جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ
جمہوریت کے دعویدار سیاستدانوں میں ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے
روزنامہ ایکسپریس کے سینئر ایڈیٹر ایاز خان نے ایکسپریس نیوز کے ایک پروگرام ''اچھا لگے برا لگے'' میں کہا ہے کہ ہمارے یہاں جمہوریت بھی ڈکٹیٹر شپ جیسی ہوتی ہے۔ یہ حقیقت نام نہاد جمہوریت پسند تو تسلیم نہیں کریں گے مگر یہ سو فیصد حقیقت ہے اور اس کے سیاست دان ہی ذمے دار ہیں، جو کہتے آرہے ہیں کہ ملک کے 67 سال میں فوجی آمروں نے زیادہ حکومت کی اور سیاست دانوں کو حکومت کرنے کا موقع کم ملا جس کی وجہ سے ملک میں جمہوریت مستحکم نہ ہوسکی۔
جمہوریت کے دعویدار سیاستدانوں میں ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جنھوں نے نہ صرف آمروں کی حکومتوں کا خیر مقدم کیا بلکہ وہ آمروں کی حکومتوں میں اقتدار کے مزے لیتے رہے اور آمر حکومتوں کے خاتمے یا زوال کو دیکھ کر وہ آمرانہ اقتدار سے الگ ہوکر جمہوریت کے چیمپئن بنتے رہے اور بہت ہی کم سیاستدانوں نے آمروں کا ساتھ دینے پر بعد میں شرمندگی کا اظہار کیا۔ جن سیاستدانوں نے آمر حکومتوں کا ساتھ دیا انھیں جمہوریت، جمہوریت کا راگ الاپنا زیب نہیں دیتا مگر آمروں کا ساتھ دینے والے وقت بدلتے ہی خود بھی بدل جاتے ہیں اور جمہوریت کے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں۔ سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو، میر ظفر اﷲ جمالی، چوہدری شجاعت، شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی اور مسلم لیگ ن کے بہت سے مرکزی عہدیدار آمروں کی پیداوار کہلاتے ہیں یا وہ آمروں کے دور میں حکومتوں میں شامل رہے ہیں، نواز شریف پرویز مشرف کے ہاتھوں اپنی حکومت کی برطرفی کے بعد آمروں سے دور ہوچکے ہیں ، نواز شریف اب ملک کے تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں جب کہ 1970 کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور محمد خان جونیجو ہی وہ وزیراعظم تھے جو آمروں کے ہاتھوں برطرف ہوئے جب کہ ذوالفقار علی بھٹو اپنے ہی لائے گئے پسند کے جنرل ضیا الحق کی حکومت میں پھانسی پر لٹکائے گئے تھے۔پاکستان میں اہم سیاستدان چونکہ آمر حکومتوں میں شامل رہے ہیں اور انھوں نے آمریت قریب سے دیکھی ہے اس لیے وہ خود بھی آمریت کو پسند ہی نہیں کرتے بلکہ جب انھیں اقتدار میں آنے کا موقع ملا انھوں نے آمرانہ فیصلے کیے اور صرف نام کی حد تک جمہوریت پسند رہے اور ان کی جمہوریت میں بھی آمریت موجود پائی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوریت کی دعویدار عوامی حکومت میں سیاستدانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے، اسی باعث ہی 1977 میں مارشل لا لگا تھا ۔ سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو فوجی صدر کے خلاف ہوئے تو انھیں برطرف ہونا پڑا۔ محترمہ بینظیر بھٹو مکمل بااختیار نہ ہونے کے باوجود پہلے سویلین صدر کے ہاتھوں برطرف ہوئیں اور پھر اپنے ہی بنائے ہوئے صدر کے ہاتھوں برطرف ہوئیں اور ان کی دونوں برطرفیوں کا سیاستدانوں کی اکثریت نے خیر مقدم کیا تھا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت بھی اپنے ہی صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں برطرف ہوئی اور بعد میں بھاری مینڈیٹ کے باوجود وہ پرویز مشرف سے نہ بچ سکی۔ سابق وزیراعظم ظفر اﷲ جمالی نے آمر صدر سے اختلاف کیا تو انھیں مستعفی ہونا پڑا اور شوکت عزیز نے پرویز مشرف کی ہر بات مان کر اپنی مدت پوری کی۔ سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف صدر آصف علی زرداری کے مرہون منت تھے، ان کی حکومتوں پر کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات لگے۔ پی پی پی کو مئی 2013 کے انتخابات میں عوام نے مسترد کر دیا۔
