فحاشی و عریانی کا سیلاب
باریک لباس زیب تن کرنا بھی منع ہے جس سے جسم نظر آتا ہے
ﷲ تبارک و تعالیٰ جہاں عدل و انصاف اور صلہ رحمی کا حکم فر ماتا ہے وہاں ظلم و زیادتی اور بے حیائی کے کاموں سے منع فرماتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ''ﷲ تعالیٰ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی اور بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو۔'' (النحل)
ہر قبیحہ خصلت جس کی بُرائی عقلی اور قانونی طور پر خراب ہو جس سے ﷲ تعالیٰ منع فرمائے وہ فاحشہ یا فحشاء کہلاتی ہے اس لیے ان اعمال سے بھی روکا گیا ہے۔
ایسے لباس کے استعمال سے بھی منع کیا گیا ہے جو جسم کی نمائش کرے۔ کیوں کہ اس سے جنسی اشتعال پیدا ہوتا ہے جو بُرائی کی طرف دھکیلتا ہے۔ فحاشی، عریانی، جنسی اشتعال انگیزی قبیح برائی ہے جس سے ﷲ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔
فحاشی کو فروغ دینے والوں کو ﷲ تعالی نے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت امت مسلمہ اور بالخصوص مسلمانان پاکستان جس طرح کے مسائل سے دوچار ہیں وہ پوری دنیا جانتی ہے۔
وطن عزیز میں قتل و غارت گری، لوٹ مار، کرپشن، مہنگائی، سیلاب، طوفان، بے پردگی، بے حیائی، ہمارے لیے پریشان کن ہے۔
حدیث نبویؐ کا مفہوم ہے: ''اگر کوئی قوم بے حیائی میں مبتلا ہو کر کھلم کھلا اس کا ارتکاب کرنے لگے تو اس قوم میں طاعون اور وہ بیماریاں پھیل جاتی ہیں جن کا نام ماضی میں نہ سنا گیا ہو۔'' (سنن ابن ماجہ)
آج ہم دیکھتے ہیں کہ جب معاشرے میں حیا ناپید ہوتی جا رہی ہے اور بے حیائی کا سیلاب ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا تو کیسے کیسے اخلاقی جرائم سر اٹھا رہے ہیں، اپنوں اور غیروں کا فرق تک ختم ہوگیا ہے۔
بے حیائی اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ سگی بہن اپنے بھائی سے اور سگی بیٹی اپنے باپ تک سے بھی محفوظ نہیں ہے اور یہ سب ہم اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں۔
آخر یہ معاشرہ کس طرف جا رہا ہے۔۔۔ ؟ کوئی اس معاشرے کو دیکھ کر نہیں کہہ سکتا کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے، کیوں کہ اس کا حال بھی مغرب سے کچھ کم نہیں جس تباہی کے دہانے پر آج مغربی دنیا پہنچ چکی ہے اس بے حیائی کے سبب اسی تباہی کے دہانے پر آج ہم پہنچ چکے ہیں، فتنوں پے فتنے سر اٹھا رہے ہیں، مزید کس فتنے کا انتظار ہے۔۔۔ ؟
روشن خیالی کے نام پر تاریکی مسلط کی جا رہی ہیں، بے حیائی ایک سیلاب کی صورت میں چھا گئی ہے، کسی شادی پر جا کے عوام الناس کی حیا کی صورت دیکھ لیں، لباس کے نام پر بے لباسی عیاں ہے، یہ سب اس بڑھتی ہوئی بے حیائی کا نتیجہ ہے اگر اب بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے اور فحاشی و عریانی فروغ کو نہ روکا گیا اس کی مذمت نہیں کی گئی تو وہ وقت دور نہیں کہ پاکستانی معاشرہ تباہی کے گڑھے میں گر جائے گا اور شاید پھر کبھی نہ اٹھ سکے۔
ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ''اور بے شرمی کی باتوں کے قریب ہی نہ جاؤ وہ کھلی ہوں یا چھپی ہوئی ہوں۔'' (الانعام)
ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا۔'' (النور)
حدیث میں ارشاد ہے: ''جب تم میں حیا نہ رہے تو جو جی چاہے کرو۔'' (سنن ابُوداؤد)
اس سلسلے میں صاحب اقتدار لوگوں کی ذمے داری ہے کہ بَدکاری کے اڈے ختم کریں۔ بداخلاقی کی ترغیب دینے والے قصے، اشعار، گانے، تصویر یں، کلب، ہوٹل اور تفریح گاہیں جن میں مخلوط میل جول اور رقص و سرور کی محفلیں جمتی ہیں، اور فحش کے تمام ذرائع کا سد باب کرے اور ان جرائم پر باقاعدہ سزا دی جائے۔
