آپ اگر صحافی بننا چاہتے ہیں
آپ اگر صحافت کےطالب علم ہیں توپھر5 کام آپ کی روٹین ہونے چاہئیں بالکل اسی طرح جس طرح ٹوتھ پیسٹ‘ ناشتہ‘ جرابیں اور کنگھی
آپ اگر صحافت کے طالب علم ہیں' آپ ماس کمیونیکیشن میں بی اے یا ایم اے کر رہے ہیں تو پھر آپ کو ڈگری لینے سے پہلے پانچ کام ضرور کرنے چاہئیں' یہ کام آپ کی روٹین ہونے چاہئیں بالکل اسی طرح جس طرح ٹوتھ پیسٹ' ناشتہ' جرابیں اور کنگھی آپ کا معمول ہیں' ان پانچ کاموں میں سے پہلا کام مطالعہ ہے' آپ مطالعے کو اس طرح عادت بنالیں جس طرح ناشتہ آپ کی عادت ہے' آپ تین قسم کی سیاسی کتابوں کا مطالعہ کریں' ایک' تازہ ترین سیاسی کتب' یہ کتابیں بین الاقوامی سیاستدانوں' لیڈروں اور اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کی بائیو گرافی بھی ہو سکتی ہیں اور ان کے مضامین کا مجموعہ بھی۔ مثلاً آج کل رابرٹ گیٹس کی کتاب ''ڈیوٹی'' بہت مقبول ہے' اس سے قبل بل کلنٹن کی کتاب مائی لائف اور جارج بش کی کتاب ''Decision Points'' بہت مشہور ہوئی' آپ ان کتب کا مطالعہ کریں۔ دو' آپ ان کتب کا مطالعہ کریں جو آپ کی پیدائش اور آپ کی پرائمری تعلیم کے دوران مارکیٹ میں آئی تھیں' یہ کتابیں بھی سیاسی' جغرافیائی اور آپ بیتیوں پر مشتمل ہونی چاہئیں' آپ مشہور صحافیوں کی آپ بیتیاں بھی ضرور پڑھیں اور ادیبوں' شاعروں اور سماجی کارکنوں کی بائیوگرافیز بھی۔ تین' آپ اپنی پیدائش سے 20 سال قبل لکھی جانے والی کتابیں پڑھیں'یہ کتابیں آپ کے علم میں اضافہ کریں گی' آپ اگر فکشن یا ادب کو پسند کرتے ہیں تو آپ دس بیس فیصد ادبی کتابیں بھی پڑھیں' آپ روز کم از کم دو اخبارات کا مطالعہ ضرور کریں' آپ کے پاس ایک ہینڈ سائز ڈائری ہونی چاہیے' آپ کو کتابوں اور اخبارات میں سے جواچھی چیزملے' آپ اسے فوراً ڈائری میں لکھ لیں اور آپ کو جب بھی وقت ملے آپ ڈائری نکالیں اور اپنے نوٹس پڑھنا شروع کر دیں' اس سے آپ کا دماغ معلومات کا خزانہ بنتا چلا جائے گا' آپ دماغی طور پر اپنے کلاس فیلوز سے آگے ہوں گے۔
دوسرا کام' آپ تین صحافی منتخب کریں' ایک اردو صحافی ہونا چاہیے'دوسرا انگریزی اور تیسرے کا تعلق بین الاقوامی میڈیا سے ہونا چاہیے' آپ ان کی تمام تحریریں' خبریں اور تجزیے پڑھ جائیں' آپ لائبریریوں میں جا کر ان کی پرانی تحریریں نکالیں اور گھول کر پی جائیں' آپ ان کی شخصیت' ان کے کام کرنے کے طریقے' ان کی فیملی لائف اور زندگی کے بارے میں ان کی فلاسفی تک پڑھ لیں' آپ جب انھیں پوری طرح جان لیں تو آپ ان سے ملاقات کریں' آپ ان کے شاگرد' برخوردار بلکہ خادم بن جائیں' آپ کی یہ پریکٹس آپ کو صحافی بنا جائے گی' میں نے طالب علمی کے دور میں تین صحافیوں کی ''ہٹ لسٹ'' بنائی تھی' عطاء الحق قاسمی' خالد حسن (مرحوم) اور آرٹ بک والڈ۔ میں ان کو ان سے زیادہ جانتا تھا' میں جب ان تینوں کا حافظ ہو گیا تو میں نے ان سے ملاقات کے لیے صرف پانچ پانچ منٹ مانگے' میں 1997ء میں عطاء الحق صاحب سے ملا' میں تین بجے ان کے کمرے میں داخل ہوا اور رات گیارہ بجے باہر نکلا' یہ ملاقات عمربھر کی دوستی بن گئی' خالدحسن صاحب گورا ٹائپ انسان تھے' یہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے باذوق اور ذہین شخص کے ساتھی رہے تھے' یہ آسانی سے متاثر نہیں ہو سکتے تھے' میں انھیں 2001ء میں واشنگٹن میں ملا' میں نے ان کے موبائل پر پیغام چھوڑا ''آپ مجھے پانچ منٹ دیں' آپ میرے ساتھ پانچ گھنٹے بیٹھے رہیں گے'' خالد صاحب کا فون آ گیا' ملاقات طے ہوئی اور خالد صاحب اس کے بعد مجھے پانچ دن ملتے رہے'مجھے ان کی وہ تحریریں بھی یاد تھیں جنھیں وہ خود بھی بھول چکے تھے' یہ دوستی ان کے آخری وقت تک جاری رہی اور آرٹ بک والڈ کے ساتھ بھی یہی ہوا' میں نے بڑی مشکل سے ان سے ملاقات کا وقت لیا' ملاقات شروع ہوئی اور پھر چلتی رہی' میں پاکستان سے جب بھی ان سے رابطہ کرتا تھا تو وہ مجھے ''رنگ بیک'' کرتے تھے' وہ پاکستان آنا چاہتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں مہلت نہیں دی' میں نے ان سے سیکھا'' دنیا کے تمام ہنر ''ٹیم ورک'' ہوتے ہیں' آپ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتے جب تک آپ ٹیم بنانے کی صلاحیت پیدا نہیں کرتے'' وہ کہتے تھے ''میں نوجوان بھرتی کرتا ہوں' یہ نوجوان مجھ سے سیکھتے ہیں اور میں بعد ازاں انھیں مارکیٹ کے حوالے کر دیتا ہوں' یہ لوگ میری طرف سے صحافت کے لیے تحفہ ہوتے ہیں'' آپ بھی تین صحافیوں کی ''ہٹ لسٹ'' بنائیں' انھیں فالو کریں اور یہ لوگ آپ کو صحافی بنا دیں گے۔
ہم اب آتے ہیں تیسرے کام کی طرف۔ صحافت کے چار بنیادی شعبے ہیں' ایڈیٹنگ' رپورٹنگ' رائیٹنگ اور شوٹنگ' صحافت کے باقی تمام شعبے ان چار شعبوں کی اولاد ہیں' آپ ان میں سے کسی ایک شعبے کا انتخاب کریں اور تعلیم کے دوران یہ کام سیکھنا شروع کر دیں' آپ کسی ''ورکنگ جرنلسٹ'' کا چھوٹا بن جائیں' آپ روز چند گھنٹوں کے لیے ''استاد'' کے پاس جائیں اور اس کا ہاتھ بٹائیں' یہ فری سروس آپ کو ڈگری سے قبل ہنر اور مہارت بھی دے گی اور کام کرنے کا گُر بھی سکھائے گی' یہ آپ میں مستقل مزاجی کی عادت بھی ڈال دے گی' میں یونیورسٹی کے دور میں بہاولپور کے ایک سینئر صحافی سے ایڈیٹنگ سیکھتا تھا' وہ مجھ سے روزانہ تین خبریں ایڈٹ کرواتا تھا' ان تین خبروں کے عوض میں اسے ہفتے میں دو بار رات کے تین بجے گھر چھوڑ کر آتا تھا' یہ مشکل ترین مرحلہ ہوتا تھا