ٹیپو سلطان کی پوتی اوردوسری جنگ عظیم

ایک حسین عورت جس کے نرم ہاتھوں کی انگلیاں ستار بجاتی تھیں، کیا اس کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے،


خرم سہیل April 08, 2014
[email protected]

ایک حسین عورت جس کے نرم ہاتھوں کی انگلیاں ستار بجاتی تھیں، کیا اس کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے، اسے دشمن فوج کے ہاتھوں قتل کیا جائے گا مگر ایسا ہوا، تاریخ ہمیں اس کی کہانی سناتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں جب جرمنی کے نازیوں نے فرانس پر قبضہ کیا، تو برطانیہ نے دشمن پر نظر رکھنے اور خفیہ اطلاعات حاصل کرنے کے لیے اس عورت کو جاسوس بناکر فرانس کے مقبوضہ علاقے میں بھیجا تاکہ وہ انھیں دشمن کی خبریں دے سکے۔

نازیوں کے مقبوضہ علاقوں میں بھیجی جانیوالی یہ پہلی خاتون بھی تھی جسے ونسٹن چرچل کے اعلیٰ خصوصی مشن کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس مشن کے دوران دشمن نے اسے دھر لیا اور کوشش کی گئی کہ وہ سارے راز اگل دے مگر اس نے ایک لفظ تک منہ سے نہ نکالا۔ گرفتاری کے بعد اسے جرمنی کے جس کیمپ میں قید رکھا گیا تھا وہیں اس کے سر پر گولی ماردی گئی۔ اس بہادر عورت کا نام ''نورالنساء عنایت اﷲ خان'' تھا۔

30برس کی عمر میں موت کو اپنی ہمجولی بنانے والی اس خاتون کا پس منظر ہی ایسا تھا کہ یہ موت سے ڈرنے والی نہیں تھی۔ اس کا آبائی تعلق شہنشاہ میسور ''ٹیپو سلطان'' سے تھا۔ اس کے ذہن میں اپنے اجداد کی یہ بات بھی شاید تروتازہ تھی کہ ''شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔'' یہی وجہ تھی کہ اس نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور کسی خوف کو اپنے اوپر طاری نہیں ہونے دیا۔نورالنساء عنایت اﷲ خان چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔ روس کے شہر ماسکو میں پیدا ہوئی۔ اس کے والد عنایت اﷲ خان درویش صفت انسان تھے۔ انھیں ورثے میں صوفی تعلیم ملی۔ پہلی جنگ عظیم سے کچھ عرصہ پہلے یہ خاندان روس سے ہجرت کرکے برطانیہ چلا گیا۔ 1920 میں وہاں سے بھی ہجرت کرکے فرانس آباد ہوا۔ نور کے والد عنایت اﷲ خان کا جب انتقال ہوا تو وہ اور اس کے بہن بھائی کم عمر تھے۔ بوڑھی ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمے داری نور کے نازک کاندھوں پر آن پڑی۔

یہ وہ زمانہ تھا جب نو رکی آنکھوں میں کچھ خواب تھے، وہ زندگی کو اپنے انداز میں گزارنا چاہتی تھی۔ وہ کم گو اور شرمیلی تھی۔ فرانس میں رہتے ہوئے اس نے کچھ عرصہ مغربی اور مشرقی موسیقی کی تربیت بھی حاصل کی۔ ستار سے اس کو بے حد لگاؤ تھا۔ شاعری سے لکھنے کی ابتدا کی، بچوں کے رسالوں میں کہانیاں لکھنے لگی اور ریڈیو سے بھی خود کو وابستہ کیا۔ 25 برس کی عمر میں اس کی پہلی کتاب ''بیس جاتک کہانیاں'' لندن سے شایع ہوئی۔ یہ مہاتما گوتم بودھ اور بودھ مت سے بہت متاثر تھی، یہی وجہ تھی کہ اس نے کچھ اس طرز کی کہانیاں لکھیں۔