اب میاں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم ہیں، انھیں کسی اور جماعت کی محتاجی بھی نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس واضح مینڈیٹ ہے، پنجاب و بلوچستان میں بھی ان کی اپنی ہی حکومتیں ہیں۔ ن لیگ کی حکومت کو کسی مضبوط اپوزیشن کا سامنا نہیں۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ق اور اے این پی کے ساتھ ہونے کے باوجود ن لیگ کی طرح فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے اور دس ماہ میں اپوزیشن حکومت کے لیے مسئلہ بنی ہے نہ تحریک انصاف موثر اپوزیشن بن پائی ہے۔ ن لیگ کی حکومت میں جمہوریت کے دعویداروں کا حال یہ ہے کہ وہ قومی اسمبلی کو اہمیت دیتے ہیں نہ سینیٹ کو۔موجودہ حکومت میں ان کے پاس قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آنے کے لیے وقت نہیں ہے۔ جب وزیراعظم ہی قومی اسمبلی میں آنا پسند نہیں کرینگے تو ارکان اسمبلی کو کیا پڑی ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں آئیں۔ ہر حکومت میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کورم کا مسئلہ درپیش رہا ہے اور اس حکومت میں تو حد ہو گئی ہے کہ قومی اسمبلی کے 342 ارکان میں سے یکم اپریل کے اجلاس میں صرف بیس ارکان موجود تھے، ہر جمہوری حکومت میں بہت کم ہی کورم پورا رہا ہو، قومی اسمبلی کے اجلاس میں چوتھائی ارکان سے کورم پورا ہوتا ہے اور حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ کورم نہ ہونے کی نشاندہی نہ ہو۔ یہی حال سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا ہے جہاں کورم نہ ہونے کے باوجود حکومتی پسند کے بل پاس کرلیے جاتے ہیں۔
جمہوریت حکومتوں میں اپنی پارٹی کی سربراہی رکھنے والے کسی وزیراعظم نے اہم فیصلوں میں قومی اسمبلی کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا۔ منتخب وزرائے اعظم نے ہر اہم فیصلہ اپنی مرضی سے کیا اور کابینہ سے منظوری لے کر سمجھ لیا کہ یہی جمہوریت ہے۔ جمہوریت کے دعویداروں نے جمہوریت کی بنیاد مقامی حکومتوں کے کبھی انتخابات نہیں کرائے۔ یہ ریکارڈ بھی فوجی آمروں کے پاس ہے کہ انھوں نے فوجی حکومتوں میں ہمیشہ بلدیاتی انتخابات کرائے۔ جمہوریت میں حکومت کی پسند کے فیصلوں کی قانون سازی پر ارکان اپنی رائے کا اظہار کرنا پسند نہیں کرتے۔ ان ارکان کی اکثریت اسمبلیوں میں خاموش بیٹھی رہتی ہے اور حکومت بحث کے بجائے اپنے ارکان سے پسندیدہ فیصلے منٹوں میں کرالیتی ہے۔
اپوزیشن ہر اسمبلی میں بجٹ کے موقع پر دکھاوے کی مخالفت کرتی ہے مگر ہر حکومت اپنی پسند کا بجٹ باآسانی پاس کرا لیتی ہے۔ بڑھتی مہنگائی پر ارکان کبھی نہیں بولتے، اپنی مراعات بڑھانے کے بل متفقہ طورپر منظور کرلیتے ہیں۔ جمہوری حکومتوں نے اگر عوام کو کچھ دیا ہوتا تو آج عوام جنرل پرویز کی حکومت کو یاد نہ کرتے۔ جمہوری حکومتوں کی آمریت نے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا۔ جمہوری حکومتوں نے اپنے آمرانہ فیصلوں سے مرضی کے لوگوں کو غیر قانونی طور پر نوازا اور اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مہنگائی بڑھائی، غیر ملکی قرضے لیے اور کسی بھی جمہوری حکومت نے عوام کو جمہوریت سے فیضیاب نہیں کیا اور اپنے آمرانہ فیصلوں سے عوام کو جمہوریت سے بدگمان کردیا ہے۔