کیونکہ وہ نشے میں دھت ہوتا تھا اور وہ اپنے گھر کے بجائے کسی دوسرے گھر میں گھسنا چاہتا تھا اور میری ذمے داری ہوتی تھی میں اسے اسی کے گھر چھوڑ کر آؤں اور میں یہ فرض پوری ایمانداری سے ادا کرتا رہا' اس مشقت کا یہ فائدہ ہوا میں جب یونیورسٹی سے نکلا تو ڈگری کے ساتھ ساتھ مجھے خبر ایڈٹ کرنا بھی آتا تھا جب کہ میرے باقی کلاس فیلوز اس معاملے میں بالکل کورے تھے لہٰذا وہ اس کورے پن کی وجہ سے صحافت کی پرخار وادی میں ٹھہر نہ سکے۔
چوتھا کام' صحافت کانٹیکیٹ یا رابطوں کا شعبہ ہے' اس پیشے میں سماجی رابطے سٹیئرنگ کی حیثیت رکھتے ہیں' آپ اگر رابطے نہیں بنا سکتے تو آپ کے صحافی بننے کے چانس کم ہو جاتے ہیں چنانچہ آپ طالب علمی کے زمانے سے سماجی رابطے بڑھانا شروع کردیں' آپ مقامی سیاستدانوں سے ملیں' ان سے سیاست اور پارلیمنٹ کے بارے میں پوچھیں' آپ تھانے جائیں اور تھانے کے عملے سے قانونی معلومات حاصل کریں' آپ کے علاقے کا ایس ایچ او کوئی بڑا مجرم پکڑ لے تو آپ اس سے ملیں اور اس کی تعریف کریں' وہ آپ کو اپنی کامیابی کی چند ایسی چیزیں بتائے گا جو آپ نے اخبارات میں بھی نہیں پڑھی ہوں گی' آپ اس ایس ایچ او سے رابطہ استوار کر لیں' آپ اپنے ضلع کے ایس پی یا ایس ایس پی سے بھی ملاقات کریں' اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سے بھی ملیں' آپ علاقے کے تمام سرکاری دفتروں میں جائیں' افسروں سے ملاقات کریں اور ان سے محکمے کا ''پروسیجر'' پوچھیں' آپ کے گھر بجلی' گیس' ٹیلی فون' سیوریج اور واٹر سپلائی ہو گی مگر آپ نے کبھی یہ نہیں سوچا ہو گا' آپ کے گھر پانی کہاں سے آتا ہے' سیوریج کی لائنیں آخر میں کہاں جاتی ہیں' ٹیلی فون کا نیشنل نیٹ ورک کہاں ہے' گیس کہاں سے چلتی ہے اور کہاں پہنچتی ہے اور بجلی کی مین ٹرانسمشن لائین کس کو کہتے ہیں' فیڈر کیا ہوتا ہے اور ٹرانسفارمر کیا کام کرتا ہے' آپ طالب علمی کے زمانے میں ان محکموں کے دفاتر جائیں'ان سے بنیادی معلومات حاصل کریں اور خدانخواستہ اگرملک کے کسی حصے کی ٹرانسمیشن لائین میں فالٹ آ جائے تو آپ واپڈا کے مقامی ملازمین کے پاس جائیں اور ان سے اس فالٹ کے بارے میں پوچھیں' آپ پوسٹ مارٹم ہوتے ہوئے دیکھیں' فوجی ٹینک میں بیٹھ کر اس کا معائنہ کریں اور محکمہ انہار کے نظام کو سمجھنے کی کوشش کریں' یہ معلومات اور یہ رابطے آپ کی عملی زندگی میں بہت کام آئیں گے۔