1940 میں جب دوسری جنگ عظیم کی ابتدا ہوئی اور اس سے فرانس متاثر ہونے لگا تو نورالنساء کا خاندان ساحلی راستے سے فرار ہوکر کسی نہ کسی طرح برطانیہ پہنچ گیا۔ حالات تبدیل ہوگئے اور شاید نور کی ترجیحات بھی، اسی لیے اس نے خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی سنگ دل دنیا میں قدم رکھا۔ وہ اپنے والد کی امن پسند اور صوفی سوچ سے بہت متاثر تھی، شاید اسی لیے اس نے نازیوں کے ظلم کے سامنے ڈٹ جانے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ اس نے عملی طور پر قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور رائل ایئر فورس میں آلات فراہم کرنے والی فوجی خواتین میں بھرتی ہوگئی، وائرلیس آپریٹر کی تربیت حاصل کی۔ دوسری جنگ عظیم میں بمباری کی تربیت دینے والی درسگاہ میں بھی اسے بھیجا گیا۔ اس نے اپنے شعبے میں مزید ترقی کے لیے کمیشن پاس کیا اور اسسٹنٹ سیکشن آفیسر کے عہدے تک جاپہنچی۔

نورالنساء عنایت اﷲ خان کا تبادلہ ونسٹن چرچل کے ''اعلیٰ خصوصی مشنز'' برائے فرانس میں ہوگیا۔ یہ برطانوی فضائیہ اور فرسٹ ایڈ نرسنگ کے شعبے میں بھی تبادلہ کرکے بھیجی گئی، اس دوران اسے کئی طرح کے تربیتی ادوار سے گزارا گیا۔ اس کے افسران کاخیال تھا اسے فرانسیسی زبان پر مکمل عبور ہے اور یہ ریڈیو جو اس جنگ میں بہت اہم آلہ تھا، اس کی ماہر ہے۔ لہٰذا اسے خفیہ ایجنٹ کے طور پر مقبوضہ فرانس بھیجنے کی تربیت دی جائے اور پھر اس خیال کو عملی جامہ پہنایا گیا۔

اس دوران اس نے اپنا نام نورالنساء عنایت اﷲ خان سے بدل کر فرضی نام ''نوراباکر'' رکھ لیا۔ نرس کے روپ میں یہ فرانس پہنچائی گئی۔ یہ وہی ملک تھا، جہاں کچھ عرصہ پہلے تک یہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک عام لڑکی کی حیثیت میں زندگی بسر کررہی تھی۔ فرانس میں ڈاکٹروں اور نرسوں کے روپ میں جتنے جاسوس بھیجے گئے، وہ پہلے پکڑے گئے، نور گرفتار ہونے سے بچ گئی۔ وہاں اس نے اپنا خفیہ نام ''میڈلن'' رکھا۔ وہ اس علاقے کے خطرات کو بھانپ چکی تھی اور واپس لندن آنا چاہتی تھی مگر اسے فرانس میں رک کر برطانیہ کے لیے معلومات بھیجتے رہنے کا کہا گیا۔ وہ اکیلی تھی مگر اس نے اپنا فرض پوری طرح سے نبھایا۔ وہ مستقل بنیادوں پر مقامات بدل بدل کر برطانیہ پیغام بھیجتی رہی۔ اس عرصے میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان نور ہی واحد رابطہ تھی۔ نازی فوج کو اس نے تگنی کا ناچ نچایا اور آخرکار 1943 میں فرانس کے ایک مقام سے گرفتار ہوئی۔ نازی فوجی اس سے کچھ نہ اگلوا سکے، البتہ ان کے ہاتھ نور کی وہ ڈائری لگی، جس میں ترسیل شدہ معلومات کی تفصیل درج تھیں۔ نور اور اس کی تین دوسری خواتین ساتھیوں کو 13 ستمبر 1944 کو جرمنی کے ایک کیمپ میں گولی ماردی گئی۔

نورالنساء عنایت اﷲ خان نے نہایت آبرومند انداز اپنایا اور اپنے ملک کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اسے برطانیہ اور فرانس کے اعلیٰ فوجی اعزازات سے نوازا گیا۔ ابھی حال ہی میں برطانیہ کے محکمہ ڈاک نے اس کی تصویر اور نام کا ڈاک ٹکٹ جاری کیا ہے جسے منسوب کیا گیا اس عورت کے نام جو دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی ہیروئن تھی اور جس نے فسطائیت کے خلاف لڑتے ہوئے دشمن کے نرغے میں جان دی۔ یہ ڈاک ٹکٹ ''قابل ذکر زندگیاں'' نامی سیریز کا ایک حصہ ہے، جس میں مزید نو اہم شخصیات کے نام اور تصویر کے ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں۔