بے راہ روی کی ایک وجہ بے پردگی بھی ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے پردے کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر اس کو بالکل ختم کر دیا ہے جب کہ حضور اکرم ؐ نے ﷲ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق پردے کی سختی سے تلقین فرمائی ہے۔
محرم اور نا محرم کا امتیاز پیدا کر کے قوانین و ضوابط ارشاد فر مائے ہیں تاکہ ممکنہ برائی کو پھیلنے ہی نہ دیا جائے جو آگے چل کر اسلامی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اس سلسلے میں ازواج مطہراتؓ کو بھی گھروں سے نکلنے کی ممانعت کر دی گئی تھی۔
بدقسمتی سے فیشن پرستی اور دوسروں کی نقالی میں آج کل مسلمان بہت آگے نکلنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور اپنی شناخت کھو بیٹھے ہیں، اس سے ایک طرف تو اسلامی اقدار مجروح ہوتی ہیں تو دوسری طرف معاشرے میں بگاڑ کے یہی لوگ ذمے دار ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ لعنت ہے اُن عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت پیدا کرتی ہیں اور اُن مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت پیدا کرتے ہیں۔
حقیقت میں جہاں ہر شخص معاشرے کی اصلاح یا بگاڑ کا خود ذمے دار ہوتا ہے وہاں معاشرے کو سدھارنے کی ذمے داری حکام پر بھی عاید ہوتی ہے کہ وہ ایسے قوانین پر عمل درآمد کرائیں اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں۔
جناب نبی کریم ﷺ نے زندگی بسر کرنے کے اسلوب لوگوں کو عملی طور پر سکھائے۔ بیکار، فضول کاموں، گفت گو، کھیل تماشے کو وقت کی بر بادی اور گناہ قرار دیا اور ان سے منع فرما کر اپنی صلاحیتوں کو بامعنی اور تعمیری کاموں میں صرف کرنے پر زور دیا اور اس کی اصلاح اپنے گھر سے شروع کرنے کی تلقین فرمائی۔
آج معاشرہ بدامنی اور بے چینی کے دور سے گزر رہا ہے۔ قتل و غارت گری، دہشت گردی، ڈاکے، راہ زنی، نسل کشی، زنا، شراب نوشی اور قمار بازی کا بازار گرم ہے۔ شرعی احکام کی پابندی کے بہ جائے اس سے مذاق کیا جا رہا ہے اور نفرت پیدا کی جارہی ہے۔
ایسے میں اس کی اصلاح کے لیے اسلامی احکامات کو بہ حیثیت نظام زندگی غالب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے جو ایک صالح قیادت ہی کر سکتی ہے۔ عصمت کی حفاظت اور بے حیائی کا سد باب کرنے کے لیے اسلام نے عورتوں کے لیے پردہ لازم قرار دیا اور ساتھ ہی مردوں پر پابندی ہے کہ وہ غیر محرم عورتوں کی طرف لالچ بھری نظروں سے نہ دیکھیں بلکہ نگاہیں پست رکھنے کا حکم آیا ہے، کیوں کہ ایسی نگاہ ڈالنے سے فتنے کا ڈر ہوتا ہے جسے حرام قرار دیا گیا ہے۔
اسی طرح عورتوں پر محارم کے علاوہ دوسروں کو دیکھنا حرام قرار دیا گیا ہے بلکہ نابینا مردوں سے بھی پردہ کرنا لازم قرار دیا گیا ہے۔ خوش نما لباس، زیور اور آرائش جو عموماً عورتیں کرتی ہیں اس کو صرف اپنے خاوند کے لیے جائز قرار دیا گیا ہے۔
باریک لباس زیب تن کرنا بھی منع ہے جس سے جسم نظر آتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی قوم کی بداعمالیاں حد سے تجاوز کر جاتی ہیں تو پہلے خدا کی رحمت اور قانون اُسے مہلت دیتا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کر لے۔
جب اُس پر بھی وہ اپنی روش نہ بدلے تو خدا کا قانون پاداش عمل حرکت میں آتا ہے اور عذاب آخرت کے علاوہ دنیا ہی میں اسے ذلت اور پستیوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ اور نصب العین دین اسلام ہے۔
مسلمانوں کو دنیاوی عروج اسی کے ذریعے حاصل ہوا اور آئندہ بھی اسی کے سہارے زندہ رہنا ممکن ہو سکتا ہے۔ جو قومیں اچھے اوصاف کو اپناتی ہیں ان کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں دبا سکتی کیوں کہ ملک اور وطن کی صحیح خدمت بھی دین ہی کے ذریعے ہو سکتی ہے۔