اور پانچواں کام۔ صحافت صرف پیشہ نہیں یہ جنون ہے' آپ اسے جب تک جنون نہیں سمجھیں گے' آپ اس میں کامیاب نہیں ہو ں گے' آپ اس پیشے کو مشرقی عورت کا نکاح سمجھیں' آپ اگر اس میں ایک بار آ گئے تو پھر آپ جان لیں اب یہاں سے آپ کی نعش ہی جانی چاہیے' ڈولی نہیں' آپ اگر مستقل مزاج نہیں ہیں' آپ روٹین کو فالو نہیں کر سکتے' آپ نوکریاں یا کام چھوڑنے کے عادی ہیں یا پھر آپ تیزی سے ترقی کرنا چاہتے ہیں تو پھر صحافت آپ کا پیشہ نہیں ہو سکتا' یہ ہلکی آنچ پر پکنے والی ڈش ہے' یہ برگر یا سینڈوچ نہیں کہ آپ اسے اٹھا کر منہ میں ڈال لیں گے' آپ اگر صحافی بننا چاہتے ہیں تو پھر صبر' مستقل مزاجی اور صحافت کا جنون آپ کی شخصیت کا حصہ ہونا چاہیے بالکل خشونت سنگھ کی طرح۔ خشونت سنگھ برصغیر کے عظیم صحافی تھے' ان کا 20 مارچ 2014ء کو 99 سال کی عمر میں انتقال ہوا' یہ پوری زندگی رات آٹھ بجے ڈنر کرتے تھے' دس بجے سو جاتے تھے اور صبح چار بجے اٹھتے تھے' خشونت سنگھ کی اس روٹین نے انھیں35 کتابوں کا مصنف اور برصغیر کا سب سے بڑا صحافی بنایا' آپ بھی خشونت سنگھ بن سکتے ہیں لیکن آپ کو اس کے لیے خشونت سنگھ کا ڈسپلن اپنانا ہوگا' آپ اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر آپ صحافی ضرور بن سکتے ہیں لیکن اچھے صحافی نہیں۔
دوسرا کام' آپ تین صحافی منتخب کریں' ایک اردو صحافی ہونا چاہیے'دوسرا انگریزی اور تیسرے کا تعلق بین الاقوامی میڈیا سے ہونا چاہیے' آپ ان کی تمام تحریریں' خبریں اور تجزیے پڑھ جائیں' آپ لائبریریوں میں جا کر ان کی پرانی تحریریں نکالیں اور گھول کر پی جائیں' آپ ان کی شخصیت' ان کے کام کرنے کے طریقے' ان کی فیملی لائف اور زندگی کے بارے میں ان کی فلاسفی تک پڑھ لیں' آپ جب انھیں پوری طرح جان لیں تو آپ ان سے ملاقات کریں' آپ ان کے شاگرد' برخوردار بلکہ خادم بن جائیں' آپ کی یہ پریکٹس آپ کو صحافی بنا جائے گی' میں نے طالب علمی کے دور میں تین صحافیوں کی ''ہٹ لسٹ'' بنائی تھی' عطاء الحق قاسمی' خالد حسن (مرحوم) اور آرٹ بک والڈ۔ میں ان کو ان سے زیادہ جانتا تھا' میں جب ان تینوں کا حافظ ہو گیا تو میں نے ان سے ملاقات کے لیے صرف پانچ پانچ منٹ مانگے' میں 1997ء میں عطاء الحق صاحب سے ملا' میں تین بجے ان کے کمرے میں داخل ہوا اور رات گیارہ بجے باہر نکلا' یہ ملاقات عمربھر کی دوستی بن گئی' خالدحسن صاحب گورا ٹائپ انسان تھے' یہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے باذوق اور ذہین شخص کے ساتھی رہے تھے' یہ آسانی سے متاثر نہیں ہو سکتے تھے' میں انھیں 2001ء میں واشنگٹن میں ملا' میں نے ان کے موبائل پر پیغام چھوڑا ''آپ مجھے پانچ منٹ دیں' آپ میرے ساتھ پانچ گھنٹے بیٹھے رہیں گے'' خالد صاحب کا فون آ گیا' ملاقات طے ہوئی اور خالد صاحب اس کے بعد مجھے پانچ دن ملتے رہے'مجھے ان کی وہ تحریریں بھی یاد تھیں جنھیں وہ خود بھی بھول چکے تھے' یہ دوستی ان کے آخری وقت تک جاری رہی اور آرٹ بک والڈ کے ساتھ بھی یہی ہوا' میں نے بڑی مشکل سے ان سے ملاقات کا وقت لیا' ملاقات شروع ہوئی اور پھر چلتی رہی' میں پاکستان سے جب بھی ان سے رابطہ کرتا تھا تو وہ مجھے ''رنگ بیک'' کرتے تھے' وہ پاکستان آنا چاہتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں مہلت نہیں دی' میں نے ان سے سیکھا'' دنیا کے تمام ہنر ''ٹیم ورک'' ہوتے ہیں' آپ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتے جب تک آپ ٹیم بنانے کی صلاحیت پیدا نہیں کرتے'' وہ کہتے تھے ''میں نوجوان بھرتی کرتا ہوں' یہ نوجوان مجھ سے سیکھتے ہیں اور میں بعد ازاں انھیں مارکیٹ کے حوالے کر دیتا ہوں' یہ لوگ میری طرف سے صحافت کے لیے تحفہ ہوتے ہیں'' آپ بھی تین صحافیوں کی ''ہٹ لسٹ'' بنائیں' انھیں فالو کریں اور یہ لوگ آپ کو صحافی بنا دیں گے۔
ہم اب آتے ہیں تیسرے کام کی طرف۔ صحافت کے چار بنیادی شعبے ہیں' ایڈیٹنگ' رپورٹنگ' رائیٹنگ اور شوٹنگ' صحافت کے باقی تمام شعبے ان چار شعبوں کی اولاد ہیں' آپ ان میں سے کسی ایک شعبے کا انتخاب کریں اور تعلیم کے دوران یہ کام سیکھنا شروع کر دیں' آپ کسی ''ورکنگ جرنلسٹ'' کا چھوٹا بن جائیں' آپ روز چند گھنٹوں کے لیے ''استاد'' کے پاس جائیں اور اس کا ہاتھ بٹائیں' یہ فری سروس آپ کو ڈگری سے قبل ہنر اور مہارت بھی دے گی اور کام کرنے کا گُر بھی سکھائے گی' یہ آپ میں مستقل مزاجی کی عادت بھی ڈال دے گی' میں یونیورسٹی کے دور میں بہاولپور کے ایک سینئر صحافی سے ایڈیٹنگ سیکھتا تھا' وہ مجھ سے روزانہ تین خبریں ایڈٹ کرواتا تھا' ان تین خبروں کے عوض میں اسے ہفتے میں دو بار رات کے تین بجے گھر چھوڑ کر آتا تھا' یہ مشکل ترین مرحلہ ہوتا تھا کیونکہ وہ نشے میں دھت ہوتا تھا اور وہ اپنے گھر کے بجائے کسی دوسرے گھر میں گھسنا چاہتا تھا اور میری ذمے داری ہوتی تھی میں اسے اسی کے گھر چھوڑ کر آؤں اور میں یہ فرض پوری ایمانداری سے ادا کرتا رہا' اس مشقت کا یہ فائدہ ہوا میں جب یونیورسٹی سے نکلا تو ڈگری کے ساتھ ساتھ مجھے خبر ایڈٹ کرنا بھی آتا تھا جب کہ میرے باقی کلاس فیلوز اس معاملے میں بالکل کورے تھے لہٰذا وہ اس کورے پن کی وجہ سے صحافت کی پرخار وادی میں ٹھہر نہ سکے۔
چوتھا کام' صحافت کانٹیکیٹ یا رابطوں کا شعبہ ہے' اس پیشے میں سماجی رابطے سٹیئرنگ کی حیثیت رکھتے ہیں' آپ اگر رابطے نہیں بنا سکتے تو آپ کے صحافی بننے کے چانس کم ہو جاتے ہیں چنانچہ آپ طالب علمی کے زمانے سے سماجی رابطے بڑھانا شروع کردیں' آپ مقامی سیاستدانوں سے ملیں' ان سے سیاست اور پارلیمنٹ کے بارے میں پوچھیں' آپ تھانے جائیں اور تھانے کے عملے سے قانونی معلومات حاصل کریں' آپ کے علاقے کا ایس ایچ او کوئی بڑا مجرم پکڑ لے تو آپ اس سے ملیں اور اس کی تعریف کریں' وہ آپ کو اپنی کامیابی کی چند ایسی چیزیں بتائے گا جو آپ نے اخبارات میں بھی نہیں پڑھی ہوں گی' آپ اس ایس ایچ او سے رابطہ استوار کر لیں' آپ اپنے ضلع کے ایس پی یا ایس ایس پی سے بھی ملاقات کریں' اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سے بھی ملیں' آپ علاقے کے تمام سرکاری دفتروں میں جائیں' افسروں سے ملاقات کریں اور ان سے محکمے کا ''پروسیجر'' پوچھیں' آپ کے گھر بجلی' گیس' ٹیلی فون' سیوریج اور واٹر سپلائی ہو گی مگر آپ نے کبھی یہ نہیں سوچا ہو گا' آپ کے گھر پانی کہاں سے آتا ہے' سیوریج کی لائنیں آخر میں کہاں جاتی ہیں' ٹیلی فون کا نیشنل نیٹ ورک کہاں ہے' گیس کہاں سے چلتی ہے اور کہاں پہنچتی ہے اور بجلی کی مین ٹرانسمشن لائین کس کو کہتے ہیں' فیڈر کیا ہوتا ہے اور ٹرانسفارمر کیا کام کرتا ہے' آپ طالب علمی کے زمانے میں ان محکموں کے دفاتر جائیں'ان سے بنیادی معلومات حاصل کریں اور خدانخواستہ اگرملک کے کسی حصے کی ٹرانسمیشن لائین میں فالٹ آ جائے تو آپ واپڈا کے مقامی ملازمین کے پاس جائیں اور ان سے اس فالٹ کے بارے میں پوچھیں' آپ پوسٹ مارٹم ہوتے ہوئے دیکھیں' فوجی ٹینک میں بیٹھ کر اس کا معائنہ کریں اور محکمہ انہار کے نظام کو سمجھنے کی کوشش کریں' یہ معلومات اور یہ رابطے آپ کی عملی زندگی میں بہت کام آئیں گے۔
اور پانچواں کام۔ صحافت صرف پیشہ نہیں یہ جنون ہے' آپ اسے جب تک جنون نہیں سمجھیں گے' آپ اس میں کامیاب نہیں ہو ں گے' آپ اس پیشے کو مشرقی عورت کا نکاح سمجھیں' آپ اگر اس میں ایک بار آ گئے تو پھر آپ جان لیں اب یہاں سے آپ کی نعش ہی جانی چاہیے' ڈولی نہیں' آپ اگر مستقل مزاج نہیں ہیں' آپ روٹین کو فالو نہیں کر سکتے' آپ نوکریاں یا کام چھوڑنے کے عادی ہیں یا پھر آپ تیزی سے ترقی کرنا چاہتے ہیں تو پھر صحافت آپ کا پیشہ نہیں ہو سکتا' یہ ہلکی آنچ پر پکنے والی ڈش ہے' یہ برگر یا سینڈوچ نہیں کہ آپ اسے اٹھا کر منہ میں ڈال لیں گے' آپ اگر صحافی بننا چاہتے ہیں تو پھر صبر' مستقل مزاجی اور صحافت کا جنون آپ کی شخصیت کا حصہ ہونا چاہیے بالکل خشونت سنگھ کی طرح۔ خشونت سنگھ برصغیر کے عظیم صحافی تھے' ان کا 20 مارچ 2014ء کو 99 سال کی عمر میں انتقال ہوا' یہ پوری زندگی رات آٹھ بجے ڈنر کرتے تھے' دس بجے سو جاتے تھے اور صبح چار بجے اٹھتے تھے' خشونت سنگھ کی اس روٹین نے انھیں35 کتابوں کا مصنف اور برصغیر کا سب سے بڑا صحافی بنایا' آپ بھی خشونت سنگھ بن سکتے ہیں لیکن آپ کو اس کے لیے خشونت سنگھ کا ڈسپلن اپنانا ہوگا' آپ اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر آپ صحافی ضرور بن سکتے ہیں لیکن اچھے صحافی نہیں۔