حکومتی سطح پر سادگی کلچر کو فروغ دیا جائے

زندہ قومیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر ہی اپنی منزل حاصل کر سکتی ہیں


Editorial January 26, 2023
زندہ قومیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر ہی اپنی منزل حاصل کر سکتی ہیں۔ فوٹو: جی او پی

ہم آئی ایم ایف کے ساتھ اپنا پروگرام مکمل کریں گے، پاکستان کو بچانے کے لیے سیاست کو قربان کرنا ہوگا، ملک کو مشکلات سے نکالیں گے۔

ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے پرائم منسٹر یوتھ بزنس اینڈ ایگری لونز اسکیم کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انھوں نے مزید کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ غریبوں پر بوجھ ڈالیں اور امراء قرضوں پر عیاشیاں کریں۔ ماضی سے سبق سیکھیں اور آگے بڑھیں۔

دوسری جانب ذرایع کے مطابق پاکستان آئی ایم ایف کو پٹرولیم لیوی اور گیس کی قیمت بڑھانے سمیت ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل کرنے کی یقین دہانی کرادی ہے۔

وزیراعظم نے انتہائی درد مندی کے ساتھ معاشی صورتحال کی درست تصویر عوام کے سامنے پیش کی ہے۔

نوجوانوں کو اپنے پاؤں پرکھڑا کرنے کے لیے قرضوں کا اجراء ایک مستحسن عمل ہے ، کیونکہ اس وقت تعلیم یافتہ نوجوان ایک بڑی تعداد میں بیرون ملک جا رہے ہیں اور اِس عمل کو '' برین ڈرین'' کہا جاتا ہے جس میں وقت کے ساتھ تیزی آرہی ہے ، حکومت کو اس عمل کو فوری طور پر روکنا ہوگا۔

ضروریات ِزندگی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے لوگوں کو مفلسی میں دھکیل دیا ہے اِن بد ترین معاشی بحران کے حالات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔

سیاسی وجوہات کی بنا پر ہماری حکومت سخت مگر ضروری اقدامات لینے سے گریز کررہی ہے جب کہ آئی ایم ایف کا دباؤ ہے کہ اُس کی شرائط کو '' من وعن '' تسلیم کیا جائے جب کہ حکومت کے لیے ٹیکس شرح بڑھا کر مہنگائی میں اضافہ کافی مشکل ہوگیا ہے اور اگر آئی ایم ایف کے مطالبات تسلیم کیے گئے تو بلاشبہ اس سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا لیکن حکومت کے پاس یہ کڑوی گولی نگلنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔

مذاکرات سے قبل ہمیں کچھ پیشگی اقدامات بھی لینے ہوں گے جن میں روپے کی قدر میں کمی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ شامل ہے۔ حالیہ مہینوں میں قومی آمدنی (ریونیو کلیکشن) میں کمی نے اقتصادی اصلاحات کو بہت ضروری بنادیا ہے۔

یقینی طور پر آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی پاکستان کو درپیش موجودہ معاشی مشکلات سے نکلنے کا حل نہیں لیکن دیگر مالیاتی اداروں سے معاملات طے کرنے کے لیے یہ اہم کردار ادا کرے گی، ہمیں اپنے طور فوری اور سخت گیر قسم کی معاشی اصلاحات کرنا ہوں گی' اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کے تنخواہ دار ٹیکس دہندگان اپنی آمدنی کا ایک اہم حصہ آبادی کے غیر تنخواہ دار طبقے کے مقابلے میں ادا کر رہے ہیں جو بڑی حد تک غیر رسمی ہے۔

پاکستان میں ٹیکس اور سروس فراہمی کا ڈھانچہ گزشتہ چند برس سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، اگر اسے حل نہ کیا گیا تو اس کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ پاکستان کے موجودہ ٹیکس سسٹم کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ بااثر طبقے کی جانب سے غریب طبقے کے لیے ہے۔

80 فیصد بالواسطہ ٹیکس آمدن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اینڈ یوزر یعنی غریب لوگ ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ پچیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والا فرد بھی انڈے، ڈبل روٹی، کپڑوں سمیت دیگر اشیاء پر وہی ٹیکس ادا کررہا ہے جو 15لاکھ روپے ماہانہ کمانے والا دے رہا ہے۔

