فوری توجہ کے طلب گار اوورسیز پاکستانی

وطن عزیز میں اقتدار کی ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو پرامن منتقلی محض ایک نیک شگون ہی نہیں


Shakeel Farooqi April 08, 2014
[email protected]

وطن عزیز میں اقتدار کی ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو پرامن منتقلی محض ایک نیک شگون ہی نہیں بلکہ ایک صحت مند روایت کا مبارک قیام بھی ہے۔ سچی اور کھری بات یہ ہے کہ داخلی اور خارجی مسائل میں گھرا ہوا ہمارا پیارا پاکستان طالع آزمائی اور منفی سیاست کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے سیاست داں تمام ذاتی اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہوکر وطن عزیز کو طرح طرح کے بحرانوں سے نکالنے کے لیے حب الوطنی کے جذبے اور خدمت وطن کی سچی لگن سے سرشار ہوکر روز و شب کام کریں اور تمام معاملات میں مثبت سوچ اور رویہ اختیار کریں۔

اس سے انکار ممکن نہیں کہ میاں نواز شریف کی تیسری حکومت کو ٹیک آف کرنے میں اچھا خاصا وقت لگ گیا ہے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید اس کے قبل از اقتدار ہوم ورک میں کچھ کمی اور کسر رہ گئی تھی، جس کا ایک واضح ثبوت یہ بھی ہے کہ بعض انتہائی اہم اداروں کے سربراہوں کی تقرری کا عمل ابھی تک سست روی کا شکار ہے۔ تاہم اس سمت میں تازہ ترین پیش رفت امید افزا اور لائق تحسین ہے جس کے حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف اس مرتبہ Look Before You Leap کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور ان کی کوشش یہ ہے کہ جو بھی قدم اٹھایا جائے وہ خوب دیکھ بھال کر اور پھونک پھونک کر اٹھایا جائے۔

ماضی کے تلخ تجربے نے ہمیں یہ سبق سکھایا ہے کہ قومی اہمیت کے ہر ادارے میں وہ سربراہ مقرر کیا جائے جو نہ صرف ایماندار اور دیانت دار ہو بلکہ مطلوبہ قابلیت اور اہلیت کے معیار پر بھی پورا اترتا ہو۔ بڑے بڑے اہم اداروں کی تباہی اور بربادی کا بنیادی سبب بھی یہی ہے کہ ان اداروں کو کرپٹ اور نااہل سربراہوں کے حوالے کردیا گیا تھا۔ کبھی یہی ادارے سرکاری شعبے کی نیک نامی اور کامیابی کے ضامن ہوا کرتے تھے مگر اب ان ہی اداروں کی نجکاری کے چرچے عام ہیں۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، یہ کہاوت اب وزیراعظم میاں نواز شریف پر صادق آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے میاں صاحب اپنے تیسرے دور حکومت میں تمام امور اور معاملات کو خوب سوچ سمجھ کر آگے کی جانب لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں اور انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کا یہ طرز عمل بھی ان کی سیاسی بلوغت کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ اپنی توانائیاں خواہ مخواہ کی چپقلش اور کھینچا تانی پر ضایع کرنے کے بجائے وطن عزیز کی ترقی اور تعمیر پر ہی صرف کرنا چاہتے ہیں جوکہ ایک لائق تحسین اور جمہوریت کے شایان شان مثبت رویہ ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بعض معاملات میں وہ اپنے حریفوں کو کبھی اپنے ساتھ لے کر چلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

وزارت خارجہ کا قلم دان بھی وزیراعظم نے خود اپنے پاس ہی رکھا ہوا ہے اور اس اہم ترین وزارت کے امور وہ اپنے معاونین کی مدد اور مشاورت سے انجام دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہم ان کی فوری توجہ ان پاکستانیوں کی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں جو ملک و قوم کے کماؤ پوت اور کل وقتی سفیر بھی ہیں۔ دیار غیر میں مقیم ان فرزندان و دختران وطن کی تعداد 70 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو نہ صرف بیرونی ممالک میں وطن عزیز کا نام روشن کرنے میں پیش پیش ہیں بلکہ اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ کما کما کر اپنے ملک کا خزانہ بھرنے میں ہمہ تن مصروف اور سرگرم ہیں۔ ملک کو معاشی بحرانوں سے نکالنے کے لیے ان سمندر پار پاکستانیوں نے ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان ہی عظیم پاکستانیوں کی محنت کی بدولت یہ ملک کئی بار Defaulter ہونے سے بال بال بچا ہے۔ لیکن نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے اس دودھ دینے والی گائے کو استعمال تو بہت کیا ہے مگر ان کے مسائل کی جانب کوئی قابل ذکر توجہ نہیں دی ہے۔ ہم نے ان سمندر پار پاکستانیوں کو بڑے چھوٹے چھوٹے اور معمولی معمولی کاموں کے سلسلے میں مختلف ممالک کے سفارت خانوں میں صبح سے شام تک رلتے ہوئے اور دھکے کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ افسوس کہ سفارت خانوں میں تعینات بیشتر عملہ خود کو آقا سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ بسا اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ متعلقہ عملہ اپنی اپنی جگہوں سے غائب یا پھر خوش گپیوں میں مصروف ہوتا ہے اور اپنے ان لائق تحسین اور قابل قدر ہم وطنوں کے ساتھ لاتعلقی اور بے توجہی کے ساتھ پیش آتا ہے، جس کی وجہ سے یہ لوگ نہ صرف بددل بلکہ بری طرح پریشان بھی ہوجاتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ سفارت خانوں میں اوورسیز پاکستانیوں کی شنوائی کے لیے کوئی معقول بندوبست بھی نہیں۔ بعض اوقات تو شکایت کرنے والوں کو لینے کے دینے بھی پڑ جاتے ہیں اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ بقول شاعر:

