تعلیم کا فروغ روشن مستقبل کی ضمانت

تعلیم سے عام طور پر مراد جاننا، واقف ہونا یا آگاہ ہونا لیا جاتا ہے

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

WASHINGTON:
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے 4سال میں تعلیم کا بجٹ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے 4 فیصد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعلیمیافتہ ملک میرا عزم ہے، تعلیمیافتہ افراد ہی ملک کو حقیقی ترقی سے ہمکنار کرسکتے ہیں، ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرینگے، نجی شعبے کے لوگ تعلیم کی ترقی کے لیے حکومت سے تعاون کریں، اگلے 5برسوں کے لیے انرجی اور انفرااسٹرکچر کے شعبے ترجیحات ہیں، آیندہ برس زر مبادلہ کے ذخائر 16ارب ڈالر تک پہنچ جائینگے، ان خیالات کا اظہار انھوں نے وزارت تعلیم و تربیت کے زیر اہتمام تعلیمی کانفرنس سے خطاب اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے گورڈن براؤن اور عالمی بینک کی ایم ڈی اور سی ای او مس سیری ملیانی اندروتی سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں میں کیا۔ انھوں نے کہاکہ تعلیم کو خرچ نہیں مستقبل کے لیے سرمایہ کاری سمجھتے ہیں، تعلیم کے شعبے میں مشکلات ختم کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں مربوط اقدامات کررہی ہیں۔ تعلیمی بجٹ کو مجموعی پیداوار کا چار فی صد تک بڑھائیں گے۔ حکومت تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہی ہے۔

تعلیم سے عام طور پر مراد جاننا، واقف ہونا یا آگاہ ہونا لیا جاتا ہے انگریزی لفظ Education کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قدیم لاطینی زبان کے دو الفاظ Educare اور Educane سے ماخوذ ہے جن کے علیحدہ علیحدہ معنی کچھ اس طرح ہیں Educare to bring, to train پہلی اصطلاح جس کا مطلب پرورش کرنا، تربیت کرنا یا افزائش کرنا ہے ایک خارجی عمل کی نشاندہی کرتی ہے، دوسری اصطلاح جس کا مطلب باہر لانا ہے، ایک بیرونی عمل کی نشاندہی کرتی ہے جس سے یہ تاثر واضح ہوتا ہے کہ تعلیم انسان کی اندرونی صلاحیتوں کو باہر لانے کا عمل ہے اور تعلیم کی بنیاد انسان کا باطن ہے۔ تعلیم کی تعریف کا تعین کرتے وقت یہ بات ذہن میں رکھی جانی چاہیے کہ تعلیم کا تعلق افراد اور معاشرے سے ہے، جیسے جیسے افراد اور معاشرے کی ضروریات اور وسائل بدلتے جاتے ہیں تعلیم کا مفہوم بھی بدلتا جاتا ہے۔ ہر ملک کا فلسفہ تعلیم وہاں کے رسم و رواج اور عقائد مذہب اور وہاں کی تاریخ، ورثے کو مد نظر رکھ کر مرتب کیا جاتا ہے، جیسا کہ یونان میں بچے کی تعلیم و تربیت میں ورزش، جنگی حکمت عملی وغیرہ کی تعلیم دی جاتی تھی کیونکہ وہاں یہ خیال تھا کہ جس کا جسم زیادہ مضبوط ہو گا اس کا ذہن بھی اتنا ہی اچھا ہوگا۔ ارسطو کے خیال میں ایک صحت مند جسم میں صحت مند ذہن پیدا کرنا تعلیم ہے اور افلاطون کے خیال میں تعلیم سے مراد ایسی تربیت ہے جو بچوں کی جبلتوں کو اچھی عادتوں میں تبدیل کرنے میں مدد دے، یہ دونوں فلسفی تعلیم کو یونان کے مخصوص حالات کے پیش نظر ذہن اور جسمانی قوتوں میں اضافے کا عمل قرار دیتے ہیں، اسی طرح آج کل جاپان میں سائنس اور ٹیکنیکل قسم کی تعلیم پر زور ہے اس لیے کہ آج کے دور جدید میں سائنس و ٹیکنالوجی عہد حاضر کی سب سے بڑی ضرورت ہے، جاپان نے دوسری جنگ عظیم میں مکمل تباہ ہوجانے کے بعد تعلیمی نظام اور ترقی کے ذریعے ہی نہایت مختصر مدت میں دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے اور اہم معاشی وتکنیکی قوت بننے میں کامیابی حاصل کی، ملائیشیا اور ترکی نے بھی جب تعلیم کو اہمیت اور فروغ دیا ان پر ترقی اور کامیابی کے راستے کھلتے چلے گئے، علم و حکمت مومن کی میراث ہے جہاں سے بھی ملے اور جس طرح بھی ملے اسے حاصل کرنا چاہیے، خواہ اسے چین، امریکا اور یورپ ہی کیوں نہ جانا پڑے، مسلمانوں نے جب تک ان ہدایات پر عمل کیا، کامیابی ہر میدان میں ان کے قدم چومتی رہی، عزت و سربلندی اور ترقی و خوشحالی کے باب وا ہوتے چلے گئے اور ساری دنیا کی قیادت و حکمرانی ان کے پاس رہی، روم اور ایران جیسی اس زمانے کی سپر پاورز ان کے سامنے ڈھیر ہوگئیں اور مسلمان فاتح عالم قرار پائے۔


مسلمان مفکرین نے اسلامی فلسفہ حیات کے پیش نظر (جسے ایک دائمی حقیقت کا مرتبہ حاصل ہے) جدید دور کے تقاضوں کو بھی پیش نظر رکھا اور تعلیم کی جامع تعریفیں بیان کیں، امام غزالیؒ کے خیال میں تعلیم انسانی معاشرے کے بالغ ارکان کی اس جدوجہد کا نام ہے جس سے آنیوالی نسلوں کی نشوونما اور تشکیل زندگی کے نصب العین کے مطابق ہو۔ سرسید احمد خان کے نزدیک جو کچھ انسان میں ہے اسے باہر نکالنا تعلیم کہا جاتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کے خیال میں انسان کی طبعی قوتوں کی نشوونما کا وہ عمل جو دین کے تابع ہو تعلیم کہلاتا ہے۔ خواجہ غلام السیدین تعلیم کو ایک ایسا عمل قرار دیتے ہیں جو ان تمام ثقافتی اثرات کا نتیجہ ہوتاہے جو افراد اور اقوام کو کسی خاص سانچے میں ڈھالتے ہیں ایک اور مقام پر غلام السیدین کہتے ہیں کہ تعلیم تہذیبی ورثہ، معلومات اور اقدار (تصورات) کے تنقیدی جائزے اور منتقلی کا وہ عمل ہے جو ایک سماجی گروہ اپنی نئی نسل کے لیے سرانجام دیتا ہے۔بلاشبہ علم ہی وہ وصف ہے جس نے انسان کو فرشتوں سے ممتاز کیا اور اسے اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کیا، اسلام کا آغاز ہی قرآن کی پہلی وحی ''اقرأ'' سے ہوا اور ہر مسلمان مرد و عورت پر علم حاصل کرنا فرض قرار دیا گیا اور علم کی طلب کو افضل عبادت قرار دیا گیا لہٰذا اسلامی نظریہ حیات کے تحت تعلیم اور مذہب میں بہت گہرا تعلق ہے، دونوں کے مقاصد میں انسانی فلاح و بہبود اور نیکی و صداقت کی پیروی شامل ہے، دونوں کو ایک ہی شریعت کے تحت عمل کرنا ہے، دونوں قرآن و حدیث کی روشنی میں آگے بڑھتے ہیں، دونوں ہمیں دنیاوی اور دینی عظمت و آسودگی کی ضمانت دیتے ہیں، ایسی صورت میں پاکستان کے نظام تعلیم میں اسلامی طرز اور مذہبی قدروں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ہمارے معاشرتی نظام خصوصاً تعلیمی نظام میں مذہبی بنیادوں کی اہمیت بڑی واضح ہے، اسلام ہماری تمدنی زندگی کے جملہ پہلوؤں پر محیط ہے اور ہمارے تمام شعبۂ حیات میں مشعل راہ ضابطہ حیات و نصب العین ہے، کسی قوم کا نصب العین تعلیم میں شامل کرنا گویا آنے والی نسلوں کو مذہب سے وابستہ رکھنا ہے، تعلیم اور مذہب کے مقاصد میں بڑی ہم آہنگی ہے، تعلیم کی مذہبی بنیاد سے مراد یہ ہے کہ تعلیمی لائحہ عمل میں مذہبی قدروں کو شامل کیا جائے، تعلیم کے مقاصد میں مذہبی وابستگی رکھی جائے، نصاب تعلیم میں نہ صرف مذہبی تعلیم کو بحیثیت ایک مضمون شامل کیا جائے بلکہ تمام مضامین میں مذہبی قدروں کی ترجمانی ہو، مغربی نظام تعلیم صرف مادی آسودگی کے لیے انسان کو تیار کررہا ہے جس کی وجہ سے ان میں نہ حقیقی اخلاقی قدریں پیدا ہوسکیں اور نہ روحانی آسودگی مل سکی۔ انھوں نے ذہنی لحاظ سے تو بہت زیادہ ترقی کی اور چاند پر پہنچ گیا ہے لیکن دل رو حانی سکون سے عاری و بے نور اور آنکھیں شرم و حیا سے عاری ہیں۔ آج مغرب کے تعلیم یافتہ افراد بھی مذہب کی ضرورت محسوس کررہے ہیں اور اپنی شدید نفسیاتی الجھنوں کا مداوا مذہبی آغوش میں تلاش کررہے ہیں، اب ان میں ذہنی علاج کا واحد علاج روحانی آسودگی ہے اور وہ مذہبی قدروں کو اپنانے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔

ہمارا وطن عزیز انتہائی قابل اور باصلاحیت افرادی قوت سے مالا مال ہے، وزیراعظم کی جانب سے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے پر غور اور آیندہ چار برس میں تعلیمی بجٹ کو مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد کرنے کا اعلان بلاشبہ ملک کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے اگر واقعی تعلیمی ترجیحات کے پیش نظر باصلاحیت افرادی قوت کی صلاحیتوں کو نکھارنے کا کام کیا جائے، تعلیم کے شعبے کو قرار واقعی اہمیت دی جائے تو یقیناً جلد ہی ہمارا شمار بھی دنیا کی بڑی تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ اقوام میں ہوسکتا ہے۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تعلیم ہی زندگی کے ہر میدان میں ترقی کی کلید ہے لیکن آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ملک کے قیام کو ساڑھے چھ عشرے گزر جانے کے بعد بھی ملک کی آبادی کا ایک برا حصہ مکمل طور پر ناخواندہ ہے۔
Load Next Story