آمدنی کے لحاظ سے ٹیکس لیا جاتا تو پاکستان کی ٹیکس آمدن موجودہ سے بہت مختلف ہوتی۔ دوسری جانب ٹیکس ریبیٹ، ریفنڈز اور سبسڈی کی دیگر اقسام بھی متمول طبقے کے لیے ہوتی ہیں غریبوں کے لیے نہیں۔ بجلی، گیس اور پٹرول پر دی جانے والی سبسڈی متذکرہ بالا سبسڈیز کے آگے کچھ بھی نہیں۔ ٹیکس سے متعلق ادارے، کلیکشن سسٹم اور متعلقہ بیوروکریسی بھی مسئلے کا حصہ ہے۔

ایف بی آر میں ایسی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے کہ ٹیکس کلیکشن فنکشن فسکل پالیسی اور پلاننگ، ٹیکس ریبیٹس مستثنیات وغیرہ سے مختلف ہو۔ ٹیکس کی ادائیگی کے نظام اور طریقہ ہائے کار کو بھی آسان بنایا جانا چاہیے۔ ایف بی آر کے افسران بڑی مچھلیوں سے ٹیکس کے حصول کے بجائے چھوٹے چھوٹے ٹیکس دہندگان پر وقت صرف کرنے کو ترجیح دیتے ہیں یا شاید بڑی مچھلیاں ان کی پہنچ سے دور ہوتی ہیں۔

یہ بھی تخمینہ لگایا جانا چاہیے کہ ایف بی آر افسران چھوٹے ٹیکس دہندگان پر کتنا وقت صرف کرتے ہیں۔پاکستان میں حکومتیں ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کی کوششیں کرتی رہی ہیں، اس مقصد کے لیے مختلف ایمنسٹی اسکیمیں بھی دی جاتی رہیں مگر کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔آج بھی فعال ٹیکس دہندگان کی تعداد صرف چند لاکھ ہے جو کل آبادی کا 1 فیصد بنتا ہے اور 80 فیصد سے زائد ریونیو بالواسطہ ٹیکس کے ذریعے اکٹھا ہوتا ہے۔

ٹیکس نیٹ وسیع نہ ہونے کی تین اہم وجوہ ہیں۔ حکومتوں پر عوام کا عدم اعتماد، ٹیکس سسٹم میں عدم مساوات اور ٹیکس جمع کرنے کا قدیم نظام۔ ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے اہلکار کاروباری طبقے اور تاجروں کے ساتھ پولیس جیسا درشت رویہ اختیار کرتے ہیں ، اگر ان کا رویہ مہذبانہ ہو تو اس سے لوگوں کا حکومت پر اعتماد قائم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ، اگر زیادہ نہیں تو اپنی آمدنی کی بنیاد کو بڑھانے کے لیے ہر حکومت نے یا تو کارپوریٹ ٹیکسوں میں اضافہ کیا ہے یا 'ون آف ٹیکس' عائد کیے ہیں جو اکثر وقتی کے بجائے دائمی ہو جاتے ہیں، اِن سے معیشت میں موجود مراعات پر اثر پڑتا ہے اور اِس سے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے سرمایہ باضابطہ معیشت کو چھوڑتا رہتا ہے جب کہ غیر رسمی معیشت ترقی کرتی ہے جس کا ثبوت گزشتہ پانچ سالوں کے دوران زیر گردش نقد رقم میں اضافے کی صورت دیکھا جا سکتا ہے۔

کسی ایک طبقے کو حاصل مراعات کی بگڑی ہوئی نوعیت کے پیش نظر معاشی اصلاح اور زیادہ ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے معیشت میں دوبارہ سرمایہ کاری کرنے کے بجائے غیر پیداواری اقدامات زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں جن سے معاشی ترقی بے معنی ہو جاتی ہے اور اگر حالیہ اصلاحات (کوششوں) کو بھی دیکھا جائے تو بالخصوص ٹیکس اقدامات کے ذریعے ریاست باضابطہ معیشت سے غیر رسمی معیشت کی طرف بڑھ رہی ہے جیسا کہ گزشتہ حکومتوں نے کیا تھا۔

گزشتہ ایک دہائی کے دوران غیر رسمی معیشت کے حجم میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جیسا کہ زیر گردش نقد رقم میں بھی اضافے کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کے ذخائر اور سرکاری شعبے کے ذخائر کے تناسب کی صورتحال کو دیکھا جاسکتا ہے چونکہ نجی شعبہ باضابطہ معیشت میں سرمایہ کاری سے گریز کرتا ہے اِس وجہ سے حقیقی معنوں میں ٹیکس وصولی مسلسل سکڑتی جا رہی ہے۔

پالیسی کے تسلسل اور مستقل مزاجی کے فقدان نے نجی سرمائے کو اس مقام کی طرف دھکیل دیا ہے جہاں حکومت پر کوئی اعتماد باقی نہیں اور عمومی رائے یہی ہے کہ حکومت ٹیکس چوروں کے بجائے ٹیکس دہندگان کو سزا دیتی ہے۔

ٹیکس ادائیگی سکڑتی جا رہی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہا تو جلد ہی وہ وقت آئے گا جب حکومت صرف سرکاری شعبے پر ٹیکس عائد کرے گی اور متوازی معیشت بنانی پڑے گی جب کہ حقیقی معیشت بڑی حد تک غیر رسمی (غیر دستاویزی ) نوعیت کی ہوگی۔

خراب پالیسی اقدامات کا سب سے زیادہ خمیازہ تنخواہ دار طبقے کو اُٹھانا پڑتا ہے جس ٹیکس دہندگان کی فہرست میں سب سے زیادہ ٹیکسز ادا کرتے ہیں اور جنھوں نے مسلسل افراط زر کی وجہ سے نہ صرف حقیقی آمدنی میں کمی دیکھی ہے بلکہ اب وہ ایسے ماحول میں زیادہ ٹیکس بھی ادا کریں گے جہاں افراط زر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔

اس سے حقیقی آمدنی اور قوت خرید میں نمایاں کمی آئے گی۔ لوگ ٹیکس اپنی آمدنی پر زبردستی وصولی کی صورت ادا کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جہاں ٹیکس ادا کرنا ممکن ہوتا ہے وہاں ٹیکس چوری کی کوشش کی جاتی ہے۔پاکستان کی اشرافیہ کے رہن سہن کو دیکھیں تو ایسے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان ایک غریب نہیں بلکہ ترقی یافتہ ملک ہے۔

یہ عیاشیاں، سرخ قالین ریسیپشن اور سیر سپاٹے ۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کی شبانہ روز محنت اور طویل جدوجہد کے بعد پاکستان کا قیام ممکن ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے اپنے فرمودات کے ذریعے سادگی اور کفایت شعاری کی نہ صرف تلقین کی ، بلکہ بطور گورنر جنرل اس پر خود بھی عمل پیرا ہوئے۔

آج ہمارے حکمران سیکڑوں اراکین پارلیمنٹ کو بجٹ کی منظوری کے موقع پر یا کوئی اہم بل پاس کرانا ہو پرتکلف دعوت پر مدعو کرتے ہیں۔ اور قسم قسم کے کھانوں کا لطف اٹھایا جاتا ہے۔ سرکاری اور اتحادی جماعت کے اراکین کو کروڑوں روپوں کی رشوت ترقیاتی فنڈ کے نام پر ادا کی جاتی ہے ، جب کہ اقتدار میں آنے سے پہلے ہمارے موجودہ حکمران ترقیاتی فنڈ کی تقسیم کو کرپشن سے تشبیہ دیتے تھے۔

اس دوغلی پالیسی کی وجہ سے ہمارا پیارا وطن تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔اگر ہم انصاف اور قانون پر مبنی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تو اقتدار کے ایوانوں پر بیٹھی ہوئی شخصیات کو قربانی دینی پڑے گی۔ قوم کے پیسوں کو امانت سمجھ کر استعمال میں لانا ہوگا۔ بے جا شان و شوکت اور نمائش سے اجتناب کی روش اپنانا ہوگی۔

زندہ قومیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر ہی اپنی منزل حاصل کر سکتی ہیں۔اب یہ ملک اس پوزیشن میں نہیں کہ اس طرح کے مزید شاہ خرچیوں کا متحمل ہو سکے اور پاکستان کو قرضوں کے جال سے نکالنا ہے تو اس میں اولین ذمے داری ہماری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے کہ وہ قرضوں کے جنجال سے عوام کو باہر نکالیں، اور اپنی پالیسیاں مرتب کرتے ہوئے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں کردار ادا کریں۔

اسی میں سب کی بھلائی ہے، اگر ملک و قوم کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنا ہے تو سیاست دانوں کو اپنے معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنا ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں