کانگریس اور بی جے پی میں برتری کی جنگ

آسام کی14میں سے5 اور تری پورہ کی2 میں سے ایک نشست کے لیے پولنگ ہوئی ،


Editorial April 07, 2014
پاک بھارت پہلے ہی ایجنڈا ترتیب دے چکے ہیں مگر اس پربات چیت نئی حکومت کی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جانے کا امکان ہے۔ فوٹو اے ایف پی

بھارت میں لوک سبھا (ایوان زیریں) کی 543 نشستوں کے لیے 9 مرحلوں پر مشتمل عام انتخابات پیر سے شمال مشرقی علاقوں سے شروع ہوئے جن میں آسام کی14میں سے5 اور تری پورہ کی2 میں سے ایک نشست کے لیے پولنگ ہوئی ، کانگریس ، بی جے پی ،عام آدمی پارٹی اور سماج وادی پارٹی نے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے اپنے بڑے مہرے میدان میں اتار دیے ہیں ، تمام پارٹیز نے اپنے منشور میں ووٹرز سے بھانت بھانت کے وعدے کیے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے حوالہ سے بھارتی الیکشن کے خطے پر دور رس اثرات و نتائج سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا تاہم اس وقت بھارتی جمہوریت کو معاشی، عسکری ، سیاسی،انتظامی اور عالمی سطح پر بڑے ہی نا خوشگوار مسائل کا سامنا ہے ، ماہرین کے مطابق ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت عالمی اور داخلی محاذ پر کمزور ثابت ہوئی اور پاکستان سے تعلقات میںنمایاں بریک تھرو نہیں کرسکی ۔جہاں تک خواتین پر تشدد اور بیوروکریسی میں کرپشن کا معاملہ ہے شاید اسی کے نتیجہ میں کانگریس کو بی جے پی کی طرف سے ہولناک انتخابی حملہ کا خطرہ محسوس ہورہا ہے۔راہول گاندھی نے اعتراف کیا ہے کہ کانگریس کے دور حکومت میں ترقی ضرور ہوئی مگر پارٹی عوام سے دور ہوتی چلی گئی۔ ادھر کیجروال کی عام آدمی پارٹی کے خلاف بھارتی سیاسی اشرافیہ کی کارروائی سے کانگریس کے سیکولر سحر کو شدید دھچکا لگا ہے ۔ شائننگ انڈیاکے معاشی ایجنڈے کے سرد پڑتے ہوئے شور و غوغا میں بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ اس کی آیندہ گڈ گورننس اور معاشی شعبے میں شرح نمو کی پالیسی بھارتیوں کی کایا پلٹ دے گی، کانگریس کے امیدوار نریندر مودی کا کہنا ہے کہ وہ بد نیتی پر مبنی کوئی کام نہیں کریں گے ۔

تاہم عالمی سطح پر ان کے طرز سیاست پر عالمی اور داخلی تحفظات اظہر من الشمس ہیں ۔انتخابی پنڈتوں کے مطابق اصل مقابلہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہو گا،انتخابی جائزوں کی روشنی میں انتہا پسند جماعت بی جے پی کو برتری حاصل ہے جب کہ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی انتخابات میں جھکاؤ اگرچہ نریندر مودی کی طرف ہی نظر آرہا ہے تاہم کئی اپ سیٹ ہوسکتے ہیں ۔ مبصرین نے پیشگوئی کی ہے کہ جاری انتخابات بھارت کی تاریخ کے سب سے غیریقینی اوربدترین انتخابات ثابت ہوںگے۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے اپنے پرانے حلقے رائے بریلی سے جب کہ ان کی بیٹی پریانکا گاندھی نے بنارس سے کاغذات جمع کرائے ہیں۔ بنارس کے حلقہ سے عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروندکیجروال ، لکھنو کی سب سے بڑی سیٹ جہاں اٹل بہاری واجپائی امیدوار ہوا کرتے تھے اب بھارتیا جنتا پارٹی کے صدر پروفیسر راجناتھ سنگھ نے وہاں سے کاغذات جمع کرادیے ہیں۔ گجرات گاندھی نگرکی سیٹ پر ایڈوانی امیدوار ہیں۔ راہول گاندھی امیٹھی یوپی سے امیدوار ہیں ۔ سابق وزیر دفاع ملائم سنگھ یادو اب یوپی کے دو حلقوں میں پوری اور اعظم گڑھ سے امیدوار ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ مایاوتی نے بھی لکھنو سے لوک سبھا کے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔اسلام آ باد سے سفارتی ذرایع کے مطابق وفاقی حکومت بھارت میں رواں ماہ عام انتخابات کے انعقاد اور نئی حکومت کی تشکیل کے بعد ہی پاک بھارت مذاکرات سے متعلق پالیسی کو حتمی شکل دے گی جو پاک بھارت مذاکرات کے لیے وضع کردہ8نکاتی ایجنڈا کشمیر' سیاچن' سرکریک اور وولر بیراج کے علاوہ کئی اور اہم معاملات کا احاطہ کرتا ہے۔

پاک بھارت پہلے ہی ایجنڈا ترتیب دے چکے ہیں مگر اس پربات چیت نئی حکومت کی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جانے کا امکان ہے۔ پچھلے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے والی کانگریس کو اس بار بھارتی جنتا کے مریضانہ رجحان کا سامنا ہے۔ مودی کی شخصیت اور ان کا انداز سیاست ، کرپشن الزامات ، کمزور قیادت اور معیشت کی سست روی نے پارٹی کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ادھر بی جے پی کرناٹک میں اپنی حیثیت کھو رہی ہے۔ اس طرح علاقائی اور چھوٹی پارٹیوں کو اپنی اہمیت جتانے کا موقع ملے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی انتخابات میں جھکاؤ اگرچہ نریندرمودی کی طرف ہی نظر آرہا ہے تاہم کئی نشستوں پر اپ سیٹ ہوسکتے ہیں۔نئی بھارتی حکومت کے بنیادی ایشوز ڈومیسٹک ہوں گے پاکستان بنیادی ایشو نہیں ہوگا' ایک تجزیہ کار کے مطابق نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ وزیر اعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے نے کہا ہے کہ نئی بھارتی حکومت سے مسئلہ کشمیر پر نتیجہ خیز مذاکرات ہوسکتے ہیں ، پاکستان بھارتی انتخابات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد ہی کسی واضح رائے کا اظہار کرسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