن مجھے تجربہ کرنا اچھا لگتا ہے۔ میراخواب ہے کہ میں ایک دن بہترین ڈائریکٹربن سکوں۔ بطورڈائریکٹرمیں نے ڈاکومنٹری فلم، ویڈیو سانگزبنائے ہیں ۔ ڈائریکشن کے علاوہ پروڈکشن، رائٹنگ، میزبانی اورماڈلنگ کرنا بھی مجھے اچھا لگتا ہے۔ جہاں تک بات کسی کوکاپی کرنے کی ہے تومجھے کسی کوکاپی کرنا پسند نہیں ہے، مجھے جوکام اچھا لگتا ہے میں وہ ہی کام کرتاہوں۔ میرا ہیئرسٹائل ہمیشہ سے مختلف رہا ہے۔ جس پرلوگ اکثرتنقید کرتے تھے لیکن میں سمجھتاہوں کہ جوکام کرکے میں خود مطمئن محسوس کرتاہوں وہ ٹھیک ہے۔شادی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وقار علی خان نے بتایاکہ شادی میں نے اس لڑکی سے کی جس کومیں نے پہلی باردیکھا تھا۔ میری لومیرج ہے جس کووالدین نے ارینج کیا۔ میری بیوی کا تعلق ایران سے ہے اورمیرے دو بیٹے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ''مجھے بھارتی فلم ''ڈھائی اکشرپریم کے'' میں کام کرنے کیلئے سائن کیا گیاتھا لیکن میں نے شوٹنگ پرپہنچنے کے بعد کام کرنے سے انکارکردیاتھا کیونکہ ایک قریبی دوست نے مشورہ دیا کہ یہ فلم تمہارے لئے ٹھیک نہیں ہے ۔ پاکستان میں فلم ''جلیبی''سائن کی ہے اس فلم کے ڈائریکٹریاسرجسوال اورپروڈیوسرمرتضٰی شاہ ہیں۔ دونوں بہت پروفیشنل ہیں اوران کومعلوم ہے کہ کس طرح سے بین الاقوامی معیار کے مطابق کام کیا جا سکتا ہے۔ اس فلم کو اکتوبر میں نمائش کیلئے پیش کیا جائے گا۔ میرے ساتھی فنکاروںمیں اداکاردانش تیمور، علی سفینا، ژالے، اصل دین خان، عدنان جعفر، سمیت دیگرشامل ہیں۔
پاکستان کے حوالے سے انہوں نے بتایاکہ یہاں کا موسم مجھے بہت پسند ہے۔ کھانے میں بریانی، چکن کڑاھی ، گول گپے ، پراٹھا، میٹھاپان، لسی اوردال چاول بہت زیادہ پسند ہیں۔ جہاں تک بات دہشتگردی کی ہے توصرف پاکستان میں نہیں بلکہ امریکہ، برطانیہ ، کیوبا، مصر، فلسطین، ایران، اعراق میں دہشتگردی ہے۔ اس وقت ہر جگہ پردہشتگردی ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ پاکستان کے پاس بہترین فوج، نیوی اورائیرفورس ہے ۔ پاکستان کے پاس دنیا کے قابل ترین لوگ ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کے حالات خراب کرنے کیلئے کچھ انٹرنیشنل قوتیں کام کررہی ہیں۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود یہاں پربجلی نہیں ہے۔ انرجی نہ ہوتو پاکستان ایٹمی طاقت نہیں بن سکتا تھا۔ اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ انرجی کرائسسزہے۔ میرے نزدیک انرجی بھی ہے لیکن کچھ ڈائریکشن درست نہیں جس کی وجہ سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ دوسری جانب میرا تعلق سوات سے ہے جو دنیا کے خوبصورت ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہونگے کہ کوئین الزبتھ کئی برس قبل سوات آچکی ہے جبکہ محمدعلی باکسر، مارلن برانڈو، لینارڈوکیپریو، انجلینا جولی، براڈ پٹ، سمیت بہت سے ہالی وڈسٹارسوات آتے ہیں۔
انٹرویوکے آخرمیں وقارعلی خان نے اپنے پیغام میں کہا کہ نوجوان بسم اللہ پڑھ کرشروع کریں، اپنے کام کو ایمانداری سے کیا جائے توہر کام اچھاہوتاہے۔ نوجوان اس پرتوجہ دیں تو کامیابی ان کے قدم چومے گی۔