فرانس میں تین مقامات پر اس کی یادگاریں موجود ہیں۔ فرانس کی وہ گلی جہاں کبھی نورالنساء رہاکرتی تھی، اس گلی کو زمانہ جنگ کے دور کے نام ''میڈلن'' سے منسوب کردیا گیا ہے لندن میں گارڈن اسکوائر کے گارڈن پارک میں بھی نور سے منسوب ایک یادگاری مجسمہ لگایا گیا۔ وہاں اس کے افتتاح کے موقع پر اس کی ایک پرانی ساتھی ''آئرن وارنر'' جس کی عمر اب 91 برس ہے، اس نے شرکت کی اور بھیگی پلکوں سے اس کو یاد کیا۔

نور کی شخصیت پر ایک بنگالی مصنفہ ''شرابانی بھاسو'' نے انگریزی میں ''اسپائے پرنسز'' کے نام سے نورالنساء عنایت اﷲ خان کی سوانح حیات لکھی۔ یہ وہی مصنفہ ہے جس کی کتاب ''وکٹوریہ اور عبدل'' بہت مشہور ہوئی تھی جس میں تاج برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ اور محل کے ایک مسلمان ملازم منشی عبدالکریم کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ نور پر ''اینمی آف ریچ'' نامی ٹیلی فلم بھی بنائی گئی جسے بے حد پسند کیا گیا۔ نور عنایت خان ٹرسٹ بھی بنایا گیا جس کے ذریعے امن کے پیغام کو دنیا بھر میں پہنچانے کی ایک کوشش کی گئی۔ اس ٹرسٹ کی بانی وہی بنگالی مصنفہ شرابانی بھاسو ہیں۔ انھوں نے اس ٹرسٹ کو بنانے کے لیے دنیا بھر سے فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ 2011 میں ''ہاؤس آف کامن'' میں ایک ڈونرز ڈنر کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس موقع پر برطانوی وزیراعظم نے بھی اپنا پیغام دیا۔ بھارت سے معروف فلمی ستارے عامر خان کی بیوی کرن راؤ نے بھی اس ٹرسٹ کو فنڈرز دیے۔لندن میں باغ میں نصب کیے گئے مجسمے کے اردگرد درختوں کے پتے ٹوٹ کر بکھرتے رہتے ہیں، اسی طرح جیسے نورالنساء کی زندگی سے ایک ایک کرکے لمحوں کے پتے ٹوٹ کر بکھرے تھے۔ غیرمنقسم ہندوستان کے مسلمان گھرانے کی اس بیٹی نے اپنے پردادا اور دادا کی طرح بہادی سے جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے وطن کی جنگ لڑی۔ کتنی عجیب بات ہے، ٹیپو سلطان فرانسیسی فوج کی حمایت میں انگریزی فوج کے ساتھ لڑے اورپوتی نے فرانسیسی اور انگریزی دونوں سرزمینوں کے لیے نازیوں سے لڑائی کی۔ نورالنساء چاہتی تھی کہ ایشیا کے مسلمانوں کا تشخص اجاگر ہو اور ہندوستان کو آزادی ملے، یہی وجہ ہے کہ اس کی فرض شناسی نے اس کا نام سنہری حروف میں لکھوایا۔ افسوس یہ ہے پاکستان سے اس بہادر بیٹی کے لیے کچھ نہیں لکھا اور کہا گیا، جب کہ یہ وہی جنگ تھی جس میں برصغیر کے مسلمان بھی انگریز کی طرف سے لڑے تھے، مگر تاریخ نے اسے زندہ رکھا ہوا ہے۔

میسور کی شہزادی اور لندن اور پیرس کی ہیروئن نورالنساء عنایت اﷲ خان سے جب آخری وقت میں پوچھا گیا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے، تو اس نے صرف ایک لفظ کہا، جو تھا ''آزادی'' اور پھر اسے آزاد کردیا گیا۔ وہ درد کی زندگی کا ساتھ چھوڑ گئی۔ فرانس کے شہر پیرس میں ''فضل منزل'' جہاں نور النساء نے اپنی زندگی کے خوبصورت دن بسر کیے تھے، وہاں اب بھی اداسی بال کھولے سو رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں