بیرونی سرمایہ کاری اور معاشی استحکام
ملک کی معاشی ترقی اور استحکام کے لیے سرمایہ کاری بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے
متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان شاہی وفد کے ہمراہ نجی دورے پر پاکستان پہنچے ہیں۔ ایئر پورٹ پر ملاقات کے دوران وزیراعظم شہباز شریف اور یو ای اے کے صدر نے دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔
دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی، عالمی صورتحال، معیشت، تجارت اور ترقی کے شعبوں میں تعاون کے مختلف راستوں پر تبادلہ خیال کیا۔ صدر یو ای اے نے شہباز شریف کو پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کی یقینی دہائی کرادی ہے۔
بلاشبہ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی اور استحکام کے لیے سرمایہ کاری بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
سرمایہ کار کمپنیاں جب اپنا سرمایہ مختلف شعبہ جات میں لگاتی ہیں تو اس سے پیداواری عمل بڑھتا ہے، پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے، برآمدات بڑھتی ہیں، روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں ، سرمایہ جنریٹ ہوتا ہے اور مقامی کرنسی مضبوط ہوتی ہے۔
پاکستان میں سرمایہ کاری کے بہترین مواقع موجود ہیں لیکن اس کے لیے سرمایہ کاروں کو بہترین اور محفوظ ماحول اور سازگار فضا کی فراہمی بے حد ضروری ہے۔ حکومت اگر امن و امان کی صورتحال کو مزید بہتر بنا دے اور جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنا دے تو بیرونی سرمایہ کار بھی یہاں سرمایہ کاری میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے ۔
وزیراعظم شہباز شریف پہلے ہی بیرونی سرمایہ کار کمپنیوں بالخصوص گوادر فری زون میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کے مسائل کے حل کے لیے کمیٹی قائم کرچکے ہیں۔ دوسری طرف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے بھی بیرونی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے قانون میں ترمیم منظور کرلی ہے۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں معاشی بدحالی پیدا ہوئی ہے۔
معیشت کا پہیہ رک گیا ہے، امن و امان کی صورتحال خراب ہونے اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی وجہ سے سرمایہ کاروں میں عدم تحفظ کا احساس ناگزیں ہوگیا جس کی وجہ سے سرمایہ کاری کا عمل رک گیا اور اس کے اثرات براہ راست ملکی معیشت پر مرتب ہوئے۔ بے روزگاری بڑھ گئی اور عوامی مسائل نے عوامی زندگی کو بری طرح متاثر کیا۔
ان حالات میں موجودہ حکومت نے سرمایہ کاروں کو ترغیب دینے اور انھیں ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ پاکستان اور یو ای اے نے سرمایہ کاری، توانائی اور تجارت کے شعبوں میں باہمی تعاون کو بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ پاکستان ، یو ای اے سمیت دیگر خلیجی ممالک کے مابین سرمایہ کاری، توانائی اور تجارت کے شعبوں میں باہمی تعاون کو مزید تیز کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی تمام شرائط ماننے پر راضی ہوگئی ہے۔
حکومت کے اکنامک منیجرز نے جو مانیٹری پالیسی اختیار کی ، وہ کامیاب نہیں ہوئی، ڈالر کی قدر پر کیپ لگانے کی حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہوئی بلکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طوالت کا شکار ہوگئے ،جس کا پاکستان کو نقصان ہوا۔
اب ڈالر کی قدر پر کیپ ہٹادیا گیا، اس کے بعد ڈالر کی قدر 12 روپے کا اضافہ ہوا۔ اس سے یہ فائدہ تو ہوگا کہ ڈالر کی اسمگلنگ ختم ہوگی اور حوالہ ہنڈی کے ذریعے لین دین میں بھی کمی ہوگی لیکن ملک میں مہنگائی کی شرح بہت زیادہ بلند ہوگی۔
پاکستان میں معاشی بدحالی کی جو صورتِ حال ہے اس کے مظاہر ہم ملک میں تسلسل سے دیکھ رہے ہیں۔ وزیر خزانہ کی طرف سے اگرچہ یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتِ حال بہتری کی جانب گامزن ہے۔ ملک کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔ مالی حالات پہلے سے بہتر ہیں، لیکن زمینی حقائق ان بیانات کی نفی کر رہے ہیں۔
یہ حقیقت قوم پر ظاہر ہوتی جا رہی ہے کہ موجودہ حکمران بھی سابقہ حکمرانوں کی طرح ملک کی معیشت کو کنٹرول کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی معاشی ٹیم تمام تر دعوؤں کے باوجود مالی بگاڑ کو سُلجھا نہیں پائے لیکن عوام کو اصل صورتِ حال سے آگاہ کرنے کے بجائے صرف بیانات کے ذریعے اپنی سیاسی ساکھ بچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں جب کہ اصل صورتِ حال یہ ہے کہ زرِمبادلہ کے ذخائر ملک کی تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔
بینکوں میں ڈالرز انتہائی کم ہو چکے ہیں، بڑے بڑے سرمایہ داروں اور کاروباری اداروں نے سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کر دیا ہے۔
ڈالرز کی افغانستان اسمگلنگ بدستور جاری ہے ۔ غیر یقینی کے سائے اس قدر گہرے ہو چکے ہیں کہ گورنر اسٹیٹ بینک کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑا ہے کہ ''امپورٹ کا پریشر اتنا ہے کہ اس کے لیے ڈالرز ناکافی ہیں'' جب کہ بینکوں میں ڈالرز ملکی ضروریات سے کم ہونے کی بنا پر ایل سیز نہیں کھولی جا رہیں ، ان فلوز کم ہونے اور آؤٹ فلوز پڑھنے سے خسارہ بڑھا ہے۔
اسے کم کرنے کے لیے برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی ناگزیر ہے، جب کہ ہمارے ماہرین معیشت اور فیصلہ ساز درآمدات میں کمی ہی نہیں کر پائے نتیجتا زرِ مبادلہ اس مد میں خرچ ہو رہا ہے اور ڈالرز کی مقدار کم ہو گئی ہے۔
اب تک ہم اپنے قریبی دوست ممالک ، آئی ایم ایف ، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے اربوں ڈالرز کے قرضے حاصل کر چکے ہیں لیکن پاکستان کے عوام پر ان حاصل شدہ قرضوں کا عشر ِعشیر بھی خرچ نہیں ہوا۔
یہ قرضے کہاں جاتے ہیں ، اس کی آج تک کسی نے چھان بین نہیں کی جب کہ ان قرض دینے والے اداروں کی شرائط اس قدر سخت ہوتی ہیں کہ ان پر عمل درآمد کے نتیجے میں ملک مزید مالی مسائل و مشکلات کا شکار ہوتا چلا جارہا ہے۔
تاہم اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کی معاشی صورتِ حال جس حد تک خراب ہو چکی ہے اس کا حکمران طبقہ اب ادراک کر رہا ہے لیکن جن اقدامات کے اٹھانے کی ضرورت ہے وہ ابھی تک نہیں اٹھائے جا سکے۔ پیداواری اور غیر ضروری اخراجات کو کنٹرول کرنے کی جانب قدم ضرور اٹھایا گیا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومتی اخراجات میں مسلسل اضافہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ قومی خزانے پر ریاستی مشینری کی تنخواہوں، الاوئنس اور مراعات کا بوجھ بہت زیادہ ہوچکا ہے جب کہ نجی شعبہ بینکوں کے قرضے معاف کرالیتا ہے یا ری شیڈول کرالیتا ہے، اگر یہ نہ ہوتا تو قانونی لڑائی شروع ہوجاتی جو برسوں جاری رہتی،یوں خزانے کو نقصان پہنچتا ہے، نجی شعبہ ٹیکسز دیتا ضرور ہے لیکن اپنے سائز سے کم دیتا ہے، پاکستان میں چیریٹی اداروں کی بھرمار ہوچکی ہے۔
بڑے کاروباری گروپوں نے چیریٹی ادارے بنا رکھے ہیں،مشہور کھلاڑیوں خصوصاً کرکٹرز، پاپ سنگرزنے بھی خیراتی ادارے بنا لیے ہیں،ایسے خیراتی ادروں کو سرکاری زمین مفت الاٹ کردی جاتی ہے، عمارت کی تعمیر کے لیے سرکار مالی مدد بھی فراہم کردیتی ہے، ایسے ادارے جو مشینری ،آلات یا سامان درآمد کرتے ہیں۔
ان پر کسٹمز ڈیوٹی نہیں ہوتی، اس شعبے پر ٹیکس عائد کیا جائے تواس کی مالیت اربوں روپے سالانہ بنتی ہے۔حکومت اس حوالے سے پالیسی تبدیل کرنی چاہیے،خیراتی،رفاحی اداروں کو سرکاری مراعات بند ہونی چاہیے۔
جس نے کوئی خیراتی ادارہ بنانا ہے، وہ اپنی جیب سے بنائے، ریاست کے وسائل پر اس کا کوئی حق نہیں بنتا۔ریاست جو مراعات ان خیراتی اداروں کو دیتی ہے ، وہ پیسہ سرکاری تعلیمی اداروں، ہستپالوں پر لگائے۔ کب تک قرضوں پر ریاست کو چلایا جائے گا۔
ملک چلانے کے لیے برآمدات بڑھانا بھی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ درآمدات کا لائسنس ترجیحی بنیادوں پر انھیں دیا جائے جو برآمدات کر رہے ہیں یا درآمدات کرنے والوں کے لیے لازم قرار دیا جائے کہ وہ 30 فیصد برآمدات بھی کریں۔
اس کے علاوہ برآمدات کرنے والوں کو سہولتیں فراہم کی جائیں۔ ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ترجیحات کا فیصلہ حکومت نے خود کرنا ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز سر جوڑ کر بیٹھیں کیونکہ کسی فردِ واحد یا محض حکمران طبقے کا معاملہ نہیں، پوری قوم کا اجتماعی مسئلہ ہے لہٰذا ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں آپس کی محاذ آرائی چھوڑ کر ملک بچانے کی فکر کی جائے ۔
دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی، عالمی صورتحال، معیشت، تجارت اور ترقی کے شعبوں میں تعاون کے مختلف راستوں پر تبادلہ خیال کیا۔ صدر یو ای اے نے شہباز شریف کو پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کی یقینی دہائی کرادی ہے۔
بلاشبہ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی اور استحکام کے لیے سرمایہ کاری بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
سرمایہ کار کمپنیاں جب اپنا سرمایہ مختلف شعبہ جات میں لگاتی ہیں تو اس سے پیداواری عمل بڑھتا ہے، پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے، برآمدات بڑھتی ہیں، روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں ، سرمایہ جنریٹ ہوتا ہے اور مقامی کرنسی مضبوط ہوتی ہے۔
پاکستان میں سرمایہ کاری کے بہترین مواقع موجود ہیں لیکن اس کے لیے سرمایہ کاروں کو بہترین اور محفوظ ماحول اور سازگار فضا کی فراہمی بے حد ضروری ہے۔ حکومت اگر امن و امان کی صورتحال کو مزید بہتر بنا دے اور جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنا دے تو بیرونی سرمایہ کار بھی یہاں سرمایہ کاری میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے ۔
وزیراعظم شہباز شریف پہلے ہی بیرونی سرمایہ کار کمپنیوں بالخصوص گوادر فری زون میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کے مسائل کے حل کے لیے کمیٹی قائم کرچکے ہیں۔ دوسری طرف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے بھی بیرونی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے قانون میں ترمیم منظور کرلی ہے۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں معاشی بدحالی پیدا ہوئی ہے۔
معیشت کا پہیہ رک گیا ہے، امن و امان کی صورتحال خراب ہونے اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی وجہ سے سرمایہ کاروں میں عدم تحفظ کا احساس ناگزیں ہوگیا جس کی وجہ سے سرمایہ کاری کا عمل رک گیا اور اس کے اثرات براہ راست ملکی معیشت پر مرتب ہوئے۔ بے روزگاری بڑھ گئی اور عوامی مسائل نے عوامی زندگی کو بری طرح متاثر کیا۔
ان حالات میں موجودہ حکومت نے سرمایہ کاروں کو ترغیب دینے اور انھیں ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ پاکستان اور یو ای اے نے سرمایہ کاری، توانائی اور تجارت کے شعبوں میں باہمی تعاون کو بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ پاکستان ، یو ای اے سمیت دیگر خلیجی ممالک کے مابین سرمایہ کاری، توانائی اور تجارت کے شعبوں میں باہمی تعاون کو مزید تیز کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی تمام شرائط ماننے پر راضی ہوگئی ہے۔
حکومت کے اکنامک منیجرز نے جو مانیٹری پالیسی اختیار کی ، وہ کامیاب نہیں ہوئی، ڈالر کی قدر پر کیپ لگانے کی حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہوئی بلکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طوالت کا شکار ہوگئے ،جس کا پاکستان کو نقصان ہوا۔
اب ڈالر کی قدر پر کیپ ہٹادیا گیا، اس کے بعد ڈالر کی قدر 12 روپے کا اضافہ ہوا۔ اس سے یہ فائدہ تو ہوگا کہ ڈالر کی اسمگلنگ ختم ہوگی اور حوالہ ہنڈی کے ذریعے لین دین میں بھی کمی ہوگی لیکن ملک میں مہنگائی کی شرح بہت زیادہ بلند ہوگی۔
پاکستان میں معاشی بدحالی کی جو صورتِ حال ہے اس کے مظاہر ہم ملک میں تسلسل سے دیکھ رہے ہیں۔ وزیر خزانہ کی طرف سے اگرچہ یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتِ حال بہتری کی جانب گامزن ہے۔ ملک کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔ مالی حالات پہلے سے بہتر ہیں، لیکن زمینی حقائق ان بیانات کی نفی کر رہے ہیں۔
یہ حقیقت قوم پر ظاہر ہوتی جا رہی ہے کہ موجودہ حکمران بھی سابقہ حکمرانوں کی طرح ملک کی معیشت کو کنٹرول کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی معاشی ٹیم تمام تر دعوؤں کے باوجود مالی بگاڑ کو سُلجھا نہیں پائے لیکن عوام کو اصل صورتِ حال سے آگاہ کرنے کے بجائے صرف بیانات کے ذریعے اپنی سیاسی ساکھ بچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں جب کہ اصل صورتِ حال یہ ہے کہ زرِمبادلہ کے ذخائر ملک کی تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔
بینکوں میں ڈالرز انتہائی کم ہو چکے ہیں، بڑے بڑے سرمایہ داروں اور کاروباری اداروں نے سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کر دیا ہے۔
ڈالرز کی افغانستان اسمگلنگ بدستور جاری ہے ۔ غیر یقینی کے سائے اس قدر گہرے ہو چکے ہیں کہ گورنر اسٹیٹ بینک کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑا ہے کہ ''امپورٹ کا پریشر اتنا ہے کہ اس کے لیے ڈالرز ناکافی ہیں'' جب کہ بینکوں میں ڈالرز ملکی ضروریات سے کم ہونے کی بنا پر ایل سیز نہیں کھولی جا رہیں ، ان فلوز کم ہونے اور آؤٹ فلوز پڑھنے سے خسارہ بڑھا ہے۔