ہم نے سوچا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد

وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا

اس وقت بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں سرفہرست Machine Readable Passports کے حصول کا مسئلہ ہے۔ ہاتھ سے بنے ہوئے پاسپورٹس کا طریقہ کار اب دنیا بھر کے ممالک میں ترک کیا جا چکا ہے جس کی بنیادی وجہ جعلی پاسپورٹس کا مکمل اور موثر سدباب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ممالک نے تو دستی پاسپورٹس کو قبول کرنے سے ہی انکار کردیا ہے۔ نتیجتاً متعدد ممالک میں ملازمت کی غرض سے رہائش پذیر ان پاکستانیوں کو جن کے پاس ہاتھ سے بنے ہوئے پاسپورٹس ہیں دوسرے ملکوں کے سفر میں رکاوٹ پیش آرہی ہے۔ چونکہ جن پاکستانی سفارت خانوں میں مشین سے تیار کیے جانے والے کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹس کی تیاری کا بندوبست موجود نہیں ہے وہاں مقیم پاکستانیوں کو اس مقصد کے لیے پاکستان کا سفر کرنا پڑتا ہے جو نہ صرف تکلیف کا باعث ہے بلکہ بہت مہنگا بھی ہے کیونکہ سفری اخراجات بعض اوقات لاکھوں روپوں میں ہوتے ہیں۔ وقت کا ضایع ہونا اور خواہ مخواہ کی خواری اور دقت اس کے علاوہ ہے۔ اس سلسلے میں سب سے قابل ذکر مثال جاپان کی ہے جہاں کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹ کے اجرا کے لیے مطلوبہ مشنری اور عملے کی منظوری کو تو کئی سال گزر چکے تاہم بات اجازت نامے کی حد سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ یہی حال ملائیشیا کا ہے جہاں پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ وہاں کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹ تیار کرنے والی مشینیں تو بہت عرصہ پہلے فراہم کر دی گئی تھیں لیکن مطلوبہ عملے کا بندوبست ایک سنگین اور ناقابل حل مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اگر حالات یہی رہے تو ان مشینوں کو پڑے پڑے زنگ لگ جائے گا اور قوم کی خون پسینے کی کمائی سے خریدی گئی تمام مشینری ناکارہ ہوجائے گی۔ دوسرا اہم اور توجہ طلب مسئلہ بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے بچوں کی تعلیم کا ہے جہاں پاکستانی اسکولوں کی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی مثال جاپان کی ہے جہاں تقریباً دس ہزار پاکستانی بسلسلہ معاش رہائش پذیر ہیں مگر ان کے بچوں کی تعلیم کے لیے کوئی پاکستانی اسکول موجود نہیں ہے۔وطن عزیز میں رہنے والے اپنے پیاروں کی خیر و عافیت دریافت کرنا اور ان کے ساتھ مسلسل رابطہ برقرار رکھنا بھی بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانیوں کا ایک بہت پرانا اور سنگین مسئلہ ہے۔ اپنوں کی آواز سن کر اور سنا کر جو قلبی سکون سمندر پار پاکستانیوں کو حاصل ہوتا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ لیکن یہ سودا انھیں انتہائی مہنگا پڑتا ہے کیونکہ ٹیلی فون چارجز ایک عام آدمی کی قوت برداشت سے باہر ہیں۔ اس سلسلے میں وزیراعظم سے ہماری ذاتی گزارش یہ ہے کہ سابقہ حکومت نے بیرونی ملک سے کی جانے والی کالز پر مختلف ٹیکس لاگو کرکے جو ستم ظریفانہ اضافہ کیا تھا اس پر نظر ثانی کرکے فوری طور پر کال چارجز میں خاطر خواہ کمی کی جائے۔ ہمیں پوری امید ہے کہ وزیر اعظم کے علم میں آنے کے بعد اوورسیز پاکستانیوں کی وزارت فوراً سرگرم ہوجائے گی اور بلاتاخیر مطلوبہ اقدامات کرے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