اسے کم کرنے کے لیے برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی ناگزیر ہے، جب کہ ہمارے ماہرین معیشت اور فیصلہ ساز درآمدات میں کمی ہی نہیں کر پائے نتیجتا زرِ مبادلہ اس مد میں خرچ ہو رہا ہے اور ڈالرز کی مقدار کم ہو گئی ہے۔
اب تک ہم اپنے قریبی دوست ممالک ، آئی ایم ایف ، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے اربوں ڈالرز کے قرضے حاصل کر چکے ہیں لیکن پاکستان کے عوام پر ان حاصل شدہ قرضوں کا عشر ِعشیر بھی خرچ نہیں ہوا۔
یہ قرضے کہاں جاتے ہیں ، اس کی آج تک کسی نے چھان بین نہیں کی جب کہ ان قرض دینے والے اداروں کی شرائط اس قدر سخت ہوتی ہیں کہ ان پر عمل درآمد کے نتیجے میں ملک مزید مالی مسائل و مشکلات کا شکار ہوتا چلا جارہا ہے۔
تاہم اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کی معاشی صورتِ حال جس حد تک خراب ہو چکی ہے اس کا حکمران طبقہ اب ادراک کر رہا ہے لیکن جن اقدامات کے اٹھانے کی ضرورت ہے وہ ابھی تک نہیں اٹھائے جا سکے۔ پیداواری اور غیر ضروری اخراجات کو کنٹرول کرنے کی جانب قدم ضرور اٹھایا گیا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومتی اخراجات میں مسلسل اضافہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ قومی خزانے پر ریاستی مشینری کی تنخواہوں، الاوئنس اور مراعات کا بوجھ بہت زیادہ ہوچکا ہے جب کہ نجی شعبہ بینکوں کے قرضے معاف کرالیتا ہے یا ری شیڈول کرالیتا ہے، اگر یہ نہ ہوتا تو قانونی لڑائی شروع ہوجاتی جو برسوں جاری رہتی،یوں خزانے کو نقصان پہنچتا ہے، نجی شعبہ ٹیکسز دیتا ضرور ہے لیکن اپنے سائز سے کم دیتا ہے، پاکستان میں چیریٹی اداروں کی بھرمار ہوچکی ہے۔
بڑے کاروباری گروپوں نے چیریٹی ادارے بنا رکھے ہیں،مشہور کھلاڑیوں خصوصاً کرکٹرز، پاپ سنگرزنے بھی خیراتی ادارے بنا لیے ہیں،ایسے خیراتی ادروں کو سرکاری زمین مفت الاٹ کردی جاتی ہے، عمارت کی تعمیر کے لیے سرکار مالی مدد بھی فراہم کردیتی ہے، ایسے ادارے جو مشینری ،آلات یا سامان درآمد کرتے ہیں۔
ان پر کسٹمز ڈیوٹی نہیں ہوتی، اس شعبے پر ٹیکس عائد کیا جائے تواس کی مالیت اربوں روپے سالانہ بنتی ہے۔حکومت اس حوالے سے پالیسی تبدیل کرنی چاہیے،خیراتی،رفاحی اداروں کو سرکاری مراعات بند ہونی چاہیے۔
جس نے کوئی خیراتی ادارہ بنانا ہے، وہ اپنی جیب سے بنائے، ریاست کے وسائل پر اس کا کوئی حق نہیں بنتا۔ریاست جو مراعات ان خیراتی اداروں کو دیتی ہے ، وہ پیسہ سرکاری تعلیمی اداروں، ہستپالوں پر لگائے۔ کب تک قرضوں پر ریاست کو چلایا جائے گا۔
ملک چلانے کے لیے برآمدات بڑھانا بھی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ درآمدات کا لائسنس ترجیحی بنیادوں پر انھیں دیا جائے جو برآمدات کر رہے ہیں یا درآمدات کرنے والوں کے لیے لازم قرار دیا جائے کہ وہ 30 فیصد برآمدات بھی کریں۔
اس کے علاوہ برآمدات کرنے والوں کو سہولتیں فراہم کی جائیں۔ ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ترجیحات کا فیصلہ حکومت نے خود کرنا ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز سر جوڑ کر بیٹھیں کیونکہ کسی فردِ واحد یا محض حکمران طبقے کا معاملہ نہیں، پوری قوم کا اجتماعی مسئلہ ہے لہٰذا ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں آپس کی محاذ آرائی چھوڑ کر ملک بچانے کی فکر کی جائے ۔